جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

سفر میں امیر متعین کرنے کا حکم

*سفر میں امیر متعین کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ سفر میں امیر متعین کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں، اگر ساتھ میں مستورات بھی ہوں تو کیا حکم ہے؟
--------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جب سفر کا ارادہ ہو تو اپنے میں سے کسی با اخلاق اور علم وعقل میں بڑھے ہوئے شخص کو امیر بنالینا مسنون و مستحب ہے.

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : اگر سفر میں تین شخص ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہئے.

تین شخص سے مراد جماعت ہے کہ جس کا ادنیٰ درجہ تین ہے، ویسے یہ حکم اس صورت کے متعلق بھی ہے جب کہ دو آدمی بھی ساتھ سفر کر رہے ہوں.
بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی سفر میں ایک سے زائد لوگ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ایک شخص کو اپنا امیر وسردار مقرر کر لیا جائے جو سب سے افضل ہو اور کسی کو امیر و سردار بنا لینے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر دوران سفر کسی معاملہ میں آپس میں کوئی نزاعی صورت پیدا ہو جائے تو اس امیر و سردار کی طرف رجوع کر لیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے اس کو تسلیم کرکے اپنے نزاع و جھگڑے کو ختم کر دیا جائے. امیر وسردار کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے تمام رفقاء سفر کے حق میں خیر خواہ، مہربان اور غمگسار ہو اور اپنی سرداری کو اپنے لئے محض وجہ افتخار سمجھ کر کسی بڑائی میں مبتلا نہ ہو بلکہ حقیقی معنی میں اپنے آپ کو اس کا خادم سمجھے جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے، (سید القوم فی السفر خادمہم) یعنی کسی جماعت کا سردار اصل میں اپنی جماعت کا خدمت گزار ہوتا ہے.

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لوگوں کی آراء، منزلوں، راستوں اور سفر کی مصلحتوں میں مختلف ہوتی ہیں، کسی کو امیر بنائے بغیر نظام سفر بر قرار نہیں رہ سکتا ہے، اِکائی میں نظام ہے اور کثرت میں فساد ہے. اس لئے کسی ایک کو امیر بنالیں.

اگر سفر میں مستورات ہوں تب بھی یہی حکم ہے، البتہ مستورات براہ راست امیر سے یا امیر ان سے مخاطب نہیں ہوگا، بلکہ ان کے محرم رشتہ دار کے ذریعے ہدایات دی جائے گی.

عن أبی سعید الخدری أن رسول اللہ ﷺ قال : ’’ إذا خرج ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا أحدہم ‘‘ ۔
(السنن لأبی داود:ص/۳۵۱ ، کتاب الجہاد ، فی القوم یسافرون یؤمرون أحدہم)

فلیجعلوا أحدہم أمیراً علیہم لیسہل قطع النزاع والإختلاف علیہم ، والأمر للاستحباب. (بذل المجھود، ۹/۱۹۳)

یستحب أن یؤمر الرفقۃ علی أنفسہم أفضلہم وأجودہم رأیاً ، ویطیعونہ لحدیث أبی سعید وأبی ہریرۃ قالا : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ إذا خرج ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا أحدہم ‘‘(الموسوعۃ الفقہیۃ،۲۵/۴۳)

إنما یحتاج إلی الأمیر ، لأن الآراء تختلف فی تعیین المنازل والطرق ومصالح السفر ولا نظام إلا فی الوحدۃ ولا فساد إلا فی الکثرۃ ، وإنما انتظم أمر العالم ، لأن مدبر الکل واحد {لو کان فیہما آلہۃ إلا اللہ لفسدتا} ومہما کان المدبر واحدًا انتظم أمر التدبیر ، وإذا کثر المدبرون فسدت الأمور فی الحضر والسفر ۔ (۲/۲۵۲ ، آداب السفر، احیاء علوم الدین)
مستفاد : المسائل المھمۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں