جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

نکاح متعہ کی شرعی حیثیت

*نکاحِ مُتعہ کی شرعی حیثیت*

سوال :

مفتی صاحب! متعہ کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مختار احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح متعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک باطل اور کالعدم عقد، اور زنا ہے۔

صاحبِ فتح القدیر متعہ کی جامع تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
نکاح متعہ  ایک ایسا عقد ہے جس میں عورت سے نکاح کے اصل مقاصد، حصول اولاد اور ان کی تربیت وغیرہ مقصود نہ ہوں، بلکہ ایک معین مدت تک عقد کیا جائے اور اس معین مدت کے پورا ہوتے ہی عقد ختم ہوجائے یا عقد غیر معینہ مدت کے لئے طے پائے لیکن مقصد یہ ہو کہ جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں عقد باقی رہے گا میری واپسی کے ساتھ ہی عقد کالعدم ہو جائے گا۔ (١)

فقہاء امت  کا اس پر اجماع ہے کہ متعہ ایک ایسا نکاح ہے جس میں گواہ نہیں ہوتے اور یہ ایک مخصوص مدت کے لئے نکاح ہوتاہے کہ اس مدت کے پورا ہونے پر بغیرطلاق کے فرقت اور جدائی واقع ہوجاتی ہے اور ان دونوں کے درمیان میراث بھی جاری نہیں ہوتی۔ (٢)

معلوم ہوا کہ نکاح متعہ ایک عارضی قسم کا عقد نکاح ہے جس میں مدت انتہاء کو یا تو ابتداء میں متعین کر لیا جاتا ہے یا کسی خاص غیرمتعین مدت تک مشروط نکاح کر لیا جاتا ہے، مثلاً کسی غیر ملک میں ایک مرد کسی عورت سے اس شرط پر شادی کرے کہ جب تک میں یہاں ہوں تو یہ عقد ہمارے درمیان باقی ہے اور میرے اس وطن کو چھوڑتے ہی یہ عقد کالعدم ہو جائیگا۔ اسی طرح عقد متعہ میں ولی کا دخل نہیں ہوتا اور کوئی گواہ بھی نہیں ہوتے اور اس میں طلاق کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بغیر طلاق کے مدت پوری ہونے پر فرقت واقع ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح عقد کرنے اور میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنے پر عاقدین زنا کے مرتکب ہوں گے۔

١) ومَعْناهُ المَشْهُورُ أنْ يُوجَدَ عَقْدًا عَلى امْرَأةٍ لا يُرادُ بِهِ مَقاصِدَ عَقْدِ النِّكاحِ مِن القَرارِ لِلْوَلَدِ وتَرْبِيَتِهِ بَلْ إلى مُدَّةٍ مُعَيَّنَةٍ يَنْتَهِي العَقْدُ بِانْتِهائِها أوْ غَيْرِ مُعَيَّنَةٍ بِمَعْنى بَقاءِ العَقْدِ ما دُمْت مَعَك إلى أنْ أنْصَرِفَ عَنْك فَلا عَقْدَ۔ (فتح القدیر : ۲۴۷/۳)

٢) وقالَ ابْن عبد البر فِي (التَّمْهِيد) : أجمعُوا على أن المُتْعَة نِكاح لا إشْهاد فِيهِ، وأنه نِكاح إلى أجل تقع فِيهِ الفرْقَة بِلا طَلاق ولا مِيراث بَينهما۔ (عمدۃ القاری : ۱۷/۲۴۶)

نِكَاحُ الْمُتْعَةِ بَاطِلٌ لَا يُفِيدُ الْحِلَّ وَلَا يَقَعُ عَلَيْهَا طَلَاقٌ وَلَا إيلَاءٌ وَلَا ظِهَارٌ وَلَا يَرِثُ أَحَدُهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ فِي أَلْفَاظِ النکاحِ وَهُوَ أَنْ يَقُولَ لِامْرَأَةٍ خَالِيَةٍ مِنْ الْمَوَانِعِ: أَتَمَتَّعُ بِكِ، كَذَا مُدَّةَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ مَثَلًا أَوْ يَقُولَ أَيَّامًا أَوْ مَتِّعِينِي نَفْسَكِ أَيَّامًا أَوْ عَشَرَةَ أَيَّامٍ أَوْ لَمْ يَذْكُرْ أَيَّامًا بِكَذَا مِنْ الْمَالِ، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٨٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 صفر المظفر 1440

1 تبصرہ: