پیر، 28 فروری، 2022

حدیث "جیسے تمہارے اعمال ویسے تمہارے حکمراں" کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب ! جیسے ہمارے اعمال ہوں گے ویسے حکمراں ہم پر مسلط کئے جائیں گے۔ یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے؟ اور اگر ہے تو اس کا پس منظر کیا ہے؟ کس موقع پر یہ بات کہی گئی تھی؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : أعمالُكمْ عُمَّالُكمْ  یعنی جیسے تمہارے اعمال ویسے تمہارے حکمراں ۔ ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ اس کا مفہوم قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
 ظَهر الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهم یَرْجِعُوْنَ۔
ترجمہ : خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دے، تاکہ وہ باز آجائیں۔ (سورۃ الروم : ۴۱)

 ایک اور جگہ ارشاد ہے :  
وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ۔
ترجمہ : اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ : ۳۰)

علامہ طرطوشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں لوگوں سے سنتا رہتا تھا کہ تمہارے اعمال تمہارے بادشاہ ہیں، جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے بادشاہ ہوں گے، پھر مجھے قرآن مجید میں یہ مضمون ملا کہ : وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا۔ (انعام : ١٢٩) اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا تو درست ہے کہ بندوں کے اعمال کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، لوگوں میں بگاڑ پیدا ہوتو ان پر حکمراں بھی ظالم مسلط ہوں گے۔ البتہ أعمالُكمْ عُمَّالُكمْ کو حدیث کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔


أعمالُكمْ عُمَّالُكمْ
الراوي : - المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن -الصفحة أو الرقم: 1/89 
خلاصة حكم المحدث :  لم أره حديثا

قال الطرطوشي في سراج الملوك ( ص : ١٩٧) : الباب الحادي والأربعون في (كما تكونوا يولى عليكم). لم أزل أسمع الناس يقولون: "أعمالكم عمالكم، كما تكونوا يولى عليكم" إلى أن ظفرت بهذا المعنى في القرآن قال الله تعالى: {وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا}  (الأنعام: ١٢٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رجب المرجب 1443

اتوار، 27 فروری، 2022

تشدد معاملہ میں محروسین کی ضمانت آخر کب ہوگی؟

قارئین کرام ! ١٢ نومبر کو شہر میں تشدد کا جو معاملہ ہوا، اس کی بلاشبہ ہر کوئی مذمت کررہا ہے اور کرے گا۔ لیکن اس تشدد کے نام پر اندھا دھند گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری ہوا وہ بھی کچھ درست نہیں تھا۔ پھر انکوائری کے نام پر ان ملزمین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ پہلے پہل تو یہی گمان تھا کہ ایک دو ہفتے میں تمام ملزمین کی ضمانت ہوجائے گی اور مقدمہ چلتا رہے گا۔ لیکن کئی تاریخوں کے بعد بھی مایوسی ہی ہاتھ آئی اور پھر یہ گمان ہوا کہ شاید تین مہینہ مکمل ہونے پر ضرور ضمانت مل جائے گی۔ لیکن تین مہینے مکمل ہوجانے کے بعد بھی ان کی ضمانت مسترد کردی گئی۔ اور ان محروسین کے اہل خانہ کو ایک بار پھر وہاں سے روتے بلکتے واپس ہونا پڑا۔

محترم قارئین! ہمارا غالب گمان یہی ہے کہ تقریباً تمام محروسین بے قصور ہیں، ان میں اکثریت سماجی خدمت گاروں کی ہے جو خود اس وقت امن اور راحت رسانی کا کام کررہے تھے۔ یا پھر بالکل عام افراد کی ہے۔ جو اپنے کسی کام کے لیے یا پُر امن احتجاج میں شرکت کے لیے اس طرف گئے اور ڈپارٹمنٹ کی نظروں میں آگئے۔ محروسین کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک تقریباً اَسّی سالہ خاتون ہے جس کا اور کوئی نہیں ہے بس ایک ہی پوتا ہے۔ وہ بھی اس معاملے میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔ بے چاری بڑی بی، جیسے تیسے تاریخ پر کورٹ پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مزید تاریخ مل گئی۔ محروسین میں متعدد افراد ایسے ہیں جو اپنے گھر میں تنہا کمانے والے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کی معاشی حالت تشویشناک ہوگئی ہے۔ ان میں صنعت کار اور تاجر حضرات بھی ہیں جنہیں بلاشبہ قید وبند کی وجہ سے بڑا مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہوگا۔ چنانچہ ڈپارٹمنٹ اور عدلیہ کو یہ تمام باتیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان محروسین پر ماضی میں اس طرح کا کوئی بھی الزام نہیں رہا ہے۔ لہٰذا جلد از جلد ان کی ضمانت کی کارروائی کو مکمل کرنا چاہیے۔

انفرادی طور پر جمیعت علماء اور سیاسی لیڈران اگرچہ کوشش کررہے ہیں، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ گمشدہ بچوں کی تلاش گروپ کے دیگر جیالے نوجوان بھی مسلسل اس کی فکر میں ہیں اور حتی الامکان کوشش بھی کررہے ہیں کہ ضیاء الرحمن مسکان سمیت دیگر تمام بے قصور محروسین کی جلد از جلد رہائی ہوجائے۔ جس کے لیے انہوں نے احتجاج بھی درج کرایا تھا، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ ان کے پاس اثر ورسوخ اور وسائل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی کوشش صدا بہ صحراء ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے تمام سیاسی لیڈران اور نمائندہ تنظیمیں آپس میں مل کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں کہ جلد از جلد ان بے قصوروں کی رہائی عمل میں آئے۔ عوام اور بالخصوص محروسین کے اہل خانہ کی نظریں سبب کے درجہ میں آپ پر لگی ہوئی ہیں، اور عوام بھی دعاؤں کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو اس شعر کا مصداق بنا دیں کہ
      ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
    ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مظلوم اور بے قصور محروسین کو جلد از جلد باعزت رہائی نصیب فرمائے۔ اور اس سلسلے میں ہم سب کو اپنی بساط بھر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہفتہ، 26 فروری، 2022

کسی پھل کے بیجوں کو پھلانگ لیا جائے تو؟

سوال :

مفتی صاحب ! سنا ہے کہ پپیتے کا بیج نانگنے سے اندھا پن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح لوکی کے بیج نانگنے سے کدو بند کی بیماری ہو جاتی ہے۔ کیا دین اسلام میں اس طرح کی باتوں کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟ یا کسی مخصوص پھل یا سبزی وغیرہ کے بیج نانگنے سے ہونے والی بیماریوں کا ذکر ملتا ہے؟
(المستفتی : مدثر انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پھلوں کے بیج یا کسی بھی چیز کو قصداً پھلانگنا تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اور عموماً کوئی قصداً ایسا کرتا بھی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی غلطی سے کسی چیز کو پھلانگ لے اور اس کے اوپر سے گذر جائے تو شرعاً اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی سوال نامہ میں مذکور کسی بیماری کے ہونے کی بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ توہم پرستی اور بدعقیدگی کی بات ہے جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وَكَانَ الْقَفَّال يَقُول بَعْدَهَا : أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الأُْمُورَ كُلَّهَا بِيَدِ اللَّهِ، يَقْضِي فِيهَا مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ، لاَ مُؤَخِّرَ لِمَا قَدَّمَ وَلاَ مُقَدِّمَ لِمَا أَخَّرَ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ١٩/٣٩٨)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1443

اگر فلاں سے نکاح کیا تو تیری والدہ کو طلاق دے دوں گا کہنے سے طلاق کا حکم

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! زید کی شادی جس سے طے ہوئی ہے وہ زید کے والد کو پسند نہیں ہے انہوں نے زید کی والدہ کو کہا ہے اگر زید نے اس لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں (زید کی والدہ) کو طلاق دے دوں گا۔ اگر زید اس لڑکی سے نکاح کر لیتا ہے تو اس کے والدین کی طلاق ہو جائے گی؟
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے طلاق، یا کسی اور کو کہے کہ تو نے فلاں کام کیا تو میری بیوی کو طلاق، شریعت کی اصطلاح میں اسے تعلیقِ طلاق کہتے ہیں، لہٰذا جب وہ شرط پائی تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں زید کے والد نے یہ نہیں کہا کہ زید نے فلاں لڑکی سے نکاح کیا تو اس کی والدہ کو طلاق، بلکہ یہ کہا ہے کہ اسے طلاق دے دوں گا، تو یہ تعلیقِ طلاق نہیں ہوئی۔ لہٰذا اگر زید اس لڑکی سے نکاح کرلیتا ہے تب بھی اس کی والدہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔ البتہ بیٹے کے معاملے میں بیوی کو طلاق کی دھمکی دینا شرعاً درست نہیں ہے۔ لہٰذا زید کو اس عمل سے باز رہنا چاہیے۔

وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقا لکن إن وجد فی الملک طلقت۔ (الدر المختار : ۳/۳۵۵)

وإن وجد الشرط فی الملک طلقت۔ (کنز الدقائق : ۱۲۷)

مستفاد : ہو رفع قید النکاح في الحال بالبائن أو الماٰل بالرجعي بلفظ مخصوص ہو ما اشتمل علی الطلاق۔ (الدر المختار علی ہامش الرد المحتار : ۴؍۴۲۴)

بِخِلَافِ قَوْلِهِ كَنَمِّ لِأَنَّهُ اسْتِقْبَالٌ فَلَمْ يَكُنْ تَحْقِيقًا بِالتَّشْكِيكِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٨٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1443

جمعہ، 25 فروری، 2022

علامہ اقبال کی طرف غلط اشعار منسوب کرنا

سوال :

مفتی صاحب عرض کرنا یہ تھا کے ساری دنیا کا ماننا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایک بڑے پائے کے شاعر، مفکر اور قوم کے غمخوار تھے۔ علامہ اقبال کے نام کے آگے تقریباً ہر مسلک کے علماء کرام رحمۃ اللہ علیہ لگاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا ہے جو کوئی بھی ٹوٹا پھوٹا من گھڑت شعر اپنی طرف سے لکھ کر اسکے آگے اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھ دیتے ہیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار شریعت کی روشنی میں قوم و ملت کی شرعی رہنمائی کیلئے ملی بیداری کیلئے ہوتے تھے۔
تو یہ جو لوگ باقاعدہ پوسٹ اور ویڈیو بناتے ہیں جسمیں وہ اشعار لکھتے اور پڑھتے ہیں اور اسے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو انکے بارے میں شریعت مطہرہ کیا کہتی ہے؟ کوئی بھی ایسی بات جو علامہ کی نا ہو لیکن انکی طرف کوئی منسوب کرکے کہے تو اسکے بارے میں کیا وعیدیں ہیں؟
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قصداً کسی کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کر دینا جو اس نے نہیں کہی ہے یہ بلاشبہ جھوٹ اور دھوکہ ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے۔

آپ کی بات بالکل درست ہے اور بارہا اس کا مشاہدہ بھی ہوا ہے کہ اوٹ پٹانگ اشعار کو لوگ علامہ اقبال کی طرف منسوب کرکے بیان کردیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ اگر جان بوجھ کر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کوئی ایسا شعر منسوب کیا جائے جو ان کا نہیں ہے تو یہ عمل جھوٹ اور دھوکہ میں شمار ہوکر ناجائز اور حرام ہوگا۔

