منگل، 5 جولائی، 2022

کیا دو دانت کا جانور قربانی کے لیے نہیں لینا چاہیے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ قربانی کے جانور کے لیے عمر شرط ہے یا دانت؟ اگر دو دانت آچکے ہیں تب بھی بکرے کو ایک سال یا بڑے جانور کو دو سال کا نہیں سمجھا جائے؟ کیا قربانی کا جانور دو دانت کا نہیں لینا چاہیے بلکہ چار دانت کا لینا چاہیے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حامد اختر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے شریعت مطہرہ میں ان کی ایک خاص عمر متعین کی گئی ہے، یعنی بکرا،بکری وغیرہ کی عمر ایک سال، گائے، بھینس وغیرہ کی دو سال، اور اونٹ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے۔ دنبہ اور بھیڑ وغیرہ اگر چھ ماہ کا ہوجائے، لیکن وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔

معلوم ہوا کہ اصلًا عمر کی قید ہے۔ اور دو دانت کا ہونا علامت ہے۔ عموماً یہ علامت درست ہی ہوتی ہے، یعنی دو دانت کا بکرا ایک سال اور بڑا جانور دو سال کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دانت نہیں نکلے ہیں، لیکن بکرا ایک سال اور بڑا جانور دو سال کا ہوچکا ہوتا ہے۔ اور ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ بکرا ایک سال اور بڑا جانور دو سال کا نہیں ہوا ہوتا لیکن اس کے دو دانت آچکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا عموماً دو دانت کے جانور کی عمر میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ یہ تجربہ کے خلاف ہے جیسا کہ بعض فتاویٰ میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ البتہ دو دانت کے جانور کی جسامت کی وجہ سے شک ہوتو فروخت کرنے والے یا کسی ماہر سے اس کی عمر کے بارے میں اطمینان کرلیا جائے۔ اگر جانور کی متعینہ عمر پر اطمینان ہوجائے تو خرید لیا جائے ورنہ احتیاط کی جائے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دو دانت کا جانور خریدا ہی نہ جائے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ چار دانت کا جانور خریدا جائے یا پھر اگر جسامت کی وجہ سے دو دانت کے جانور کی عمر میں شک ہوجائے تو اس کی عمر کے بارے میں اطمینان کرلیا جائے۔

(وَأَمَّا سِنُّهُ) فَلَا يَجُوزُ شَيْءٌ مِمَّا ذَكَرْنَا مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ إلَّا الثَّنِيُّ مِنْ كُلِّ جِنْسٍ وَإِلَّا الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ خَاصَّةً إذَا كَانَ عَظِيمًا، وَأَمَّا مَعَانِي هَذِهِ الْأَسْمَاءِ فَقَدْ ذَكَرَ الْقُدُورِيُّ أَنَّ الْفُقَهَاءَ قَالُوا: الْجَذَعُ مِنْ الْغَنَمِ ابْنُ سِتَّةِ أَشْهُرٍ وَالثَّنِيُّ ابْنُ سَنَةٍ وَالْجَذَعُ مِنْ الْبَقَرِ ابْنُ سَنَةٍ وَالثَّنِيُّ مِنْهُ ابْنُ سَنَتَيْنِ وَالْجَذَعُ مِنْ الْإِبِلِ ابْنُ أَرْبَعِ سِنِينَ وَالثَّنِيُّ ابْنُ خَمْسٍ، وَتَقْدِيرُ هَذِهِ الْأَسْنَانِ بِمَا قُلْنَا يَمْنَعُ النُّقْصَانَ، وَلَا يَمْنَعُ الزِّيَادَةَ، حَتَّى لَوْ ضَحَّى بِأَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا لَا يَجُوزُ، وَلَوْ ضَحَّى بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا يَجُوزُ وَيَكُونُ أَفْضَلَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1443

7 تبصرے: