منگل، 30 مئی، 2023

طواف زیارت کی سعی کا وقت؟

سوال :

مفتی صاحب ! طواف زیارت کی سعی اگر کوئی پہلے کرنا چاہے تو اسکا وقت کب سے شروع ہوتا ہے؟ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، بھیونڈی)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج تمتع میں بھی سعی واجب ہے، اور اس کا افضل وقت طوافِ زیارت کے بعد ہے، البتہ اگر  کسی متمع نے حج کا احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کے ساتھ سعی کرلی ہوتو پھر طواف زیارت کے بعد سعی کی ضرورت نہیں۔ گویا سعی کا وقت حج کا احرام باندھنے کے بعد سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔

(وَأَمَّا وَاجِبَاتُهُ فَخَمْسَةٌ) السَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَالْوُقُوفُ بِمُزْدَلِفَةَ وَرَمْيُ الْجِمَارِ وَالْحَلْقُ أَوْ التَّقْصِيرُ، وَطَوَافُ الصَّدْرِ كَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢١٩)

فَإِنْ كَانَ سَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَقِيبَ طَوَافِ الْقُدُومِ وَلَمْ يَرْمُلْ فِي هَذَا الطَّوَافِ وَلَمْ يَسْعَ، وَإِلَّا رَمَلَ وَسَعَى كَذَا فِي الْكَافِي وَالْأَفْضَلُ تَأْخِيرُهُمَا لِطَوَافِ الرُّكْنِ لِيَصِيرَا تَبَعًا لِلْفَرْضِ دُونَ السُّنَّةِ كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ذی القعدہ 1444

پیر، 29 مئی، 2023

کیا مشورہ وحی کا بدل ہے؟

سوال :

حضرت مفتی صاحب ! ایک عالم دین نے پوچھا ہے کہ یہ جملہ کہاں تک درست ہے کہ جو برکات وحی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے وہی مسجد کےمشورہ میں ہوتی ہے؟
(المستفتی : مولوی ظفر، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطہرہ میں مشورہ کی بڑی اہمیت ہے اور یہ بلاشبہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آتی تھی لیکن مشورہ کا حکم وہاں بھی تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْرِ۔
ترجمہ : اور ان سے خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔ (سورہ آل عمران، آیت : ١٥٩)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہیں ہوا اور جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے پھر اس سلسلہ میں کسی مسلمان سے مشورہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو سب سے بہتر امر کی توفیق عطا فرماتے ہیں۔

مشورہ میں کوئی بات طے ہوجائے تو اس میں خیروبرکت ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اگرمشورہ میں کچھ کمی کوتاہی رہ جاتی تو اس کی اصلاح وحی سے ہوجاتی تھی۔ اب چونکہ وحی کا سلسلہ بند ہے۔ اشاعت وحفاظت ِدین کے لئے کسی ایک شخص کی رائے پر اعتماد نہیں ہوتا۔ اس لئے مشورہ کرنا بہتر ہے۔ اور وحی قطعی چیز ہے جس میں شبہ اور غلطی کا احتمال نہیں۔ مشورہ میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لئے مشورہ کو وحی کا بدل نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی یہ کہا جائے گا جو برکات وحی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے وہی مسجد کے مشورہ میں ہوتی ہے۔ البتہ مشورہ میں جتنے زیادہ باشعور اور نیک افراد ہوں تو اس میں اتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوتی ہے۔

قال اللہُ تعالیٰ : وَشَاوِرْهُمْ فِیْ الْاَمْرِ۔ (اٰل عمران، جزء آیت : ۱۵۹)

وقال تعالیٰ : وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ۔ (الشوریٰ، جزء آیت : ۳۸)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَانَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ وَلَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ۔ (کنز العمال، رقم : ٢١٥٣٢)

عن ابن عباس مَنْ اَرَادَ اَمْراً فَشَاوَرَ فِیْہِ اِمْرأً مُسْلِماً وَفَّقَہُ اللّٰہُ لِاَرْشَدِاُمُوْرِہٖ۔ (کنزالعمال، رقم : ٧١٧٩)

عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال : ما رأیت أحدًا أکثر مشورةً لأصحابه من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم۔ (سنن الترمذي، رقم : ۱۷۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی القعدہ 1444

اتوار، 28 مئی، 2023

کیا جوئے میں ہاری ہوئی رقم قرض ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک شخص جو کہ پہلے بہت غلط کاموں میں ملوث تھا اب توبہ کرچکا ہے، لیکن اس وقت کا اس پر بہت قرض ہے اور پورا کا پورا قرض حرام کھیل جیسے جوا اور آن لائن بیٹنگ، کیرم، سٹہ مٹکہ وغیرہ کھیلنے کا قرض ہے۔ جیسے کرکٹ میں بیٹنگ کیے اور ہار گئے اور جس سے ہارے اس کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے تو کہہ دیا کہ بعد میں دیں گے اور اب تک نہیں دئیے۔ اب وہ شخص تائب ہوچکا ہے۔ اس میں سے کچھ لوگ یہ رقم مانگ رہے ہیں تو کیا ایسا قرض ادا کرنا ضروری ہے؟ جبکہ اس کی کمائی اب پوری حلال ہے تو کیا حرام قرض حلال کمائی سے ادا کرسکتے ہیں؟ اور کچھ لوگ وہ ہیں جو مانگ بھی نہیں رہے تو کیا قرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضروری ہے؟ جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی جاوید، کوپرگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآنِ کریم میں قمار اور جوئے کو حرام اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے، اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جوا کھیلنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ لہٰذا جس نے جوئے کی کوئی بھی قسم کھیلی ہو، اسے فوراً اس سے باز آجانا چاہیے اور اس پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

قمار اور جوئے میں جیتی گئی رقم کا لینا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا جس طرح جیتی ہوئی رقم لینا جائز نہیں ہے اسی طرح ہاری ہوئی رقم کا دینا بھی جائز نہیں ہے۔ چنانچہ صورتِ مسئولہ میں اس شخص کے لیے ہاری ہوئی رقم دینے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ دینا ہی نہیں ہے، اگر دے گا تو گناہ گار ہوگا۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۳۵۱ رقم: ۶۵۱۱ دار إحیاء التراث، بیروت)

وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ : «لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ عاقٌّ ولا قَمّارٌ ولا مَنّانٌ ولا مُدْمِنُ خَمْرٍ. رَواهُ الدّارِمِيُّ وفِي رِوايَةٍ لَهُ: ولا ولَدَ زِنْيَةٍ بَدَلَ قَمّارٍ»

(وعَنْهُ) أيْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ (عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ: لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ) أيْ مَعَ الفائِزِينَ السّابِقِينَ أوِ المُرادُ مِنهُ المُسْتَحِلُّ لِلْمَعاصِي أوْ قَصَدَ بِهِ الزَّجْرَ الشَّدِيدَ، وقالَ الطِّيبِيُّ: هُوَ أشَدُّ وعِيدًا مِن لَوْ قِيلَ: يَدْخُلُ النّارَ؛ لِأنَّهُ لا يُرْجى مِنهُ الخَلاصُ (عاقٌّ) بِتَشْدِيدِ القافِ أيْ مُخالِفٌ لِأحَدِ والِدَيْهِ فِيما أُبِيحَ لَهُ بِحَيْثُ يَشُقُّ عَلَيْهِما (ولا قَمّارٌ) بِتَشْدِيدِ المِيمِ أيْ ذُو قِمارٍ والمَعْنى مَن يُقامِرُ والقِمارُ فِي عُرْفِ زَمانِنا كُلُّ لَعِبٍ يُشْتَرَطُ فِيهِ غالِبًا أنْ يَأْخُذَ الغالِبُ مِنَ المُلاعِبِينَ شَيْئًا مِنَ المَغْلُوبِ، كالنَّرْدِ والشِّطْرَنْجِ وأمْثالِهِما۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٦/٢٣٨٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی القعدہ 1444

ہفتہ، 27 مئی، 2023

حضور پر کچرا پھینکنے والی بڑھیا کے واقعہ کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ مکہ میں ایک بڑھیا تھی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کچرا پھینکا کرتی تھی، پھر ایک دن اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کچرا نہیں پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور آپ نے اسے تسلی دی، تو وہ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی۔ کیا واقعہ ثابت ہے؟ کیونکہ کہیں پڑھنے میں آیا ہے کہ یہ واقعہ درست نہیں ہے تو کیا اس واقعہ کا بیان کرنا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد امین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں ہمارے اور آپ کے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز بتایا گیا ہے۔

احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تو آپ کے اخلاق انتہائی کریمانہ تھے ہی، دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے ایسے اخلاق کا مظاہرہ پیش کیا ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، سالوں سخت تکالیف پہنچانے والے دشمنوں کو فتح مکہ کے موقع پر دو جملوں میں معاف کردینے اور جوق در جوق مشرکین کے مسلمان ہونے کا ایمان افروز واقعہ ہم سب کو یاد کرلینا چاہیے۔ لیکن سوال نامہ میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف اردو کی کسی نصابی موجود تھا جس سے غالب گمان یہ ہے کہ یہ اردو کے کسی ادیب کا گھڑا ہوا واقعہ ہے جس کے من گھڑت ہونے پر دسیوں بڑے اداروں کے فتاوی موجود ہیں، جن میں سے دو اہم اداروں کے فتاوی ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مستند کتب احادیث میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ملتا؛ لہٰذا اس طرح کی روایت بیان کرنے سے احتراز ضروری ہے۔ (رقم الفتوی : 608029)

جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی کا فتویٰ ہے :
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کو دیکھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، لیکن سوال میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی نبی کریم ﷺ پر ایک عورت کے کچرا پھینکنے کا واقعہ، یہ واقعہ حدیث کی معتبر کتابوں میں نہیں ملتا،  بلکہ کسی ضعیف روایت میں بھی اس طرح کا کوئی واقعہ مذکور نہیں ہے، لہٰذا اس واقعہ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 144111200444)

سندی حیثیت کے علاوہ اس واقعہ کے غیرمعتبر ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں :

اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام جو آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر نہ گرنے دیتے تھے، جن کی تلواریں آپ کی ادنی سی توہین پر میان سے باہر آجاتی تھیں، کیا وہ ایک بڑھیا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر معاذ اللہ روزآنہ کوڑا ڈالتے ہوئے دیکھتے رہتے، اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے؟

دوسرے یہ کہ اس واقعہ میں خلاف عقل اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں بڑھیا روزآنہ کوڑا پھینکتی ہے، اسی راستے سے روزآنہ گزریں جبکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے :
"لا ينبغي للمؤمن ان يذل نفسه"
یعنی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت و رسوائی میں ڈالے۔ (ترمذی)

درج بالا تفصیلات سے یہ بات روز روزشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے لہٰذا اس کا بیان کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی القعدہ 1444

جمعرات، 25 مئی، 2023

مسجد میں ذاتی ضرورت کے لیے اعلان کرنا

سوال :

حضرت مفتی صاحب ! مسجد میں فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد ذاتی اغراض و ضروریات کیلئے لوگوں (مصلیوں) سے سوال کرنا کیسا ہے؟ کسی بھی مسجد میں جاکر فرض نماز کے بعد دھڑلے سے ذاتی ضروریات کے لئے سوال کرنے لگنا اس صورت میں کہ نہ کسی سے اجازت لئے، نہ اپنی پریشان حالی کا کوئی ثبوت دئیے، کیا ایسا کر سکتے ہیں؟ ایک مصلی ذاتی ضرورت کیلئے سوال کرنے والے شخص سے پوچھ ہی رہے تھے کہ کیا آپ نے کسی سے اجازت لی ہے؟ تو فوراً دوسرے ایک مصلی نے انہیں ڈانٹا، چپ کرایا اور کہا کہ کسی بھی سوال کرنے والے کو روکا مت کرو، کوئی کیسا بھی ہو، اسے سوال کرنے دو، جن کو دینا ہے دیں گے اور جنہیں نہیں دینا ہے وہ نہیں دیں گے۔ کیا بغیر اجازت، بغیر کسی تحقیق کے کسی بھی شخص کو مسجد میں مانگنے دیا جانا چاہئے؟
(المستفتی : احمد سعيد، بھکو چوک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد اللہ کا گھر ہے جو اس کی عبادت کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں ذاتی ضرورت کے لیے بندوں سے مانگنے کے لیے فرض نمازوں کے بعد اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ امام یا ٹرسٹیان سے اجازت لینے کے بعد بھی اس طرح کے اعلان کی اجازت نہیں ہے۔ بغیر اجازت کے جو لوگ اعلان کرنے لگتے ہیں انہیں اچھے انداز میں منع کردینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ کئی لوگ انہیں منع کرنے میں خود شور شرابہ کرنے لگیں، سوال نامہ میں مذکور باز پرس کرنے والے کو ڈانٹے والے صاحب کا عمل اور ان کی تاویل بھی درست نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں آئندہ اس سے باز رہنا چاہیے۔ اگر واقعی کوئی مستحق اور انتہائی ضرورت مند بندہ آجائے تو ایسے افراد کو اہل خیر حضرات سے ملوا دینا چاہیے اور ان سے خصوصی تعاون کی درخواست کردینا چاہیے۔

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)

ویحرم فیہ السوال ویکرہ الاعطاء مطلقاً وقیل ان تخطی وانشاد ضالۃ۔ (الدر المختار علی ہامش الشامی : ١/٤٤٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی القعدہ 1444

بدھ، 24 مئی، 2023

مدارس کے معلمین کی تنخواہیں


          آؤ کہ لہو رو لیں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! جیسا کہ ہم سب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے شہر میں منظم، معیاری مکاتب اور مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔ لیکن یہ شہر مدارس اور مکاتب کا شہر ایسے ہی نہیں بن گیا، بلکہ اس کی پیچھے قربانیاں ہیں جو شروع سے لے آج تک دی جارہی ہیں، ان قربانیوں کو آج آپ حضرات کے سامنے دل کھول کر بیان کرنا ہے تاکہ سب کو حالات کا علم اور کچھ تو احساس ہو۔

معزز قارئین ! سب سے اہم اور بڑی قربانی دینے والے یہاں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ ہیں، جن کی تنخواہیں تشویشناک حد تک کم ہیں۔ لہٰذا دل تھام کر جان لیں کہ پانچ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ چار ہزار، اور سات، آٹھ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں اب بھی سات آٹھ ہزار تک ہیں۔ اور اگر خواتین معلمات کی بات کی جائے تو ان کا زبردست استحصال کیا جارہا ہے اور انہیں مرودں کی بہ نسبت نصف یا اس سے کچھ زیادہ تنخواہ دی جارہی ہے۔ اور پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ میں سال میں ایک مرتبہ دو سو یا تین سو کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور کسی سال تو اضافہ بھی نہیں ہوتا۔

ماہانہ پانچ چھ ہزار تنخواہ میں یہ لوگ کس طرح سے اپنا گھر خرچ چلا رہے ہیں؟ کس طرح بیماریوں کے علاج کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کررہے ہیں، کس طرح ان کے تہوار گزرتے ہیں؟ کس طرح ان کے یہاں شادی بیاہ کے مراحل طے ہوتے ہیں؟ کیا اتنی تنخواہ میں یہ لوگ مضافات میں بھی اپنا چھوٹا سا ذاتی مکان بناسکتے ہیں؟ ان سب کا جواب آپ خود سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کریں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ان معلمین میں ایک طبقہ تو ان نئے فارغین کا ہے جو ابھی ابھی عالمیت یا صرف حفظ قرآن مکمل کرکے مکتب میں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں، چونکہ ان میں اکثر کی عمر سترہ سے بائیس سال کے درمیان ہوتی ہے، لہٰذا ان کی شادی کو ابھی دو سے پانچ سال ہوتا ہے۔ جب تک ان پر کوئی خاص مالی ذمہ داری گھر والوں کی طرف سے نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ علماء اور حفاظ کم تنخواہوں میں بھی خدمت انجام دینے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کا نکاح ہوجاتا ہے یا نکاح کا وقت قریب آتا ہے تب ان کے لیے مشکل پیش آتی ہے کہ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی سے کس طرح گھر کے اخراجات چلیں گے؟ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی والے لڑکے کو کون اپنی لڑکی دے گا؟ یہی وجہ ہے کہ بہت سے جید علماء وحفاظ معاشی تنگی کی وجہ سے دو چار سالوں میں ہی مدرسہ چھوڑ کر پاورلوم چلانے، پاورلوم پر بننے والوں کپڑوں کی گھڑی لگانے، دوکانوں پر ڈیوٹی دینے یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مکاتب اور مدارس باصلاحیت، جید اور تجربہ کار اساتذہ سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس کا سیدھا اثر طلباء کی تعلیم پر پڑتا ہے، جس کا احساس مکاتب اور مدارس کے فکرمند ذمہ داران بخوبی کرسکتے ہیں۔

ہمیں حیرت اور دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ان مکاتب کے عموماً ذمہ دار کارخانہ دار، تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر اور انجینئر ہوتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ جن کا ماہانہ اوپر اوپر کا خرچ یعنی صرف دودھ اور گوشت کا خرچ ہی ان معلمین کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو کیا کبھی یہ حضرات اپنے آپ کو ان معلمین کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتے کہ ایسی جیب خرچ جیسی تنخواہ میں ہمارے گھر کے سارے اخراجات کیسے پورے ہوتے؟

کیا کوئی ان کا درد محسوس کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب بے حس ہوگئے ہیں؟ کیا علماء وحفاظ کرام جنہوں نے سالوں علم دین حاصل کرنے کے لیے مشقتیں جھیلی ہیں، اور پھر علم دین کی نشر واشاعت اور ہمارے بچوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت کے لیے مسند تدریس سنبھال لی تو اس کا بدلہ ہم نے اسے یہ دیا کہ اسے ایک مزدور سے گئے گزرے حالات سے دوچار کردیا۔ جو حضرات معلم ہونے کے ساتھ امام بھی ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات پاورلوم مزدور اور حمال (باربرادر) جیسے یا ان سے کچھ بہتر ہوتے ہیں، لیکن جو صرف معلم ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات تو بلاشبہ مزدوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔

یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کم تنخواہ کے سلسلے میں عموماً لوگ اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں، جب کہ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑی معقول ہوا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں :

سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے، اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی، جبکہ آج کل کے دور میں ایک متوسط بھینس کی قیمت کم و بیش ایک لاکھ روپے روپے ہے۔

"دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال" (مصنف: حضرت سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالی) کے مطابق شیخ الہند مولانا محمود حسن گنگوہی کی تنخواہ پچہتر روپے تھی۔ پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا) اس کا مطلب ہے کہ انکی تنخواہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھی۔

اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی۔ اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا، یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجایا کرتے تھے۔

حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھی۔ اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا، یعنی صرف چھ مہینے کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجاتا تھا۔

کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں تو مدرسین کی زندگی کی انتہائی درجے کی ضروریات بھی پوری نہیں ہورہی ہیں۔ اور بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی پچاس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد۔

اور بات تنخواہ پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کا دنیا بھر کے اصول وضوابط پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اوقات میں آفس میں موبائل جمع کروا کر کلاس میں جانا ہوتا ہے، تاخیر کی صورت میں منٹوں کے حساب سے تنخواہ کٹتی ہے۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ اور عطیات وصولی کے لیے بک تھما دئیے جاتے ہیں، عیدالاضحیٰ کے موقع پر چرم کے بدلے عطیات جمع کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ مدرسہ میں سالانہ جلسہ اور مسابقہ ہے تو اس کے انتظامات اور انعامات کے لیے چندہ کرنا پڑتا ہے، مسجد مدرسہ کی تعمیر کا مرحلہ ہے تو اس کے تعاون کے لیے کوشش کا حکم دے دیا جاتا ہے، سال بھر میں کبھی بھی مدرسہ کا بجٹ ختم ہونے لگے تو جمعہ اور دیگر نمازوں میں مساجد میں چندہ کرکے بجٹ پورا کرنے کا آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ طلباء کے ساتھ اساتذہ کو بھی اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ بھی رنگین کے بجائے صرف سفید لباس میں مدرسہ آئیں، جبکہ یہ انتہائی مشکل امر ہے کہ ایک شخص دن میں تین تین مرتبہ اپنا رنگین لباس اتار کر سفید لباس پہن کر مدرسہ آئے۔ پھر سفید لباس کو صاف رکھنے اور دھلنے میں رنگین کپڑوں سے زیادہ اخراجات آتے ہیں، جو بلاشبہ ان تنگدست معلمین کے لیے اضافی بوجھ کا سبب بنے گا۔

اگر اصحاب خیر یا طلباء کے سرپرستوں میں سے کوئی ان پر بہت مہربان ہوتا ہے تو ان کی دعوت کردیتا ہے یا ایک جوڑا کپڑا دے دیتا ہے، جبکہ ان دونوں کی انہیں کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ دعوت اور کپڑا ہدیہ دینے کے بجائے اگر انہیں دو پانچ سو روپے ہدیہ کردئیے جائیں تو یہ ان کے لیے زیادہ کارآمد ہوں گے۔

لہٰذا ذمہ داران کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی اس بات پر غور کریں کہ خدانخواستہ حاملین قرآن و حدیث کی ایسی درگت کے ہم سب تو ذمہ دار نہیں ہیں؟ کہیں بروز حشر ہم سے پوچھ نہ ہوجائے؟ غیرقومیں اپنے مذہبی پیشواؤں پر اپنی آمدنی کا دس فیصد تک کا حصہ خرچ کرتی ہیں، اگر ہم ایک فیصد بھی ان پر خرچ کردیں تو ہمارے مذہبی پیشواؤں کے حالات میں خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ بالخصوص ذمہ داران کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ آپ جس مکتب یا مدرسہ کے ذمہ دار ہیں وہاں پڑھنے والے ہر ہر طالب علم کے پڑھنے کا ثواب بلاشبہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، لیکن صرف ذمہ دار بن جانے اور اساتذہ پر اصول وضوابط لاگو کرنے سے آپ کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے آپ کو مکتب اور مدرسہ کے ظاہری اور باطنی ہر طرح سے استحکام کی کوشش کرنا پڑے گی۔ لہٰذا آپ خود بھی مالی تعاون کریں، اور دوسروں سے تعاون حاصل کرنے کی جدوجہد کریں تب کہیں آپ حقیقی ذمہ دار کہلائیں گے۔ اسی طرح عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بقدر استطاعت مکاتب کا خود بھی مالی تعاون کریں اور دوسروں کو بھی اس کے لیے تیار کریں تاکہ مکاتب کا مالی نظام مستحکم ہو اور قلتِ تنخواہ کا قہر جھیلنے والے مظلوم اساتذہ کی تنخواہوں کا معیار بلند ہو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو درد دل عطا فرمائے، دوسروں کی تکلیفوں کو سن کر اور دیکھ کر اس کا کسی نہ کسی درجہ میں مداوا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین