بدھ، 16 فروری، 2022

رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت

سوال :

محترم مفتی صاحب! رجب کے کونڈوں کا کیا مطلب ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور بائیس رجب کو اگر کونڈے کے نام پر کھانے کی دعوت آئے تو اس میں شریک ہونا یا کہیں سے اس نام پر کھانا آئے تو اس کے کھانے کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ذیشان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رجب المرجب کے کونڈوں کی بنیاد ایک فرضی داستان ہے جو منشی جمیل احمد کا منظوم کلام ہے۔ جس میں ایک لکڑہارے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو مدینہ میں تنگدستی کی زندگی بسر کرتا تھا اور اس کے بیوی بچے اکثر فاقے کرتے تھے وہ بارہ سال تک در در دھکے کھاتا رہا لیکن فقر و فاقہ اور تنگدستی کی زندگی ہی گزارتا رہا۔ اس کی بیوی مدینہ میں وزیر کی نوکری کرتی تھی وہ ایک دن جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے گزرے، وہ وزیر کے محل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں سے پوچھتے ہیں؟ آج کونسی تاریخ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آج رجب کی بائیس 22 تاریخ ہے۔ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ نے فرمایا : اگر کسی حاجت مند کی حاجت پوری نہ ہوتی ہو یا کسی مشکل میں پھنسا ہو اور مشکل کشائی کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو تو اس کو چاہئے کہ بازار سے نئے کونڈے (مٹی کا مخصوص برتن) لائے اور ان میں حلوہ اور پوریاں بھر کر میرے نام کی فاتحہ پڑھے پھر میرے وسیلے سے دعا مانگے اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں ہوتی تو وہ قیامت کے دن میرا دامن پکڑ سکتا ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ یہ واقعہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ اس واقعہ کے مشمولات خلافِ شرع ہونے کے ساتھ ساتھ خلافِ عقل بھی ہیں۔ کیونکہ مدینہ طیبہ میں کبھی بادشاہ یا وزیر ہوئے ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اس واقعہ کو معتبر سمجھنا اور اس پر عمل کرنا دین میں ایک نئی چیز کا اضافہ کرنا ہے جو بلاشبہ بدعت اور گمراہی ہے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بائیس رجب کو کونڈے کی رسم حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں،) کی یوم ولادت پر ادا کی جاتی ہے۔ اور مخصوص کھانے بنا کر ایصالِ ثواب کی نیت سے انہیں لوگوں کو کھلایا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کونڈوں کی مروجہ رسم، دشمنانِ صحابہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار مسرت کے لیے ایجاد کی ہے، بائیس رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ہے۔ بائیس رجب کا حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ سے کوئی تعلق نہیں، اس تاریخ کو نہ ان کی ولادت ہوئی ہے اور نہ وفات، حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی ولادت ۸/ رمضان ۸۰ ہجری یا ۸۳ ہجری کی ہے اور وفات شوال ۱۴۸ ہجری میں ہوئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ورنہ درحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔ جس وقت یہ رسم ایجاد ہوئی اہل سنت والجماعت کا غلبہ تھا اس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی علانیہ تقسیم نہ کی جائے تاکہ راز فاش نہ ہو بلکہ دشمنان حضرت معاویہ رضی اللہ خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے یہاں جاکر اسی جگہ یہ شیرینی کھالیں جہاں اس کو رکھا گیا ہے اور اس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دوسرے پر ظاہر کریں، جب اس کا چرچا ہوا تو اس کو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت ان پر لگائی کہ انہوں نے خود اس تاریخ کو اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ سب من گھڑت ہے، مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرگز ایسی رسم نہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کرکے اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ (احسن الفتاوی : ۱/ ۲۶۷)

شریعت کا یہ مزاج بالکل نہیں ہے کہ کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی زندگی یا وفات وغیرہ کی تواریخ کو بعد میں منانے کے حوالے سے اجازت دی گئی ہو اور اس پر حصول اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو یا اس میں کھانے پینے سے متعلق اس طرح کی رسم کی ترغیب دی گئی ہو، اگر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ کونڈوں کے متعلق کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ ثابت ہوتا تو جہاں امام موصوف کا بچپن گذرا، جوان ہوئے اور وفات پائی وہاں اس کا سب سے زیادہ چرچا ہونا چاہیے تھا، اس کے برعکس وہاں اس طریقہ کو کوئی جانتا بھی نہیں مگر ہزاروں میل دور بیٹھے بے علم لوگوں کو ان باتوں کا کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ اس رسم کو پہلے چھپ چھپ کر اور اب علانیہ کرنے لگتے ہیں۔

اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ بائیس رجب کے کونڈے کے پیچھے بغضِ صحابہ کار فرما نہیں ہے تب بھی حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ایصالِ ثواب کے لیے مخصوص دن اور تاریخ متعین کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے کسی دن یا وقت کو مقرر کرنا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ حضراتِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہٴ مجتہدین سے۔ یہ دین میں ایک نئی چیز ہے جسے بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا ہے۔ لہٰذا بائیس رجب کو کونڈے کی دعوت میں شریک ہونا یا اس کے نام پر آنے والے کھانے کو قبول کرنا بدعت کی حوصلہ افزائی کہلائے گی جس سے بچنا ضروری ہے۔

حدثني عمر قال : حدثني علي قال : بایع أہل الشام معاویۃَ - إلی أن قال - مات بدمشق سنۃ ۶۰ یوم الخمیس لثماني بقین من رجب۔ (تاریخ بن جریر طبري، ذکر وفاۃ معاویۃ ۶؍۱۸۰-۱۸۱)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ: وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ " كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصُنْعَهُمْ الطَّعَامَ مِنْ النِّيَاحَةِ ". اهـ. وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ. وَفِيهَا مِنْ كِتَابِ الِاسْتِحْسَانِ: وَإِنْ اتَّخَذَ طَعَامًا لِلْفُقَرَاءِ كَانَ حَسَنًا اهـ وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ فِي الْمِعْرَاجِ. وَقَالَ: وَهَذِهِ الْأَفْعَالُ كُلُّهَا لِلسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ فَيُحْتَرَزُ عَنْهَا لِأَنَّهُمْ لَا يُرِيدُونَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى۔ (شامی : ٢/٢٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رجب المرجب 1443

8 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اللہ پاک ھمارے دینی بھاءیوں کو ھدایت عطا فرمائے آمین

      حذف کریں
  2. 35 علماء دیوبند نے دستخط کیے ھیں اس کتاب پر اور انھوں نے کہہ ھے یہ ہمارا عقیدہ ھے المہند کتاب میں رسول اللہ کی قبر کی مٹی کو اللہ کے عرش اور بیت اللہ سے افضل لکھا گیا ھے مجھے اس بات پر کسی نے قرآن کی آہت یا صحیح حدیث سے حوالہ مانگا ھے
    میری رہنمائی فرمایں

    جواب دیںحذف کریں