انٹرنیٹ کے زمانے میں اشعار کی تحقیق بھی آسان ہوگئی ہے، لہٰذا اس کی تحقیق کرلینا چاہیے۔ اور اگر اس بات کی تحقیق نہ ہو کہ یہ شعر کس کا ہے؟ تو یہ کہہ کر بیان کرنا چاہیے کہ کسی شاعر نے کہا ہے، بغیر تحقیق کے کسی کی طرف بھی کوئی بات منسوب کرنا نہ تو اخلاقاً درست ہے اور نہ ہی شرعاً۔ لہٰذا اس عمل سے بچنا ضروری ہے تاکہ آپ کی شخصیت باوقار رہے اور آپ مجروح ہونے سے محفوظ رہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔ (سورہ حجرات، آیت : ٠٦)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ، كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1443

ستائیس رجب کے ہزاری روزہ کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! ستائیس رجب کے روزے کی کوئی خاص فضیلت حدیث شریف سے ثابت ہے؟ بہت سے لوگ اسے ہزاری روزہ سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس کا اہتمام کرتے ہیں، براہ کرم اس روزے سے متعلق تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ماہ رجب المرجب کی ستائیس تاریخ کے روزے کے بارے میں جو روایت ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے وہ غیرمعتبر اور من گھڑت ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
رجب کے مہینے میں کسی خاص دن روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ قال الحافظ بن حجر في تبیین العجب : ۱۱، لم یرد في فضل شہر رجب ولا في صیامہ ولا صیام شيء منہ معین ولا في قیام لیلة مخصوصة فیہ حدیث یصلح للحجة، بعض حضرات ستائیسویں رجب کے روزہ کو ہزاری روزہ کہتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 46202)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رجب کے روزے کے متعلق کوئی روایت درست سند سے موجود نہیں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ رجب کے کسی مخصوص نماز اور روزے کا انکار کرتے ہیں۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بھی ماہ رجب کی کسی مخصوص تاریخ کے روزے اور مخصوص نماز کی فضیلت کے ثبوت کے منکر ہیں۔

البتہ رجب المرجب کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک حُرمت والے ہیں، جن میں ہر عبادت کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا اس مہینے میں کسی بھی تاریخ کا روزہ اس نیت سے رکھنا درست ہے خواہ وہ ستائیس تاریخ کا روزہ کیوں نہ ہو۔ لیکن سوال نامہ میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا عقیدہ رکھتے ہوئے ستائیس تاریخ کا روزہ رکھنا درست نہیں، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ایسی بات منسوب کرنا ہے جو آپ نے بیان نہیں فرمائی۔

حدیث فی رجب یوم ولیلۃ من صام ذلک الیوم وقام تلک اللیلۃ کان لہ الاجر صام مائۃ سنۃ وھی لثلث بقین وبعث اﷲ محمد ارواہ الدیلمی عن سلیمان فیہ خالد بن ھیاج۔ وابن ھیاج متروک لہ احادیث مناکیر کثیرۃ۔ (ما ثبت بالسنۃ : ۱۷۵)

وأمّا صَوْمُ رَجَبٍ بِخُصُوصِهِ فَأحادِيثُهُ كُلُّها ضَعِيفَةٌ بَلْ مَوْضُوعَةٌ لا يَعْتَمِدُ أهْلُ العِلْمِ عَلى شَيْءٍ مِنها ولَيْسَتْ مِن الضَّعِيفِ الَّذِي يُرْوى فِي الفَضائِلِ بَلْ عامَّتُها مِن المَوْضُوعاتِ المَكْذُوباتِ۔ (مجموع الفتاویٰ : ٢٥/٢٩٠)

وكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذِكْرِ صَوْمِ رَجَبٍ وصَلاةِ بَعْضِ اللَّيالِي فِيهِ فَهُوَ كَذِبٌ مُفْتَرًى كَحَدِيثِ مَن صَلّى بَعْدَ المَغْرِبِ أوَّلَ لَيْلَةٍ مِن رَجَبٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً جازَ عَلى الصِّراطِ بِلا حِسابٍ۔ (المنار المنیف : ٩٦)

لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه ولا صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للحجة۔ (تبيين العجب : ١١)

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِىِّ عَنْ أَبِى السَّلِيلِ عَنْ مُجِيبَةَ الْبَاهِلِيَّةِ عَنْ أَبِيهَا أَوْ عَمِّهَا أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ ﷺ ثُمَّ انْطَلَقَ فَأَتَاهُ بَعْدَ سَنَةٍ وَقَدْ تَغَيَّرَتْ حَالَتُهُ وَهَيْئَتُهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمَا تَعْرِفُنِى؟ قَالَ: «وَمَنْ أَنْتَ؟» قَالَ: أَنَا الْبَاهِلِىُّ الَّذِى جِئْتُكَ عَامَ الأَوَّلِ. قَالَ: «فَمَا غَيَّرَكَ وَقَدْ كُنْتَ حَسَنَ الْهَيْئَةِ؟» قَالَ: مَا أَكَلْتُ طَعَامًا إِلَّا بِلَيْلٍ مُنْذُ فَارَقْتُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لِمَ عَذَّبْتَ نَفْسَكَ؟» ثُمَّ قَالَ: «صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ وَيَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ». قَالَ: زِدْنِى؛ فَإِنَّ بِى قُوَّةً. قَالَ: «صُمْ يَوْمَيْنِ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ». وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثَةِ فَضَمَّهَا ثُمَّ أَرْسَلَهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٤٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1443

جمعرات، 24 فروری، 2022

حضرت عزرائیل کے ملک الموت بننے والے واقعہ کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین کی مٹی لاؤ جبرئیل علیہ السلام جب مٹی لینے لگے تو زمین رونے لگی زمین کا رونا دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا زمین کیوں روتی ہے؟ اس نے کہا کہ انسان گناہ کرے گا تو جہنم میں جائے گا تو جبرائیل علیہ السلام علیہ السلام زمین کارونا دیکھ کرواپس آگئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے اسرافیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کو بھیجا لیکن زمین کے رونے سے وہ بھی واپس آئے پھر آخر میں عزرائیل علیہ السلام کو بھیجا تو انہوں نے زمین پر رحم نہیں کیا اس لئے روح قبض کرنے کی ذمہ داری انکو دی گئی، کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟
(المستفتی : مسیّب خان رشید خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ کسی معتبر حدیث میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ واقعہ اسرائیلی روایات میں ملتا ہے۔ جس کے بارے میں صاحب فتاوی فریدیہ لکھتے ہیں :
مخبر صادق کے اقوال میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ قرآن سے مخالف ہے ’’قال اللہ تعالیٰ : لَا  يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔‘‘ البتہ اسرائیلیات میں یہ قصہ مسطور ہے۔ (فتاوی فریدیہ : ١/١٤٩)

اس واقعہ میں غور کیا جائے تو بلاشبہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلے تین فرشتے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا نہیں کرسکے۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی یہ خاص صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم کیا جاتا ہے وہ اسے بہرحال پورا کرتے ہیں، لہٰذا یہ واقعہ ایک گونہ قرآن کی آیت کے مخالف ہے۔ جس کا بیان کرنا درست نہیں۔

قال اللہ تعالیٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔ (سورہ تحریم، آیت : ٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1443

پیر، 21 فروری، 2022

اتی کرمن پر دوکان چلانا اور اس کی آمدنی اور ایسی جگہوں پر رکھی ہوئی ٹانکی کے پانی سے وضو اور غسل کا حکم

سوال :

مفتی صاحب  کیا اتی کرمن (راستے  سڑک پر قبضہ کی ہوئی جگہ) پر دوکان لگانا اور اس دوکان سے حاصل ہونے والے منافع کا کیا حکم ہے؟ حلال؟ حرام؟ مکروہ؟ نیز اسی طرح گلی کوچوں میں راستے پر پانی کی ٹانکی رکھنا اور اس ٹانکی کے پانی سے غسلِ جنابت یا وضوء کرنا کیسا ہے؟ کیا اس پانی سے پاکی حاصل ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح راستے پر اپنے گھر کے باہر بیت الخلاء یا غسل خانہ۔ بنانا کیسا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ بیَّنوا تُوجروا۔
( المستفتی : عبداللہ فیصل محمد مصطفیٰ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سرکاری زمین پر عارضی قبضہ (راستے پر اتی کرمن) کرکے اس پر دوکان چلانا جس کی وجہ سے راہگیروں کو تکلیف ہوتو ایسے دوکان مالکین دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا اس غیر شرعی و غیر قانونی فعل کا ترک کرنا لازم و ضروری ہے۔ تاہم اگر وہ اس دوکان میں شرعاً جائز اشیاء فروخت کرتے ہیں تو ان کی آمدنی حرام تو نہیں ہوگی، لیکن دوسروں کو تکلیف دے کر کمائی جانے والی روزی بابرکت بھی نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح گھر کے باہر سرکاری زمین پر ٹانکی رکھنا جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہو شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، تاہم اس پانی سے غسلِ جنابت اور وضو کرنا جائز ہے، غسل اور وضو بلاکراہت درست ہے، کیونکہ پانی میں اس عمل کا خبث شامل نہیں ہوتا ہے، کتاب و سنت کے عرق، عباراتِ فقہاء سے یہی معلوم ہوتا ہے۔

بیت الخلاء کا بھی یہی حکم ہے اگر اس کی وجہ سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو تو بیت-الخلاء بنانے والے گناہ گار ہوں گے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائی، رقم : ۴۹۹۵)

(أخْرَجَ إلى طَرِيقِ العامَّةِ كَنِيفًا) هُوَ بَيْتُ الخَلاءِ (أوْ مِيزابًا أوْ جُرْصُنًا كَبُرْجٍ وجِذْعٍ ومَمَرِّ عُلُوٍّ وحَوْضِ طاقَةٍ ونَحْوِها عَيْنِيٌّ أوْ دُكّانًا جازَ) إحْداثُهُ (وإنْ لَمْ يَضُرَّ بِالعامَّةِ) ولَمْ يَمْنَعْ مِنهُ، فَإنْ ضَرَّ لَمْ يَحِلَّ۔ (شامی : ٦/٥٩٢)

(جَعَلَ شَيْءٌ) أيْ جَعَلَ البانِي شَيْئًا (مِن الطَّرِيقِ مَسْجِدًا) لِضِيقِهِ ولَمْ يَضُرَّ بِالمارِّينَ (جازَ) لِأنَّهُما لِلْمُسْلِمِينَ۔ (شامی : ٤/٣٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی الحجہ 1439

جوڑے آسمان پر بنتے ہیں کی تحقیق؟

سوال :

کیا یہ بات درست ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں؟ یعنی سب کے جوڑے پہلے سے طے ہیں، کیا یہ حدیث ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : خلیل ڈی فارم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : "جوڑے آسمان پر بنتے ہیں" ان الفاظ کے ساتھ قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث نہیں ہے۔ لہٰذا اس جملہ کو قرآن کی آیت یا حدیث کا ترجمہ نہ سمجھا جائے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی نے دنیا میں آنے والی تمام مخلوق کے حالات کو اپنی کتاب لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، جس میں ازدواجی رشتے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور جملہ معنی کے اعتبار سے درست ہے اور اسے بیان بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بات سمجھ لی جائے کہ یہ کوئی الگ فیصلہ نہیں ہے۔ بلکہ دیگر مقدرات کی طرح یہ بھی ایک مقدر ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی لکھ رکھا ہے۔

عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ : وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٦٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1443