ہفتہ، 19 فروری، 2022

بہو کو علاج کے لیے میکہ بھیج دینا

سوال :

ہمارے معاشرے میں ایک چیز بہت زیادہ عام ہے جب بیٹی بیمار ہوتی ہے تو والدین اس کے سسرال والے کو بول چال کر یا پھر لڑ جھگڑ کر اسے میکے میں لے کر آ جاتے ہیں علاج وغیرہ کرتے ہیں، اور جب بہو کی طبیعت خراب ہوتی ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ برداشت کر۔ نا اس کی دوا کی فکر کی جاتی ہے نا اس کے آرام کا خیال کیا جاتا ہے اور نا میکے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور شوہر بیوی کو دواخانہ لے کر چلا جائے تو پھر گھر میں قیامت آجاتی ہے۔ بعض مرتبہ بہو کے بیمار ہونے پر سسرال والے میکے اس لیے بھیج دیتے ہیں تاکہ لڑکی کے والدین علاج کا خرچ اٹھائیں، کیا یہ درست ہے؟ اس بارے میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام نے بیوی کے نان ونفقہ میں اس کی بیماری پر ہونے والے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے۔ لہٰذا شوہر پر اپنی استطاعت کے مطابق بیوی کا معقول علاج کرانا ضروری ہے۔

اپنی بیٹی کی فکر کرنا بلاشبہ اچھی بات ہے۔ لیکن بہو بھی آپ کی ذمہ داری میں ہے۔ لہٰذا اس سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے صرف اپنی بیٹی کی فکر کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیرانسانی فعل ہے۔ گھر والوں کو بہو کے علاج ومعالجہ کی فکر کرنا چاہیے اور بوقت ضرورت آرام کے لیے اسے میکہ بھیج سکتے ہیں، لیکن علاج کے اخراجات میکہ والوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کی برکت سے ان شاءاللہ ان کی بیٹی بھی اپنے سسرال میں بخیروعافیت رہے گی۔ اور گھر والے بہو کی فکر کریں یا نہ کریں، شوہر کی بہرحال ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے علاج ومعالجہ اور بیماری کے ایام میں حتی الامکان اس کے آرام کی فکر کرے۔ گھر والوں کی ناراضگی کی قطعاً فکر نہ کرے۔ کیونکہ اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی کی صورت میں اصل گرفت شوہر کی ہی ہوگی۔

نفقات العلاج : قرر فقهاء المذاهب الأربعة أن الزوج لا يجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لا تجب الفاكهة لغير أدم.
ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالباً إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلى العلاج كالحاجة إلى الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المريض يفضل غالباً ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ :۷۳۸۰/۱۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رجب المرجب 1443

2 تبصرے: