بدھ، 17 اکتوبر، 2018

اجتماعی قربانی میں بچی ہوئی رقم کا حکم

*اجتماعی قربانی میں بچی ہوئی رقم کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ہرسال کی طرح امسال بھی بعض مدارس کی طرف سے اجتماعی قربانی کا نظم کیا گیا ہے، 2500 روپئے فی حصہ طے کیا گیا، اس حساب سے ایک جانور کی قیمت 17500 ہوگی، لیکن عام طور پر جانور اس سے کم قیمت میں مل جاتا ہے، مثلاً 15000 کا جانور مل جائے اور قصاب کی اجرت اور دیگر اخراجات وضع کرنے کے بعد 1000 روپئے بچ جائے، تو کیا اس رقم کا استعمال مدرسہ والے حصہ لینے والوں کی اجازت کے بغیر کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا اشتہار میں لکھ دینے سے کہ جانور کی قیمت سے بچنے والی رقم کی مدرسہ میں رسید بنادی دی جائے گی، تو کیا اسے اجازت مان کر بقیہ رقم مدرسہ میں جمع کرنا درست ہوگا؟
براہ کرم واضح اور مدلل جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی۔
(المستفتی ‌: عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اجتماعی قربانی میں بچی ہوئی رقم قربانی میں حصہ لینے والوں کی امانت ہے، لہٰذا ان کی اجازت کے بغیر منتظمین کے لئے بقیہ رقم کا مدرسہ میں رکھ لینا جائز نہیں ہے، بقیہ رقم کا واپس کرنا ضروری ہے۔ البتہ رقم جمع کرتے وقت اگر شرکاء سے اسکی اجازت لے لی جائے کہ قربانی کے اخراجات سے  بچی ہوئی رقم مدرسہ میں جمع کرلی جائے گی، اور وہ اس پر راضی ہوں تو پھر بقیہ رقم کو مدرسہ میں داخل کرسکتے ہیں۔ (1)

اشتہارات میں اعلان کردینا بھی کافی ہے، کیونکہ ظاہر ہے لوگ اشتہار دیکھ کر ہی آتے ہیں، اور ان کا یہاں آنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس شرط پر راضی ہیں۔

اور اگر منتظمین بطور اجرت کچھ لینا چاہیں تو پہلے ہی طئے کرلیں، اجرت طے کیے بغیر بچی ہوئی رقم رکھ لینا درست نہیں ہے۔ (2)

1) لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ، (۶/۱۶۶، کتاب الغصب ، مشکوۃ المصابیح :ص/۲۵۵ ، السنن الدارقطني :۳/۲۲، کتاب البیوع ، رقم الحدیث:۲۸۶۲)

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ۔
(۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر، الدر المختار مع الشامی)

2) وشرطہا : کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ، (الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۱۱)

جہالۃ المعقود علیہ تفسد العقد، (قواعد الفقہ، ص/۷۵)
(مستفاد : المسائل المہمۃ فی ماابتلت بہ العامۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
*الجواب صحيح والمجيب مصيب*
*مسعود اختر قاسمی غفراللہ لہ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں