جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

مسجد کے فاسق متولی (ٹرسٹی) کا حکم

*مسجد کے فاسق متولی (ٹرسٹی) کا حکم*

سوال :

مزاج بخیر. ایک سوال عرض خدمت ہے.ایک ریٹائر ٹیچر 26 سال سے ایک مسجد کا متولی ہے. اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے. لیکن اس مطلقہ سے بے پردہ بات چیت کرتا ہے. نیز وہ ایک گرلز اسکول چلاتا ہے وہاں بھی لیڈیز ٹیچرس سے پردہ کی رعایت کے بغیر گھنٹوں بات چیت، ہنسی مذاق کرتا ہے. اس سے کہا گیا کہ جب تین طلاق دیدی تو بات چیت اور بے تکلفی اس مطلقہ ٹیچر سے جائز نہیں تو کہتا ہے کہ اسنے معافی مانگ لی ہے. سوال یہ ہے کہ اسکا یہ ناجائز عمل کے ساتھ متولی مسجد بنے رہنا کیسا ہے؟
(المستفتی : عبداللہ بھائی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد اسلام کے شعائر میں سے ہے جو آدمی اسلامی شعائر کا محافظ، شریعت کا پابند ہو، جس کے دل میں خدا کے خوف اور محبت نے گھر کر لیا ہو وہی اس کا متولی بن سکتا ہے، جو شعائر اسلام کا محافظ نہ ہو، شریعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو یعنی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا ہو وہ اللہ کے گھر کا متولی نہیں بن سکتا۔ فاسق شخص کو مسجد کا متولی بنانے میں مسجد، شعائر دین امام اور مؤذن کی نیز مصلیوں کی بھی توہین و تحقیر لازم آتی ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے :

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ. (سورۂ توبہ، آیت 18)
ترجمہ: بے شک مسجد کو آباد کرنے کا کام ان پاک لوگوں کا ہے جو خدا پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے، نماز کی پابندی کرے زکوٰۃ ادا کرے اور سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرے.

اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں مولانا ابو الکلام آزادؒ لکھتے ہیں : قرآن کریم میں یہ حقیقت بھی واضح کر دی گئی ہے کہ خدا کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمانوں کو پہنچتا ہے، اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہوسکتے ہیں، یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق وفاجر آدمی مسجد کا متولی نہیں ہوسکتا، کیونکہ دونوں (خانہ خدا اور فاسق و فاجر) میں کوئی مناسبت باقی نہیں رہتی بلکہ متضاد باتیں جمع ہوجاتی ہیں (وہ یہ کہ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اورفاسق و فاجر متولی خدا پر ستی سے نفور (بھاگنے والا ہے)۔(تفسیر ترجمان القرآن ص ۸۰ ج۲)

فتاویٰ ابن تیمیہ میں ہے : ولا یجوز تولیۃ الفاسق مع امکان تولیۃ البر۔
ترجمہ : نیک دیندار پرہیز گار متولی ملنے کے باوجود  فاسق  (غیر پابندی شرع) کو متولی بنانا درست نہیں۔(ص۱۵۰ج۱)

’’اسلام کا نظام مساجد‘‘ میں ہے کہ خدا کے گھر کی خدمت وہی کرے جو خدا کے دوست ہوں، جن کے دل میں اس کی محبت وخشیت گھر کر چکی ہو.(ص۱۲۹)
ظاہری طور پر بھی وہ ایسا ہو جس سے خدا پرستی نمایاں ہو۔ (ایضاً)

درمختار شامی وغیرہ میں ہے : جب متولی میں شرعی اعذار اور قباحیتں پیدا ہوجائیں تو اسے عہدہ سے برطرف کر دیا جائے جیسے کہ وہ غیر مامون ہو، عاجز ہو فاسق ہو فاجر ہو یا اسے شراب نوشی کی عادت ہوگئی ہو تو اسے تولیت سے ہٹا دینا ضروری ہے. (ص۴۲۱،ص۴۲۲،ج۳)(اسلام کا نظام مساجد ص ۲۲۲)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ متولی بنانے میں ان باتوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے، دینی علم رکھتا ہو، وقف کی احکام سے واقف ہوا امانتدار ہو، متقی پرہیزگار ہو یعنی اس کی زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ہو، مگر افسوس ! فی زماننا صرف مالداری دیکھی جاتی ہے اگرچہ وہ بے علم و عمل ہو، نماز وجماعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو۔ حالانکہ مسجد کا متولی حقیقت میں نائبِ خدا شمار ہوگا تو ایسے عظیم الشان منصب کے لئے اس کے شایان شان متولی ہونا چاہئے، مگر افسوس ! آج مساجد کی حالت ’’ غریب کی بیوی سب کی بھابھی۔‘‘ جیسی بنا دی گئی ہے، لائق نالائق، فاجر، فاسق سب متولی بننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بڑے بڑے عہد ے نا اہلوں کے سپرد کئے جائیں گے اور قوم کا سردار فاسق بنے گا۔ (مشکوٰۃ ص ۴۷۰ باب اشراط الساعۃ)

صورت مسئولہ میں مذکورہ متولی کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں، اس لئے کہ نامحرم عورتوں کو قصداً دیکھنا اور ان سے ہنسی مذاق کرنا ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے اسے آنکھ اور ہاتھ کے زنا سے تعبیر کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان (زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (مسلم شریف ج۴ ص ۳۳۶ کتاب القدر باب قدر علی ابن ادم حظہ‘ من الزنا وغیرہ)

حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ  کو  ہدایت فرمائی کہ اے علی ! نگاہ کے بعد نگاہ نہ ڈالو کہ نگاہ اول (بلا ارادہ کے اچانک نظر) قابل عفو ہے، دوسری نظر (جو قصداً ہو) معاف نہیں۔ (ابوداؤد ، بحوالۂ مشکوٰۃ ص ۲۶۹ ایضاً)

لہٰذا اگر مذکورہ متولی اپنے اس فعلِ بد پر شرمندہ و پشیمان ہو کر توبہ و استغفار کرلیتے ہیں، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرلیتے ہیں تو انھیں مسجد کے متولی کے عہدہ پر باقی رکھا جاسکتا ہے، بصورت دیگر ایسے شخص کو بر طرف کردیا جائے۔

مرتکب الکبیرۃ فاسق۔ (نبراس شرح شرح عقائد ۲۲۸)

الصالح للنظر من لم یسال الولایۃ للوقف ولیس فیہ فسق یعرف ھکذا فی فتح القدیر وفی الاستعاف: لا یولی إلا امین قادر بنفسہ او بنائبہ ویستوی فیہ الذکر والانثی , ویشترط للصحۃ بلوغہ وعقلہ کذا فی البحر الرائق۔‘‘ (فتاویٰ ہندیہ: ۲/۴۰۸)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن العبد إذا اعترف ثم تاب تاب اللّٰہ علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح ۱؍۲۰۳ رقم: ۲۳۳۰، صحح البخاري رقم: ۴۱۴۱، صحح مسلم رقم: ۲۷۷۰)
مستفاد : فتاویٰ رحیمیہ: ۳/۱۶۴، ۱۶۶) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1439

1 تبصرہ: