ہفتہ، 5 فروری، 2022

مسجد میں دنیاوی بات کرنے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

سوال :

مسجد میں دنیاوی بات چیت نیکی کو اسطرح کھا جاتی جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔ اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو جو لوگ مسجد میں دنیاوی بات کرتے ہیں تو ان کیلئے کیا حکم ہے؟
(المستفتی : اسجد ملک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت "مسجد میں دنیاوی بات چیت نیکی کو اس طرح کھا جاتی جیسے سوکھی لکڑی کو آگ" معتبر نہیں ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے بے اصل لکھا ہے۔ لہٰذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد میں بات کرنا مطلقاً منع نہیں ہے، بلکہ کسی سے ملاقات پر خیر خیریت دریافت کرلینا اور پست آواز سے کوئی ضروری بات کرلینے میں حرج نہیں، لیکن لایعنی قصے لے کر بیٹھ جانا یا خرید وفروخت کی بات کرنا مکروہ وممنوع ہے، اس لیے کہ یہ مسجد کے ادب کے خلاف ہے۔ البتہ مسجد میں جھگڑا کرنا اور چینخ وپکار کرنا یہ سخت گناہ کی بات ہے جس پر حدیث شریف میں وعید وارد ہوئی ہے۔

ترمذی شریف میں ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آخری زمانے میں جب لوگوں کی مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں، تو اس وقت سرخ آندھیوں کے چلنے، زلزلے آنے، زمین میں دہنسائے جانے، شکلیں مسخ ہونے جیسے عذابوں کا انتظار کرو۔

الحديثُ في المسجدِ يأكلُ الحسناتِ كما تأكلُ البهيمةُ الحشيشَ
السبكي (الابن) (ت ٧٧١)، طبقات الشافعية الكبرى ٦‏/٢٩٤  [لم أجد له إسنادا]

الحَدِيثُ فِي المَسْجِدِ يَأْكُلُ الحَسَناتِ كَما تَأْكُلُ البَهِيمَةُ الحَشِيشَ، لَمْ يُوجَدْ كَذا فِي المُخْتَصَرِ۔ (المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع، ٩٢)

قال اللہ تعالیٰ : وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔ (سورۃ الحج، آیت : ۳۲)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا فَعَلَتْ أُمَّتِي خَمْسَ عَشْرَةَ خَصْلَةً حَلَّ بِهَا الْبَلَاءُ ". فَقِيلَ : وَمَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : إِذَا كَانَ الْمَغْنَمُ دُوَلًا، وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا، وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا ، وَأَطَاعَ الرَّجُلُ زَوْجَتَهُ، وَعَقَّ أُمَّهُ، وَبَرَّ صَدِيقَهُ، وَجَفَا أَبَاهُ، وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ، وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ، وَلُبِسَ الْحَرِيرُ، وَاتُّخِذَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ، وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا، فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ أَوْ خَسْفًا وَمَسْخًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٢١٠)

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَنِّبُوا مَسَاجِدَکُمْ صِبْيَانَکُمْ وَمَجَانِينَکُمْ وَشِرَائَکُمْ وَبَيْعَکُمْ وَخُصُومَاتِکُمْ وَرَفْعَ أَصْوَاتِکُمْ وَإِقَامَةَ حُدُودِکُمْ وَسَلَّ سُيُوفِکُمْ وَاتَّخِذُوا عَلَی أَبْوَابِهَا الْمَطَاهِرَ وَجَمِّرُوهَا فِي الْجُمَعِ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٧٥٠)

وَالْكَلَامُ الْمُبَاحُ؛ وَقَيَّدَهُ فِي الظَّهِيرِيَّةِ بِأَنْ يَجْلِسَ لِأَجْلِهِ وتحتہ فَإِنَّهُ حِينَئِذٍ لَا يُبَاحُ بِالِاتِّفَاقِ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ مَا بُنِيَ لِأُمُورِ الدُّنْيَا۔ (شامی، مطلب فی الغرس فی المسجد، ۱/۶۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں