جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

کیش بیک کی رقم کا شرعی حکم

*کیش بیک کی رقم کا شرعی حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب! آج کل کیش لیس کاروبار اور لین دین عروج پر ہے۔بہت سی ایپس کمپنیاں اپنے توسط سے لین دین، ریچارج اور بلوں کی ادائیگی پر کیش بیک کی پیشکش کرتی ہیں کبھی کبھی رقم ہزاروں تک چلی جاتی ہے۔جواب طلب امر یہ ہے کہ ان کیش بیک میں ملے روپیوں کا استعمال قران وحدیث کی رو سے کس زمرے میں جاتا ہے؟
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں الله آپ کو خوب جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ کے علم، صحت اور عمرورزق میں خوب برکت عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : مبشر ندوی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں کیش بیک کی رقم لینا اور اس کا استعمال کرنا بلاکراہت جائز اور درست ہے، اس لئے کہ شرعاً بائع (فروخت کرنے والا) کو یہ حق ہے کہ وہ مشتری (خریدنے والے) کے لیے مبیع کی متعینہ قیمت میں کمی کردے، کیش بیک کی رقم بائع کی طرف سے مشتری پر تبرع، احسان اور انعام ہے۔

مسئلہ ھذا کی ایک اور صورت کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔

سود کی دو قسمیں ہیں۔

پہلا یہ ہے کہ قرض دار کو کچھ رقم ایک خاص مدت کے لیے اس شرط کے ساتھ دینا کہ واپس کرتے وقت اصل رقم سے زائد دے گا، سُود کہلاتا ہے اور اسے اُدھار کا سود کہتے ہیں۔

لما قال الامام الجصاص الرازیؒ: ھو القرض المشروط فیہ الاجل وزیادۃ مال علی المستقرض۔ (الاحکام القراٰن:ج؍۱،ص؍۴۶۹، باب البیع)

دوسرا سود معاملاتِ بیع وشراء کا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بارے میں چھ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے کہ آپس میں ان کا تبادلہ برابرہونا چاہئے،وہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور اور انگور ہیں۔ ان اشیاء میں سُود کی علت عند الاحناف قدر(پیمانہ)اور جنس ہے، اگر جنس بدل جائے اور کوئی چیز وزنی اور کیلی نہ ہوتو پھر تبادلے میں کمی بیشی جائز ہے ،اگر کسی بھی چیز کے اندر قدر اور جنس ہوتو تبادلہ کے وقت کمی یا زیادتی کی تو یہ سُود ہوگا، ان میں اُدھار کا معاملہ بھی سُود ہوگا۔ اگر سُود کی دونوں علتوں میں سے ایک عِلّت پائی جائے تو کمی بیشی جائز ہوگی لیکن اُدھار پھر بھی سُود کے زُمرہ میں آئے گا۔

قال الحصکفیؒ: الربا وشرھا فضل ولو حکمًا فدخل ربا النسیۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربوا خال عن العوج بمیعار شرعی وھو الکیل والوزن مشروط لاحد المتعاقدین فی المعاوجۃ وعلۃ القدر مع الجنس وان وجد احرم الفضل والنساء وان وجد احدھما حل الفضل وحرم النّسأ۔(الدرالمختارعلی ہامش ردالمحتار:ج؍۴،ص؍۱۷۶، باب الربوٰا)

لما فی الھندیۃ:وھو فی الشرع عبارۃ عن فضل مال لایقابلہ عوض فی معاوضۃ مال بمال وھو محرم فی کل مکیل وموزون بیع جنسہٖ وعلتہ القدروالجنس وان وجدالقدر والجنس حرم الفضل والنساء وان وجداحدھماوعدم الاٰخر حل الفضل وحرم النساء۔(الفتاوٰی الہندیۃ:ج؍۳،ص؍۱۱۷،باب الربوٰ)ومثلہ فی البحرالرائق:ج؍۶،ص؍۱۲۴،باب الربوٰ۔ (فتاویٰ حقانیہ :ج؍۶،ص؍ ۱۹۵)

درج بالا تفصیلات کی روشنی میں دیکھا جائے تو کیش بیک کی رقم پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے کہ منی ٹرانسفر یا دیگر اشیاء کی خریدی کے لیے ایپس کمپنیوں مثلاً Google tez وغیرہ کی خدمات حاصل کرنے پر جو اضافی رقم کمپنی کی جانب سے دی جاتی ہے وہ رقم انہیں بطورِ ہدیہ کمپنی کی جانب سے ملتی ہے یا اپنا ایپ استعمال کرانے اور لوگوں کو اس کی جانب راغب کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کے لئے وہ رقم بطورِ انعام ہوتی ہے، یہ رقم اُس سے نہیں لی جاتی جسے رقم ٹرانسفر کی گئی ہے، لہٰذا ہر دو صورت میں ایسی رقم کا لینا اور اس کا ذاتی استعمال شرعاً جائز اور درست ہے۔ اسے سود سمجھنا غلطی ہے۔

ویجوز للمشتري أن یزید للبائع في الثمن ویجوز للبائع أن یزید للمشتري في المبیع ، ویجوز أن یحط من الثمن ۔(قدوری،ص/۸۱ ، کتاب البیوع، البحر الرائق :۶/۱۹۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 ذی القعدہ 1439

5 تبصرے:

  1. جزاک الله فی الدارین

    بارک الله فی علومک النافع وصالح الاعمال

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ، بہترین تحقیق پیش کی ہے آپ نے۔
    اللہ اور توفیق عطا فرمائے۔
    آمین ثم

    جواب دیںحذف کریں
  3. Assalamu alaikum wa rahmatullahi wa barkatuhu

    Mere office ke taraf se ek health insurance hai jisme hum OPD fees aur medical bill ko reimburse karte hai to hume wo bill ka payment return milta hai.

    Agar hum medicine ke alawa kuch aur chiz jaisa ke oil, cream, ya cerelac lete hai magar bill medicine ka lete haibaur company re ye reimburse karate hai to kya ye kar sakte hai.

    جواب دیںحذف کریں