پیر، 21 فروری، 2022

اتی کرمن پر دوکان چلانا اور اس کی آمدنی اور ایسی جگہوں پر رکھی ہوئی ٹانکی کے پانی سے وضو اور غسل کا حکم

سوال :

مفتی صاحب  کیا اتی کرمن (راستے  سڑک پر قبضہ کی ہوئی جگہ) پر دوکان لگانا اور اس دوکان سے حاصل ہونے والے منافع کا کیا حکم ہے؟ حلال؟ حرام؟ مکروہ؟ نیز اسی طرح گلی کوچوں میں راستے پر پانی کی ٹانکی رکھنا اور اس ٹانکی کے پانی سے غسلِ جنابت یا وضوء کرنا کیسا ہے؟ کیا اس پانی سے پاکی حاصل ہوگی یا نہیں؟ اسی طرح راستے پر اپنے گھر کے باہر بیت الخلاء یا غسل خانہ۔ بنانا کیسا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ بیَّنوا تُوجروا۔
( المستفتی : عبداللہ فیصل محمد مصطفیٰ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سرکاری زمین پر عارضی قبضہ (راستے پر اتی کرمن) کرکے اس پر دوکان چلانا جس کی وجہ سے راہگیروں کو تکلیف ہوتو ایسے دوکان مالکین دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا اس غیر شرعی و غیر قانونی فعل کا ترک کرنا لازم و ضروری ہے۔ تاہم اگر وہ اس دوکان میں شرعاً جائز اشیاء فروخت کرتے ہیں تو ان کی آمدنی حرام تو نہیں ہوگی، لیکن دوسروں کو تکلیف دے کر کمائی جانے والی روزی بابرکت بھی نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح گھر کے باہر سرکاری زمین پر ٹانکی رکھنا جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہو شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، تاہم اس پانی سے غسلِ جنابت اور وضو کرنا جائز ہے، غسل اور وضو بلاکراہت درست ہے، کیونکہ پانی میں اس عمل کا خبث شامل نہیں ہوتا ہے، کتاب و سنت کے عرق، عباراتِ فقہاء سے یہی معلوم ہوتا ہے۔

بیت الخلاء کا بھی یہی حکم ہے اگر اس کی وجہ سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو تو بیت-الخلاء بنانے والے گناہ گار ہوں گے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائی، رقم : ۴۹۹۵)

(أخْرَجَ إلى طَرِيقِ العامَّةِ كَنِيفًا) هُوَ بَيْتُ الخَلاءِ (أوْ مِيزابًا أوْ جُرْصُنًا كَبُرْجٍ وجِذْعٍ ومَمَرِّ عُلُوٍّ وحَوْضِ طاقَةٍ ونَحْوِها عَيْنِيٌّ أوْ دُكّانًا جازَ) إحْداثُهُ (وإنْ لَمْ يَضُرَّ بِالعامَّةِ) ولَمْ يَمْنَعْ مِنهُ، فَإنْ ضَرَّ لَمْ يَحِلَّ۔ (شامی : ٦/٥٩٢)

(جَعَلَ شَيْءٌ) أيْ جَعَلَ البانِي شَيْئًا (مِن الطَّرِيقِ مَسْجِدًا) لِضِيقِهِ ولَمْ يَضُرَّ بِالمارِّينَ (جازَ) لِأنَّهُما لِلْمُسْلِمِينَ۔ (شامی : ٤/٣٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی الحجہ 1439

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم ۔۔۔۔مفتی صاحب کیا میٹر بائے پاس کر کے اس سے نھانے کیلئے پانی گرم کر سکتے ھیں یا نھیں؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ جتنا منفی دماغ پانی گرم کرنے کی ٹیکنک لگا رہے ہیں آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔بھتر ہوگا کے آپ ٹھنڈے پانی سے ہی نها ليا کریں۔

      حذف کریں
  2. السلامُ علیکم مفتی صاحب
    ایک مسئلہ یہ ہے کہ عورتیں حیض نفاس کی حالت میں قرآن بُخاری اور حدیث کی کتا بیں کو ہاتھ لگا سکتی ہیں یہ نہیں اور مدرسہ میں پڑھ سکتی ہیں گھر سے ہاتھ میں لے جاکر ۔۔
    انصاری حافظ اویس دھولیہ

    جواب دیںحذف کریں