جمعرات، 17 فروری، 2022

والدین کے انتقال کے بعد ایک بیٹے کا ترکہ سے حصہ مانگنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک بات جاننا چاہتا ہوں زید کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا ہے، زید کے چھ بھائی ہیں زید کا ایک بھائی جائیداد میں حصہ مانگ رہا ہے باقی پانچ بھائی حصہ دینا نہیں چاہتے ان کا کہنا ہے کہ جب حصہ ہوگا تو سب کا ایک ساتھ ہوگا لیکن زید کا بڑا بھائی نہیں مان رہا ہے محترم مفتی صاحب آپ اس مسئلہ کا حل بتا دیجئے۔
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز وتکفین کے بعد، اگر اس پر قرض ہوتو اس کے چھوڑے ہوئے مال میں سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ اور اگر وصیت ہوتو اسے بھی تہائی مال سے ادا کردیا جائے گا۔ اس کے بعد بقیہ مال وارثین کو آپس میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرلینا چاہیے۔ میراث کی تقسيم میں تاخیر شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جو بھائی اپنے والدین کے ترکہ سے اپنا حصہ مانگ رہا ہے تو اس کا مطالبہ شرعاً درست ہے۔ بقیہ بھائی جو ترکہ پر قبضہ کیے ہوئے ہیں انہیں جلد از جلد اس کا حصہ دے دینا چاہیے، تمام بھائیوں کے حصے کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔

تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ: الأول: یبدأ بتکفینہ وتجہیزہ … ثم تقضی دیونہ من جمیع ما بقي من مالہ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین، ثم یقسم الباقي بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ۔ (السراجي في المیراث ص : ۳-۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رجب المرجب 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں