بدھ، 27 جولائی، 2022

رمی جمرات میں مقبول کنکروں کا اٹھالیا جانا

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا یہ بات درست ہے کہ رمی کے وقت جن حجاج کے کنکر قبول ہوجاتے ہیں وہ غائب کر دیئے جاتے ہیں؟ صرف غیر مقبول کنکر ہی وہاں رہتے ہیں ورنہ وہاں ہر سال کنکر یوں کے پہاڑ لگ جایا کرتے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : رمی میں جو کنکریاں قبول ہوجاتی ہیں انہیں اٹھالیا جاتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو تمہیں یہاں پہاڑوں کی طرح (کنکریوں کے ڈھیر) نظر آئیں۔

یہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن اس درجہ کی نہیں ہیں کہ اسے بالکل رد کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو فقہاء کرام نے بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی یہ روایت بیان تو کی جاسکتی ہے لیکن مقبول کنکریوں کے اٹھالیے جانے کی بات کو بالکل یقینی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ممکن اور گمان کے درجہ میں سمجھا جائے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِىُّ حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِى أُنَيْسَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنِ ابْنٍ لأَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ الْجِمَارُ الَّتِى يُرْمَى بِهَا كُلَّ عَامٍ فَنَحْتَسِبُ أَنَّهَا تَنْقُصُ فَقَالَ، إِنَّهُ مَا يُقْبَلُ مِنْهَا رُفِعَ وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَرَأَيْتَهَا أَمْثَالَ الْجِبَالِ۔ (سنن دارقطنی، رقم : ٢٧٥٢)

(قَوْلُهُ لِحَدِيثِ إلَخْ) أَيْ مَا رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ وَالْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ عَنْ «أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - قَالَ: قُلْت يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ الْجِمَارُ الَّتِي نَرْمِي بِهَا كُلَّ عَامٍ فَنَحْسَبُ أَنَّهَا تَنْقُصُ فَقَالَ إنَّ مَا يُقْبَلُ مِنْهَا رُفِعَ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَرَأَيْتهَا أَمْثَالَ الْجِبَالِ» " شَرْحُ النُّقَايَةِ لِلْقَارِي... وَفِي الْفَتْحِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: قُلْت لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا بَالُ الْجِمَارِ تُرْمَى مِنْ وَقْتِ الْخَلِيلِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - وَلَمْ تَصِرْ هِضَابًا أَيْ تِلَالًا تَسُدُّ الْأُفُقَ؟ فَقَالَ: أَمَا عَلِمْت أَنَّ مَنْ يُقْبَلُ حَجُّهُ يُرْفَعُ حَصَاهُ۔ (شامی : ٢/٥١٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1443

منگل، 26 جولائی، 2022

پیدل حج کے لیے جانے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیرالا سے ایک نوجوان پیدل سفر حج پر نکلا ہوا ہے۔ کچھ لوگ ان صاحب کی بہت تعریف کر رہے ہیں اور کچھ لوگ اسے ریاکار کہہ رہے ہیں۔ براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کی روشنی میں آج کے حالات میں جبکہ سفر حج کے دوسرے آسان ذرائع موجود ہیں تو پیدل جانا کیسا ہے؟ ایک میسیج ان کے خلاف گردش کر رہا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ان کا یہ سفر حج شریعت کے مزاج کے خلاف ہے وہ جان بوجھ کر اپنی  جان ہلاکت میں ڈال رہے ہیں دکھاوا کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر سلطان، کراڈ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان کے مطابق حج، صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ اور حدیث شریف میں استطاعت کی وضاحت یہ کی گئی ہے کہ زاد و راحلہ یعنی سفر میں کھانے پینے کے سامان اور وہاں پہنچنے کے لئے سواری کا انتظام ہو۔ اور اگر سواری کا انتظام نہ ہوتو راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق حج فرض ہی نہیں ہوتا۔ البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ : وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ۔ (سورہ حج، آیت : ٢٧) میں ہے کہ حج کے لیے لوگ پیدل بھی آئیں گے اور سواری پر بھی آئیں گے۔ جس کی وجہ سے پیدل حج کا جائز ہونا بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن پیدل حج کی فضیلت پر جو حدیث شریف بیان کی جاتی ہے کہ "ہر قدم پر اتنی اتنی نیکی ملی گے جو حرم کی نیکیوں کے برابر ہوگی" تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ یا اطراف مکہ کے رہنے والے ہیں یا اتنی دوری پر ہیں کہ بلا مشقت وہ پیدل چل کر آسکتے ہیں۔ دور دراز سے آنے والے جنہیں آفاقی کہا جاتا ہے ان کے لیے سواری پر آنا ہی افضل ہے۔

اسی طرح پیدل حج کی ممانعت پر جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیدل حج پر جانا مطلقاً ناجائز ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان روایات میں جسے منع کیا ہے وہ ایک عورت ہے اور ایک بوڑھے اور کمزور شخص ہیں جو بلاشبہ پیدل حج کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا ان روایات کی وجہ سے پیدل حج کو سرے سے ناجائز نہ سمجھا جائے بلکہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔

معلوم ہوا کہ مکہ سے دور دراز رہنے والے مثلاً ہندوستان وغیرہ کے باشندوں کے لیے پیدل حج پر جانا صرف جائز ہے، فرض یا واجب نہیں۔ بلکہ سنت بھی نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  نہ پیدل حج کیا اور  نہ ہی پیدل حج کرنے کی ترغیب دی ہے۔

پیدل حج کے سوال پر مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا تشفی بخش جواب لکھا ہے جو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے۔
حج کی فرضیت کے لئے یہ شرط ہے کہ مکہ معظمہ تک سواری پر پہنچنے کے لئے روپیہ ہو اور سفر کے ضروری مصارف اور واپسی تک اہل و عیال کے نفقہ کی رقم بھی رکھتا ہو۔ جس کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ سواری پر جاسکے اس پر پیدل جاکر حج کرنا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص پیدل حج کرے تو ناجائز بھی نہیں، مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہو تاکہ راستہ کی تکلیف سے دل تنگی اور دشواری پیش نہ آئے اور یہ پیدل جانا محض ثواب اور رضائے الہی کے لئے ہو شہرت اور ناموری مقصود نہ ہو۔ اپنے اس فعل کو اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ شہرت دینا ناجائز ہے کہ اس میں سوائے شہرت کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے جن بزرگوں نے ایسے کام کئے ہیں انہوں نے حتی الامکان چھپانے کی سعی کی ہے اور اس کی غرض بھی ریاضت اور قہر نفس ہے نہ کہ اتباع سنت کیونکہ آنحضرت ﷺ نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ترغیب دی بلکہ ایک عورت نے منت مانی تھی کہ پیدل حج کروں گی تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا مروہا فترکب کہ اس کو کہو کہ سواری پر جائے۔

یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی اسی لئے امور شاقہ فرض نہیں فرمائے لیکن کسی خاص مصلحت دینیہ سے نفس کو مقہور کرنے اور ریاضت کی نیت سے کوئی دشوار بات کوئی شخص اختیار کرلے تو بشرطیکہ وہ شہرت و ناموری و مقبولیت کی نیت سے پاک ہو تو جائز ہے۔ مگر اس کو طریق سنت اور افضل نہ سمجھا جائے کیونکہ افضل وہی مراد ہے جو پورے شوق و رغبت اور نشاط سے ہو خواہ تھوڑا ہو لیصل احدکم نشاطہ کا حکم اسی پر شاہد ہے بزرگوں کے پیادہ سفر حج کو دلیل بنانابھی درست نہیں کہ ان جیسا خلوص صفائے قلب بھی میسر نہیں۔ (کفایت المفتی : ٤/٣٥٠)

خلاصہ یہ ہے کہ جب نیت صاف ہو شہرت نام ونمود اور ریکارڈ بنانا پیشِ نظر نہ ہو، نیز پیدل جانے کے سارے انتظامات کرلیے گئے ہوں۔ اور کسی خاطرخواہ تکلیف کا سامنا کرنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور شخص سے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ وہ خود کافی مالدار ہے اور انہوں نے اپنے اہل وعیال کے نان ونفقہ کا انتظام بھی کردیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام قانونی کارروائی کرلی ہے اور پیدل یا بائک وغیرہ پر ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنے والوں کی طرح ٹریننگ بھی لے لی ہے۔ نیز موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے راستے کا تعین اور قیام وغیرہ کی دشواری پہلے زمانے کی بہ نسبت بہت کم ہوچکی ہے۔ اور وہ دوسروں کے رحم وکرم پر بھی نہیں نکلے ہیں، بلکہ وہ حتی الامکان اپنے ذاتی خرچ سے قیام وطعام کا نظم کرتے ہیں، لہٰذا ان کا پیدل حج کے لیے جانا جائز ہے۔ لیکن چونکہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، چنانچہ دوسرے لوگ اگر اس کا ارادہ کررہے ہوں وہ اپنا ارادہ ترک کردیں کیونکہ موجودہ حالات کے اعتبار سے افضل ہمارے یہاں وہی حج ہے جو مروجہ سواری یعنی ہوائی جہاز کے ذریعے ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ سوال نامہ میں مذکور شخص کے پیدل حج کو سنت یا بہت بڑا کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں یا جو لوگ پیدل حج کو ناجائز یا جاہلانہ عمل سمجھ رہے ہیں ان سب کو اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔

نوٹ : جن لوگوں نے پیدل حج کے لیے نکلنے والے اس نوجوان کو ایک تماشہ بنالیا ہے اور اسے تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے، اس کے راستے میں پھول وغیرہ بچھاکر فضول خرچی کررہے یہاں تک کہ خواتین بھی اس پر پھولوں کی بارش کررہی ہیں۔ یہ سب خلافِ شرع اور ناجائز عمل ہے، خواتین کو تو قطعاً اس کے استقبال کے لیے سڑکوں پر نہیں آنا چاہئے اور مردوں کو بھی بھیڑ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ عمل اس نوجوان کے لیے ذہنی، جسمانی نیز قانونی طور پر دشواری کا سبب بن سکتا ہے۔ صرف اتنا کرلینا کافی ہوگا کہ جس علاقے سے وہ گذرے اس علاقے کے سرکردہ افراد اس سے ملاقات کرکے خیر خیریت دریافت کرلیں اور کسی چیز کی ضرورت ہوتو وہ مہیا کردیں، اور اسے اپنے سفر پر روانہ کردیں۔

امید ہے کہ مسئلہ ھذا پر اتنی باتیں مستفتی اور دیگر قارئین کے لیے کافی شافی ہوں گی۔

قالَ اللہُ تعالیٰ : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ (سورہ آلِ عمران : ۹۷)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : الزَّادُ، وَالرَّاحِلَةُ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۸۱۳)

الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا علی الزاد والراحلۃ فاضلا عن المسکن وما لابد منہ، وعن نفقۃ عیالہ إلی حین عودہ۔ الخ (ہدایۃ، کتاب الحج، أشرفیہ دیوبند ۱/ ۲۳۱-۲۳۳)

(وَلَنَا) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَّرَ الِاسْتِطَاعَةَ: بِالزَّادِ، وَالرَّاحِلَةِ جَمِيعًا فَلَا تَثْبُتُ الِاسْتِطَاعَةُ بِأَحَدِهِمَا، وَبِهِ تَبَيَّنَ أَنَّ الْقُدْرَةَ عَلَى الْمَشْيِ لَا تَكْفِي لِاسْتِطَاعَةِ الْحَجِّ ثُمَّ شَرْطُ الرَّاحِلَةِ إنَّمَا يُرَاعَى لِوُجُوبِ الْحَجِّ فِي حَقِّ مَنْ نَأَى عَنْ مَكَّةَ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ، وَمَنْ حَوْلَهُمْ فَإِنَّ الْحَجَّ يَجِبُ عَلَى الْقَوِيِّ مِنْهُمْ الْقَادِرِ عَلَى الْمَشْيِ مِنْ غَيْرِ رَاحِلَةٍ؛ لِأَنَّهُ لَا حَرَجَ يَلْحَقُهُ فِي الْمَشْيِ إلَى الْحَجِّ كَمَا لَا يَلْحَقُهُ الْحَرَجُ فِي الْمَشْيِ إلَى الْجُمُعَةِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/١٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1443

ہفتہ، 23 جولائی، 2022

قربانی کا گوشت کب تک محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

سوال :

مفتی صاحب! تشریق کے معنی کیا ہیں؟ اور قربانی کے گوشت کا ذخیرہ کب تک کیا جا سکتا ہے؟
(المستفتی : ڈاکٹر زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف وجوہات فقہاء نے لکھی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ "تشریق اللحم" یعنی گوشت خشک کرنے سے ماخوذ ہے، ان دنوں میں جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خشک کیا جاتا تھا، دوسرے یہ کہ یہ "شروق الشمس" سے ہے، یعنی نمازِ عید کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کرنا وغیرہ۔

قربانی کا حکم آنے کے بعد ابتداء میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت تھی، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی کہ تین دن کے بعد بھی قربانی کا گوشت استعمال کرسکتے ہیں، جیسا کہ درج ذیل متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت سلمہ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی، تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں، جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو، پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔ (١)

مسلم شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ بن واقد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کیا۔ سیدنا عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے یہ عمرہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا : سچ کہا عبداللہ نے، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیدالاضحیٰ میں شریک ہونے کے لیے آئے۔ (اور وہ لوگ محتاج تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کا گوشت تین دن کے موافق رکھ لو، باقی خیرات کر دو۔ (تاکہ یہ محتاج بھوکے نہ رہیں اور ان کو بھی کھانے کو گوشت ملے) اس کے بعد لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! لوگ اپنی قربانی سے مشکیں بناتے تھے (ان کی کھالوں کی) اور ان میں چربی پگھلاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سےمنع فرمایا ہے (اور اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ قربانی کا کوئی جز تین دن سے زیادہ رکھنا نہ چاہیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو ان محتاجوں کی وجہ سے منع کیا تھا، جو اس وقت آگئے تھے، اب کھاؤ اور رکھ چھوڑو اور صدقہ دو۔ (٢)

مسلم شریف میں ہے :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم کھاؤ اور زاد راہ بناؤ اور جمع کرو۔ (٣)

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
قربانی کا گوشت جتنے دن بھی رکھ کر کھانا ممکن ہو کھاسکتے ہیں، حدیث شریف میں اس کی مطلقاً اجازت ہے، قربانی کا گوشت محرم کی پہلی تاریخ سے پہلے پہلے ہی کھانا لازم وضروری نہیں ہے بلکہ محرم کا مہینہ داخل ہوجانے کے بھی کھاسکتے ہیں،محرم کا مہینہ شروع ہوجانے سے گوشت حرام نہیں ہوجاتا، آپ نے جو سنا وہ درست نہیں۔ (رقم الفتوی : 37160) 

درج بالا تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ جتنے دن بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ جس حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ وقتی طور پر تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔

١) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ، فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَفِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ. فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي ؟ قَالَ : كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ؛ فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٥٦٩)

٢) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ : فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ ، فَقَالَتْ : صَدَقَ ؛ سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ : دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ادَّخِرُوا ثَلَاثًا، ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ ". فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ، وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَمَا ذَاكَ ؟ " قَالُوا : نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ. فَقَالَ : إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا، وَادَّخِرُوا، وَتَصَدَّقُوا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٩٧١)

٣) عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ : كُلُوا، وَتَزَوَّدُوا، وَادَّخِرُوا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٩٧٢)

قال النبي صلی علیہ السلام : ونَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الأضاحِي فَوْقَ ثَلاثٍ فَأمْسِكُوا ما بَدا لَكُمْ، وفي المرقاة : قالَ الطِّيبِيُّ : نَهاهُمْ أنْ يَأْكُلُوا ما بَقِيَ مِن لُحُومِ أضاحِيِّهِمْ فَوْقَ ثَلاثِ لَيالٍ، وأوْجَبَ عَلَيْهِمُ التَّصَدُّقَ بِهِ، فَرَخَّصَ لَهُمُ الإمْساكَ ما شاءُوا۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٤/١٢٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی الحجہ 1443

