بدھ، 20 جولائی، 2022

طلاق کے بعد شوہر کی ذمہ داری؟

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک لڑکی کا طلاق ہوا ہے۔ طلاق کے بعد شوہر پر عدت وغیرہ سے متعلق کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ لڑکی کو ایک بچی بھی ہے اس کے نان ونفقہ کا کیا مسئلہ ہے؟ مفصل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کے بعد شریعت مطہرہ نے شوہر پر کچھ ذمہ داری عائد کی ہے، چنانچہ بیوی کی عدت (تین ماہواری اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل) کی مدت میں اس کے رہنے سہنے کھانے پینے کا خرچ شوہر پر واجب کیا گیا ہے، شوہر اپنی حیثیت کے اعتبار سے  عدت کا خرچہ ادا کرے گا، شریعت کی طرف سے اس کی کوئی مخصوص مقدار متعین نہیں ہے۔ ہمارے یہاں فی الحال عدت کا خرچ اوسط درجہ کے لوگوں کا دورہ سو سے تین سو ایک دن کے حساب سے لیا جاتا ہے۔ لہٰذا فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی رقم متعین کرلیں۔ اس سلسلے میں شوہر کو خود سے احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق والدہ کا ہے۔ وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر بچی والدہ کے پاس رہے گی تو اس کا نان ونفقہ والد کے ذمہ ہی ہوگا، اس کی مقدار ایک دن کے حساب سے عموماً پچاس سے سو روپے کے آس پاس طے کی جاتی ہے، لہٰذا فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی رقم مقرر کرلیں۔

قال اللہ تعالیٰ : أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۶)

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۷)

وَيُعْتَبَرُ فِي هَذِهِ النَّفَقَةِ مَا يَكْفِيهَا، وَهُوَ الْوَسَطُ مِنْ الْكِفَايَةِ، وَهِيَ غَيْرُ مُقَدَّرَةٍ؛ لِأَنَّ هَذِهِ النَّفَقَةَ نَظِيرُ نَفَقَةِ النِّكَاحِ فَيُعْتَبَرُ فِيهَا مَا يُعْتَبَرُ فِي نَفَقَةِ النِّكَاحِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٥٨)

وإذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنی۔ (ہدایہ، اشرفی دیوبند ۲/۴۴۳)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا کَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَائً وَثَدْيِي لَهُ سِقَائً وَحِجْرِي لَهُ حِوَائً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْکِحِي۔ (السنن لأبی داود : ۳۱۰، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد)

ونفقۃ الأولاد الصغار علی الأب، لا یشارکہ فیہا أحدکما لا یشارکہ فی نفقۃ الزوجۃ۔ (الہدایۃ، کتاب الطلاق، باب النفقۃ : ۲/۴۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی الحجہ 1443

2 تبصرے: