اتوار، 27 فروری، 2022

تشدد معاملہ میں محروسین کی ضمانت آخر کب ہوگی؟

قارئین کرام ! ١٢ نومبر کو شہر میں تشدد کا جو معاملہ ہوا، اس کی بلاشبہ ہر کوئی مذمت کررہا ہے اور کرے گا۔ لیکن اس تشدد کے نام پر اندھا دھند گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری ہوا وہ بھی کچھ درست نہیں تھا۔ پھر انکوائری کے نام پر ان ملزمین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ پہلے پہل تو یہی گمان تھا کہ ایک دو ہفتے میں تمام ملزمین کی ضمانت ہوجائے گی اور مقدمہ چلتا رہے گا۔ لیکن کئی تاریخوں کے بعد بھی مایوسی ہی ہاتھ آئی اور پھر یہ گمان ہوا کہ شاید تین مہینہ مکمل ہونے پر ضرور ضمانت مل جائے گی۔ لیکن تین مہینے مکمل ہوجانے کے بعد بھی ان کی ضمانت مسترد کردی گئی۔ اور ان محروسین کے اہل خانہ کو ایک بار پھر وہاں سے روتے بلکتے واپس ہونا پڑا۔

محترم قارئین! ہمارا غالب گمان یہی ہے کہ تقریباً تمام محروسین بے قصور ہیں، ان میں اکثریت سماجی خدمت گاروں کی ہے جو خود اس وقت امن اور راحت رسانی کا کام کررہے تھے۔ یا پھر بالکل عام افراد کی ہے۔ جو اپنے کسی کام کے لیے یا پُر امن احتجاج میں شرکت کے لیے اس طرف گئے اور ڈپارٹمنٹ کی نظروں میں آگئے۔ محروسین کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک تقریباً اَسّی سالہ خاتون ہے جس کا اور کوئی نہیں ہے بس ایک ہی پوتا ہے۔ وہ بھی اس معاملے میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔ بے چاری بڑی بی، جیسے تیسے تاریخ پر کورٹ پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مزید تاریخ مل گئی۔ محروسین میں متعدد افراد ایسے ہیں جو اپنے گھر میں تنہا کمانے والے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کی معاشی حالت تشویشناک ہوگئی ہے۔ ان میں صنعت کار اور تاجر حضرات بھی ہیں جنہیں بلاشبہ قید وبند کی وجہ سے بڑا مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہوگا۔ چنانچہ ڈپارٹمنٹ اور عدلیہ کو یہ تمام باتیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان محروسین پر ماضی میں اس طرح کا کوئی بھی الزام نہیں رہا ہے۔ لہٰذا جلد از جلد ان کی ضمانت کی کارروائی کو مکمل کرنا چاہیے۔

انفرادی طور پر جمیعت علماء اور سیاسی لیڈران اگرچہ کوشش کررہے ہیں، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ گمشدہ بچوں کی تلاش گروپ کے دیگر جیالے نوجوان بھی مسلسل اس کی فکر میں ہیں اور حتی الامکان کوشش بھی کررہے ہیں کہ ضیاء الرحمن مسکان سمیت دیگر تمام بے قصور محروسین کی جلد از جلد رہائی ہوجائے۔ جس کے لیے انہوں نے احتجاج بھی درج کرایا تھا، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ ان کے پاس اثر ورسوخ اور وسائل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی کوشش صدا بہ صحراء ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے تمام سیاسی لیڈران اور نمائندہ تنظیمیں آپس میں مل کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں کہ جلد از جلد ان بے قصوروں کی رہائی عمل میں آئے۔ عوام اور بالخصوص محروسین کے اہل خانہ کی نظریں سبب کے درجہ میں آپ پر لگی ہوئی ہیں، اور عوام بھی دعاؤں کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو اس شعر کا مصداق بنا دیں کہ
      ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
    ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مظلوم اور بے قصور محروسین کو جلد از جلد باعزت رہائی نصیب فرمائے۔ اور اس سلسلے میں ہم سب کو اپنی بساط بھر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

1 تبصرہ:

  1. اللہ تعالیٰ عافیت کا معاملہ کرے جلد از جلد ان کی رہائی کے فیصلے فرمائے
    آپ کا یہ مضمون اس شعر کا مصداق ہے
    درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
    ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نا تھے کرو بیاں

    جواب دیںحذف کریں