بدھ، 20 جولائی، 2022

طلاق کے بعد شوہر کی ذمہ داری؟

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک لڑکی کا طلاق ہوا ہے۔ طلاق کے بعد شوہر پر عدت وغیرہ سے متعلق کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ لڑکی کو ایک بچی بھی ہے اس کے نان ونفقہ کا کیا مسئلہ ہے؟ مفصل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کے بعد شریعت مطہرہ نے شوہر پر کچھ ذمہ داری عائد کی ہے، چنانچہ بیوی کی عدت (تین ماہواری اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل) کی مدت میں اس کے رہنے سہنے کھانے پینے کا خرچ شوہر پر واجب کیا گیا ہے، شوہر اپنی حیثیت کے اعتبار سے  عدت کا خرچہ ادا کرے گا، شریعت کی طرف سے اس کی کوئی مخصوص مقدار متعین نہیں ہے۔ ہمارے یہاں فی الحال عدت کا خرچ اوسط درجہ کے لوگوں کا دورہ سو سے تین سو ایک دن کے حساب سے لیا جاتا ہے۔ لہٰذا فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی رقم متعین کرلیں۔ اس سلسلے میں شوہر کو خود سے احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق والدہ کا ہے۔ وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر بچی والدہ کے پاس رہے گی تو اس کا نان ونفقہ والد کے ذمہ ہی ہوگا، اس کی مقدار ایک دن کے حساب سے عموماً پچاس سے سو روپے کے آس پاس طے کی جاتی ہے، لہٰذا فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی رقم مقرر کرلیں۔

قال اللہ تعالیٰ : أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۶)

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۷)

وَيُعْتَبَرُ فِي هَذِهِ النَّفَقَةِ مَا يَكْفِيهَا، وَهُوَ الْوَسَطُ مِنْ الْكِفَايَةِ، وَهِيَ غَيْرُ مُقَدَّرَةٍ؛ لِأَنَّ هَذِهِ النَّفَقَةَ نَظِيرُ نَفَقَةِ النِّكَاحِ فَيُعْتَبَرُ فِيهَا مَا يُعْتَبَرُ فِي نَفَقَةِ النِّكَاحِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٥٨)

وإذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنی۔ (ہدایہ، اشرفی دیوبند ۲/۴۴۳)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا کَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَائً وَثَدْيِي لَهُ سِقَائً وَحِجْرِي لَهُ حِوَائً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْکِحِي۔ (السنن لأبی داود : ۳۱۰، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد)

ونفقۃ الأولاد الصغار علی الأب، لا یشارکہ فیہا أحدکما لا یشارکہ فی نفقۃ الزوجۃ۔ (الہدایۃ، کتاب الطلاق، باب النفقۃ : ۲/۴۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی الحجہ 1443

جمعہ، 15 جولائی، 2022

کیا پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کی روح بھٹکتی رہتی ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ہمارے ایک دوست نے ایک سوال کیا ہے آپ رہنمائی فرما دیں۔
جو لوگ پانی میں ڈوب کر مرتے ہیں یا ایکسیڈنٹ میں مرتے ہے یا بجلی میں لپٹ کر مر جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ کیا ان کی روح بھٹکتی رہتی ہے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح مقام عِلِّيِّينْ میں اور بُرے لوگوں کی ارواح مقام سِجِّیْنْ میں ہوتی ہیں، یعنی علیین نیکوں اور سجین بروں کا ٹھکانہ ہے۔ خواہ ان کی موت پانی میں ڈوب کر ہو یا کسی اور حادثہ میں یا پھر طبعی طور پر ہوئی ہو۔

یہ دونوں مقامات کس جگہ ہیں؟ اس کے متعلق حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سجین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیر عرش ہے۔ (مسند احمد)

لہٰذا یہ سمجھنا کہ پانی میں ڈوب کر یا پھر کسی حادثے میں مرنے کے بعد میت کی روح دنیا میں اور جس جگہ اس کی موت ہوئی ہے وہاں بھٹکتی ہے قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے۔ بلکہ یہ ہندوانہ، جاہلانہ اور بالکل باطل عقیدہ ہے جس کا ترک کرنا اور اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ۔ (المطففین : ۷) كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ۔ (المطففین : ۱۸) قلنا وجہ التوفیق : أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ (مظہری : ۱۰/ ۲۲۵)

وقال کعب : أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس۔ (کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی الحجہ 1443