جمعہ، 25 فروری، 2022

ستائیس رجب کے ہزاری روزہ کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! ستائیس رجب کے روزے کی کوئی خاص فضیلت حدیث شریف سے ثابت ہے؟ بہت سے لوگ اسے ہزاری روزہ سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس کا اہتمام کرتے ہیں، براہ کرم اس روزے سے متعلق تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ماہ رجب المرجب کی ستائیس تاریخ کے روزے کے بارے میں جو روایت ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے وہ غیرمعتبر اور من گھڑت ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
رجب کے مہینے میں کسی خاص دن روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ قال الحافظ بن حجر في تبیین العجب : ۱۱، لم یرد في فضل شہر رجب ولا في صیامہ ولا صیام شيء منہ معین ولا في قیام لیلة مخصوصة فیہ حدیث یصلح للحجة، بعض حضرات ستائیسویں رجب کے روزہ کو ہزاری روزہ کہتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 46202)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رجب کے روزے کے متعلق کوئی روایت درست سند سے موجود نہیں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ رجب کے کسی مخصوص نماز اور روزے کا انکار کرتے ہیں۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بھی ماہ رجب کی کسی مخصوص تاریخ کے روزے اور مخصوص نماز کی فضیلت کے ثبوت کے منکر ہیں۔

البتہ رجب المرجب کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک حُرمت والے ہیں، جن میں ہر عبادت کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا اس مہینے میں کسی بھی تاریخ کا روزہ اس نیت سے رکھنا درست ہے خواہ وہ ستائیس تاریخ کا روزہ کیوں نہ ہو۔ لیکن سوال نامہ میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا عقیدہ رکھتے ہوئے ستائیس تاریخ کا روزہ رکھنا درست نہیں، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ایسی بات منسوب کرنا ہے جو آپ نے بیان نہیں فرمائی۔

حدیث فی رجب یوم ولیلۃ من صام ذلک الیوم وقام تلک اللیلۃ کان لہ الاجر صام مائۃ سنۃ وھی لثلث بقین وبعث اﷲ محمد ارواہ الدیلمی عن سلیمان فیہ خالد بن ھیاج۔ وابن ھیاج متروک لہ احادیث مناکیر کثیرۃ۔ (ما ثبت بالسنۃ : ۱۷۵)

وأمّا صَوْمُ رَجَبٍ بِخُصُوصِهِ فَأحادِيثُهُ كُلُّها ضَعِيفَةٌ بَلْ مَوْضُوعَةٌ لا يَعْتَمِدُ أهْلُ العِلْمِ عَلى شَيْءٍ مِنها ولَيْسَتْ مِن الضَّعِيفِ الَّذِي يُرْوى فِي الفَضائِلِ بَلْ عامَّتُها مِن المَوْضُوعاتِ المَكْذُوباتِ۔ (مجموع الفتاویٰ : ٢٥/٢٩٠)

وكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذِكْرِ صَوْمِ رَجَبٍ وصَلاةِ بَعْضِ اللَّيالِي فِيهِ فَهُوَ كَذِبٌ مُفْتَرًى كَحَدِيثِ مَن صَلّى بَعْدَ المَغْرِبِ أوَّلَ لَيْلَةٍ مِن رَجَبٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً جازَ عَلى الصِّراطِ بِلا حِسابٍ۔ (المنار المنیف : ٩٦)

لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه ولا صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للحجة۔ (تبيين العجب : ١١)

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِىِّ عَنْ أَبِى السَّلِيلِ عَنْ مُجِيبَةَ الْبَاهِلِيَّةِ عَنْ أَبِيهَا أَوْ عَمِّهَا أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ ﷺ ثُمَّ انْطَلَقَ فَأَتَاهُ بَعْدَ سَنَةٍ وَقَدْ تَغَيَّرَتْ حَالَتُهُ وَهَيْئَتُهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمَا تَعْرِفُنِى؟ قَالَ: «وَمَنْ أَنْتَ؟» قَالَ: أَنَا الْبَاهِلِىُّ الَّذِى جِئْتُكَ عَامَ الأَوَّلِ. قَالَ: «فَمَا غَيَّرَكَ وَقَدْ كُنْتَ حَسَنَ الْهَيْئَةِ؟» قَالَ: مَا أَكَلْتُ طَعَامًا إِلَّا بِلَيْلٍ مُنْذُ فَارَقْتُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لِمَ عَذَّبْتَ نَفْسَكَ؟» ثُمَّ قَالَ: «صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ وَيَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ». قَالَ: زِدْنِى؛ فَإِنَّ بِى قُوَّةً. قَالَ: «صُمْ يَوْمَيْنِ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ». وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثَةِ فَضَمَّهَا ثُمَّ أَرْسَلَهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٤٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1443

2 تبصرے: