ہفتہ، 27 اکتوبر، 2018

مسبوق کا امام کے ساتھ سجدہ سہو کا حکم

*مسبوق کا امام کے ساتھ سجدہ سہو کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر مسبوق امام کے پیچھے سجدہ سہو میں سلام پھیر دے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
براہ کرم مکمل مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی، عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے گا یعنی سجدہ سہو امام کیساتھ ادا کرے گا، البتہ سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا یعنی بغیر سلام پھیرے امام کیساتھ سجدہ میں جائے گا ۔
اگر مسبوق نے امام کیساتھ سلام پھیر لیا تو پھر اگر قصداً سلام پھیرا ہے (یہ بات یاد ہو کہ میری نماز باقی ہے) تو اسکی نماز فاسد ہوگئی،
اور اگر قصداً سلام نہیں پھیرا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور سجدۂ سہو بھی لازم نہ ہوگا، کیونکہ وہ اس وقت مقتدی ہے اور مقتدی پر اس کی غلطی سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا ۔ (1)

فتاوی رحیمیہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ خاص طور پریاد رکھنا ضروری ہے بعض لوگ مسئلہ نہیں جانتے اور یہ گمان کرکے امام کے ساتھ سلام پھیر دیتے ہیں کہ ان کو بھی سلام پھیرنا چاہئے ایسے لوگوں کی نماز فاسد ہوجاتی ہے از سرنو نماز پڑھنا ضروری ہے اور گذشتہ زمانہ میں مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا ہوچکا ہے تو ان کا اندازہ کرکے قضا کرنا ضروری ہے ۔ (2)

1) ثم المسبوق انما یتابع الامام فی السہو دون السلام بل ینتظر الا مام حتی یسلم فیسجد فیتتابعہ فی سجود السہو لا فی سلامہ وان سلم فان کان عامداً تفسد صلاتہ وان کان ساھیاٍ لا تفسد ولا سھو علیہ لانہ مقتد وسھو المقتدی باطل فاذا سلم الامام للسھو یتابعہ فی السجود ویتابعہ فی التشھد.
(بدائع الصنائع ص ۱۷۶ فصل فی بیان من یجب علیہ سجود السہو ومن لایجب )

2) ولوسلم علی ظن ان علیہ ان یسلم فھو سلام عمداً یمنع البناء (کبیری ص:۴۶۵ مصری)
(فتاوی رحیمیہ 192/5)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 رجب المرجب 1439

1 تبصرہ:

  1. مفتی صاحب جہاں آپ نے قصداً سلام نہ پھیرنے پر نماز کے فاسد نہ ہونے کی بات لکھی ہے ، وہاں قصداً کی تشریح ضروری ہے کی مسئلہ جانتا ہو لیکن غلطی سے سلام پھیرا ۔ لوگ یہاں قصداً نہ کرنے سے مراد مسئلہ نہ جاننے سے لینگے

    جواب دیںحذف کریں