جمعرات، 14 جولائی، 2022

پایہ سے متعلق دو روایات کی تخریج وتشریح

سوال :

محترم مفتی صاحب ! بقرعید کے موقع پر دو احادیث سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہیں۔ جن میں ایک میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قربانی کے جانور کا پایہ حفاظت سے رکھ دیا جاتا تھا پھر پندرہ دن کے بعد اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے پکایا جاتا۔ اور دوسری میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی مجھے پایہ ہدیہ کرے تو میں اسے قبول کروں گا۔ براہ کرم ان دونوں کی تحقیق اور تشریح بیان فرمائیں تاکہ صحیح بات کا ہمیں علم ہو۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پہلی روایت سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے جو مکمل اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم پائے اٹھا کر رکھ لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قربانی کے پندرہ یوم بعد انہیں تناول فرماتے تھے۔ (١)

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے لیے بھی ایسا کرنا ضروری ہے یا قربانی کے جانور کے پائے پندرہ دن بعد کھانا سنت ہے۔ بلکہ یہ ہماری سہولت پر ہے۔ جب ہماری سہولت تب کھا سکتے ہیں، خواہ پندرہ دن سے پہلے کھائیں یا پندرہ دن بعد۔ شرعاً اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔

دوسری روایت بخاری شریف کی ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر میری پائے کی بھی دعوت کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر میرے پاس بطور تحفہ ایک دست بھی بھیجا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ (٢)

"کراع" بکری کی پنڈلی کو کہتے ہیں آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے صرف بکری کی پنڈلی دے جو کہ ایک معمولی چیز ہے کھانے کے لئے بلائے تو میں اس کی دعوت قبول کر لوں گا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری کا دست بھی بھیجے گا تو میں اسے بھی بڑی خوشی کے ساتھ قبول کروں گا۔

اس ارشاد میں اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ مخلوق اللہ کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری اور شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی ذات کی وجہ سے کسی چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی درجے کے انسان کا دل بھی دکھے یا وہ کسی بھی طرح کے احساس کمتری میں مبتلا ہو، گویا آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعے اس بات کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس انتہائی معمولی درجہ کا بھی کوئی تحفہ لے کر آئے تو اسے خوشی و رغبت کے ساتھ قبول کرو۔ (مظاہر حق)

١) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ، فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٣٣١٣)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَوْ دُعِيتُ إِلَى كُرَاعٍ لَأَجَبْتُ، وَلَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥١٧٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی الحجہ 1443

2 تبصرے: