پیر، 27 فروری، 2023

مہر میں خود کو حافظہ بنوانا مقرر کرنا

سوال :

مفتی صاحب! کیا کوئی لڑکی حق مہر میں رقم کی جگہ یہ کہے کہ مجھے میرا شوہر حافظ قرآن بنائے میرے لئے حق مہر یہی ہے۔ مفتی صاحب ایسا کہنا کیسا ہے؟ اور پھر شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟ حالانکہ لڑکی کا آخری سال ہے عالمہ کے کورس کا، اور لڑکا حافظ ہے۔ آپ رہبری فرمائیں۔
(المستفتی عطاء الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک مہر کا مال متقوم یعنی مال کے قبیل سے ہونا ضروری ہے، لہٰذا اگرمہر میں کوئی ایسی چیز متعین کی جو مال کے قبیل سے نہ ہو، مثلاً کسی شخص نے نعوذ باللہ شراب یا خنزیر کو مہر میں مقرر کیا، جو مسلمان کے حق میں مال نہیں ہے تو اِس تعیین کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ حسبِ ضابطہ مہرِ مثل لازم ہوگا۔

اسی طرح مہر میں قرآن مجید کی آیات و سورۃ حفظ یا ناظرہ سنانے یا خود کو حافظہ بنوانا مقرر کرنا جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو یہ درست نہیں، اس لئے کہ یہ مال متقوم نہیں ہے۔ لہٰذا مہر میں یہ بات مقرر نہیں کرنا چاہیے بلکہ حفظ قرآن والی بات کو صرف درخواست کی حد تک رکھنا چاہیے کہ لڑکی کی ایک نیک خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔

تاہم اگر کسی نے ایسا کرلیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اور بیوی کو مہر مثل ملے گا، نکاح کے صحیح ہونے کے لیے شوہر کا مذکورہ شرط کا پورا کرنا ضروری نہیں، اور نہ اس کی وجہ سے اس کے نکاح پر کوئی اثر ہوگا، البتہ یہ بات وعدہ کی قبیل سے ہوجائے گی اور حفظ قرآن بھی بڑی فضیلت والا عمل ہے، لہٰذا شوہر کو اپنی بیوی کو اتنی سہولت دینا چاہیے کہ وہ حفظ قرآن کے لیے کچھ وقت نکال سکے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ مہر مثل یہ وہ مہر ہے جو لڑکی کے خاندان کی دیگر عورتوں مثلاً بہنوں، پھوپھیوں اور چچازاد بہنوں کے مہر کے برابر مقرر کیا جاتا ہے۔

وَصَرَّحَ الْحَنَفِيَّةُ بِأَنَّ الْمَهْرَ مَا يَكُونُ مَالاً مُتَقَوِّمًا عِنْدَ النَّاسِ فَإِذَا سَمَّيَا مَا هُوَ مَالٌ يَصِحُّ التَّسْمِيَةُ وَمَا لاَ فَلاَ۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ / تحت لفظ : مہر، ۳۹/٣٠٣)

وَإِنْ تَزَوَّجَهَا وَلَمْ يُسَمِّ لَهَا مَهْرًا أَوْ تَزَوَّجَهَا عَلَى أَنْ لَا مَهْرَ لَهَا فَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا إنْ دَخَلَ بِهَا أَوْ مَاتَ عَنْهَا۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۳۰۴/۱)

اما مہر المثل فقد حد رد الحنفیۃ بانہ مہر امرأۃ تماثل الزوجۃ وقت العقد من جہۃ ابیھا لا امھا ان لم تکن من قوم الیھا کاختھا وعمّتھا وبنت عمّھا فی بلدھا وعصرھا۔ (الفقہ الاسلامی وادلّتہٗ: ۷؍۲۶۶، رابعًا انواع المہر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1444

جمعہ، 24 فروری، 2023

زلزلہ وغیرہ متاثرین کی ریلیف میں زکوٰۃ اور سودی رقم دینا


سوال :

محترم مفتی صاحب! ترکی شام وغیرہ کے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے ریلیف جمع کی جارہی ہے تو ان کی مدد کون سی مد سے کی جائے؟ کیا اس میں زکوٰۃ اور سودی رقم دے سکتے ہیں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک صدقۂ واجبہ، دوسرے صدقۂ نافلہ۔

نذر، منت، زکوٰۃ، صدقۂ فطر، فوت شدہ نماز، روزوں کے فدیہ اور سودی رقم وغیرہ، صدقۂ واجبہ ہیں، اس کا مصرف مستحق اور مسکین مسلمان ہیں، اور اس میں تملیک یعنی مستحق کو اس مال کا مالک بنانا شرط ہے۔ لہٰذا یہ رقوم ان مسلمان متاثرین کو دی جاسکتی ہے جو صاحبِ نصاب باقی نہیں رہے یعنی ان کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، سامان خورد ونوش، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ موجودہ اوزان کے مطابق 62 تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر مال نہ ہو۔ اور بلاشبہ زلزلہ متاثرین کے پاس تو عموماً کچھ بھی باقی نہیں رہتا، ان کا رہائشی مکان تک تباہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے جمع کی جارہی ریلیف میں صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ اور سودی رقم دی جاسکتی ہے۔

مذکورہ بالا صدقۂ واجبہ کے علاوہ آدمی اپنی کمائی سے جو مال نکالے اسے صدقۂ نافلہ، چندہ، ہبہ، عطیہ اور امداد سب کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مصرف مساجد، مدارس، خود صدقہ دینے والا، اس کے گھر والے، مالدار اور غریب، مسلم غير مسلم سب ہیں، اس میں تملیک شرط نہیں۔ لہٰذا یہ رقوم بدرجہ اولی زلزلہ متاثرین کو دی جاسکتی ہے۔

اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ والافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء۔ (شامي : ۲؍۳۵۷)

فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم با الاتفاق وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ وکذلک یجو ز النفل للغني۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۱-۲۱۴/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)

ای مصرف الزکاۃ والعشر…(ھو فقیر وھو من لہ ادنی شیٔ)ای دون نصاب أو قدر نصاب غیرتام مستغرق فی الحاجۃ (ومسکین من لاشیٔ لہ) علی المذھب۔ (الدر المختار : ۳۳۹/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1444

جمعرات، 23 فروری، 2023

حافظ بننے کی خوشی میں دعوت کرنا

سوال :

مفتی صاحب! تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر دعوت کرنا کیسا ہے؟ کیا اس موقع پر بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرنے سے متعلق اسلاف کے یہاں کوئی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے یا یہ ایک نئی چیز ہے؟ راہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : فہیم ابرہیم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی غیرمعمولی نعمت کے ملنے پر دعوت کا اہتمام کرنا جائز ہے۔ اور قرآن کریم کا حفظ تو بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا کسی بچے کے حافظِ قرآن بننے کی خوشی میں دعوت کرنا درست ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اور اس کا ثبوت قرونِ اولی بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے ملتا ہے کہ جب آپ نے سورہ بقرہ یاد کی تھی تو اس کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کرکے متعلقین اور غرباء کے لیے دعوت کا نظم کیا تھا۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نور اللہ مرقدہ نے ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں مدلل اور نہایت حکیمانہ جواب لکھا ہے :
قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی دولت ہے۔ اس کا حفظ کرلینا بہت بڑی دولت ہے، اگر شکرانہ کے طور پر احباب ومتعارفین کو مدعو کیا جائے اورغرباء و احباب کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اس نعمت کی قدر دانی ہے ممنوع نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک دوسروں کو بھی حفظ کا شوق عطا فرمائے اوریہ اجتماع ترغیب وتبلیغ میں معین ہوجائے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جب سورۂ بقرہ یاد کی تھی تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب وغرباء کو کھلایا تھا۔ اس لئے سلف صالحین میں اس کی اصل اور نظیر موجود ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے۔ ریا اور فخر کے لئے جو کام کیاجائے وہ مقبول نہیں، اور نیت کا حال خدا ہی کو معلوم ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر اس نے رسم کی صورت اختیار کرلی تو اور پریشانی ہوگی، اس لئے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخفی طور پر غرباء کو ان کی ضرورت کی اشیاء دیدی جائیں اور بچہ نے جہاں ختم کیا ہے وہاں پڑھنے والے بچوں اور ان کے اساتذہ کو شیرینی وغیرہ دیدی جائے اورمدرسہ کی امدادکردی جائے۔ (فتاوی محمودیہ : ٧/٨٠)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
بچے کے حافظ قرآن ہونے پر خوشی ومسرت میں دوست واحباب اور رشتہ داروں کو بلاکر کھانے کی دعوت کرسکتے ہیں، فی نفسہ اس میں کچھ حرج نہیں، البتہ اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں :

الف : صرف استطاعت کے بہ قدر لوگوں کو مدعو کریں۔

ب : غریب لوگوں کو بھی مدعو کریں، مثلاً کسی مدارس کے غریب طلبہ۔

ج : کھانے میں اسراف نہ کیا جائے۔

د : اگر عورتیں بھی مدعو ہوں تو ان کا مردوں سے الگ باپردہ انتظام کیا جائے۔

ھ : دعوت میں آنے والے حضرات سے کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول نہ کیا جائے۔

اور اگر آپ دعوت کے بجائے صرف مٹھائی تقسیم کرادیں تو یہ زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ عام طور پر لوگ طبیعت کے کچے ہوتے ہیں اور استطاعت نہ ہونے کے باوجود محض دیکھا دیکھی یا شرما حضوری وغیرہ میں اس طرح کی دعوتوں کا اہتمام والتزام شروع کردیتے ہیں، پھر اس طرح کی دعوتیں رسم بن کر مصیبت ہوجاتی ہیں۔ (رقم الفتوی : 173903)

خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ہونے کی خوشی میں دعوت کرنا اگرچہ جائز ہے۔ لیکن ہمارے یہاں گذشتہ دو تین سالوں سے جو بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور پھر اس میں تحائف بھی قبول کیے جارہے، اور مدعو حضرات بھی تحائف دینے کو ضروری سمجھ رہے ہیں، یعنی بشاشتِ قلبی کے ساتھ تحائف کا لین دین نہیں ہورہا ہے یہ سب باتیں شریعت کے مزاج کے خلاف ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے غرباء اور غیرمستطیع والدین کے بچے بھی اپنے والدین سے دعوتوں کے اہتمام کی ضد کرتے ہیں، اور پھر غیرمستطیع والدین بچوں کی خاطر یا پھر شرما حضوری میں قرض تک لے کر اس طرح کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جو بلاشبہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا مالداروں کے لیے بھی احتیاط اور عافیت اسی میں ہے کہ وہ دعوت طعام کا نظم ہی نہ کریں، بلکہ صرف شیرینی کی حد تک اہتمام ہو اور حافظ بننے والے طالب علم کے اساتذہ اور اس کے مدرسہ کی مالی خدمت کی جائے کہ یہ زیادہ اجر وثواب کا باعث ہوگا۔ اور اگر دعوت کرنا ہی ہوتو بالکل قریبی رشتہ دار، قریبی دوست واحباب، حافظ بننے والے طالب علم کے اساتذہ اور اس کے چند دوستوں کا انتظام کیا جائے۔

عَنْ نافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قالَ : تَعَلَّمَ عُمَرُ البَقَرَةَ فِي اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمّا خَتَمَها نَحَرَ جَزُورًا، وذَلِكَ إنّا رُوِّينا أنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطّابِ حفظ البقرة في بضع عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمّا حَفِظَها نَحَرَ جَزُورًا شُكْرًا لِلَّهِ۔ (تفسير قرطبی : ١/٤٠)

إنّ الوَلائِمَ عَشْرَةٌ مَعَ واحِدٍ … مَن عَدَّها قَدْ عَزَّ فِي أقْرانِهِ
فالخُرْسُ عِنْدَ نِفاسِها وعَقِيقَةٌ … لِلطِّفْلِ والإعْذارُ عِنْدَ خِتانِهِ
ولِحِفْظِ قُرْآنٍ وآدابٍ لَقَدْ … قالُوا الحُذّاقُ لِحِذْقِهِ وبَيانِهِ
ثُمَّ المِلاكُ لِعَقْدِهِ ووَلِيمَةٌ … فِي عُرْسِهِ فاحْرِصْ عَلى إعْلانِهِ
وكَذاكَ مَأْدُبَةٌ بِلا سَبَبٍ يُرى … ووَكِيرَةٌ لِبِنائِهِ لِمَكانِهِ
ونَقِيعَةٌ لِقُدُومِهِ ووَضِيمَةٌ … لِمُصِيبَةٍ وتَكُونُ مِن جِيرانِهِ
ولِأوَّلِ الشَّهْرِ الأصَمِّ عَتِيرَةٌ … بِذَبِيحَةٍ جاءَتْ لِرِفْعَةِ شَأْنِهِ۔ (شامی : ٦/١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 شعبان المعظم 1444

بدھ، 22 فروری، 2023

بیوی کو دوبارہ مہر دینے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! درج سوال کا جواب قرآن و احادیث کی روشنی میں ارسال فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ برسوں پہلے نقد مہر پر زید کا نکاح ہوچکا ہے۔ تب زید کے علم کی کمی یا معاشی حالات کے مدنظر فریقین نے آپسی رضا مندی سے جو مہر طے کیا اس پر نکاح ہوچکا ہے۔ اب زید کو علم ہوا اور اس کے معاشی حالات بھی کشادہ ہیں اور اب زید مہر فاطمی ادا کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا زید ابھی اپنی زوجہ کو مہر فاطمی ادا کرسکتا ہے۔ اگر ہاں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
(المستفتی : شاکر شیخ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایجاب وقبول کے وقت جس رقم کا ذکر کیا گیا تھا وہی بیوی کے لیے حق مہر تھا جس کا ادا کرنا شوہر پر واجب تھا۔ اگر شوہر نے یہ رقم ادا کردی ہے تو اب اس پر مہر کے نام پر کسی بھی رقم کا دینا واجب نہیں۔ لیکن اگر شوہر اپنی مرضی اور خوشی سے بیوی کو دوبارہ مہر کے نام پر مہر فاطمی کی مقدار رقم دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ رقم شوہر کی طرف سے بیوی کو تحفہ اور ہدیہ ہوگی۔

عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ : أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ ؛ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٢١٠٦)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُّ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا، وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ۔ (مؤطا امام مالک، رقم : ٢٦٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1444

منگل، 21 فروری، 2023

جس تہبند یا پاجامہ میں رات گزاری گئی ہو اس میں فجر پڑھنا

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ ایک عالم سے یہ مسئلہ سنا ہے، جس تہہ بند لنگی یا پائجامہ میں رات گزاری ہو اس تہہ بند، پائجامہ میں فجر کی نماز ادا کی جائے وہ نماز مکروہ ہوتی ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
(المستفتی : محمد ابوداؤد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہ وفتاوی میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں لکھا ہے کہ جس تہبند اور پاجامہ میں رات گزاری ہو اسے پہن کر فجر کی نماز ادا کی جائے تو وہ نماز مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ یہ بات ہوسکتی ہے کہ اگر کسی نے رات میں سوتے وقت تہبند یا پاجامہ پہنا ہو اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بوس وکنار کیا ہو اور آلہ تناسل میں تناؤ آنے کی وجہ سے اس کی مذی نکل کر اس کے تہبند یا پاجامہ میں لگ گئی ہو اور اس کو اس کا علم بھی ہو لیکن اس کے باوجود اگر اس نے اسے نہیں دھویا اور اسی طرح نماز ادا کرلی تو نماز مکروہ ہوگی اور اگر مذی ایک سکہ کی مقدار سے زیادہ ہوتو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی، لہٰذا اس نماز کا دوہرانا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر اسے کبھی بھی اور کسی بھی طرح اس بات کا علم ہی نہیں ہوا کہ اس کے کپڑوں میں مذی لگی ہے تو پھر اس کی نماز بلاکراہت درست ہوگی۔

قَالَ (وَفِي الْمَنِيِّ الْغُسْلُ) لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إنَّمَا الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ» يَعْنِي الِاغْتِسَالَ مِنْ الْمَنِيِّ.....قَالَ (، وَفِي الْمَذْي الْوُضُوءُ) لِحَدِيثِ «عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ كُنْتُ فَحْلًا مَذَّاءً فَاسْتَحْيَيْت أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ تَحْتِي فَأَمَرْت الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ حَتَّى سَأَلَهُ فَقَالَ كُلُّ فَحْلٍ يُمْذِي، وَفِيهِ الْوُضُوءُ» وَكَذَلِكَ الْوَدْيُ فَإِنَّهُ الْغَلِيظُ مِنْ الْبَوْلِ فَهُوَ كَالرَّقِيقِ مِنْهُ، ثُمَّ فَسَّرَ هَذِهِ الْمِيَاهَ فَقَالَ (الْمَنِيُّ خَائِرٌ أَبْيَضُ يَنْكَسِرُ مِنْهُ الذَّكَرُ)، وَذَكَرَ الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي كِتَابِهِ أَنَّ لَهُ رَائِحَةَ الطَّلْعِ (، وَالْمَذْيُ رَقِيقٌ يَضْرِبُ إلَى الْبَيَاضِ يَخْرُجُ عِنْدَ مُلَاعَبَةِ الرَّجُلِ أَهْلَهُ، وَالْوَدْيُ رَقِيقٌ يَخْرُجُ مِنْهُ بَعْدَ الْبَوْلِ)، وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الْمِيَاهِ مَرْوِيٌّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا بِهَذِهِ الصِّفَةِ۔ (المبسوط : ۱؍۶۷، کتاب الصلاۃ، باب الوضوء و الغسل)

عن سہل بن حنیف رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت القی من المذي شدۃ وعناء فکنت أکثر منہ الغسل فذکرت ذٰلک لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسألتہ عنہ، فقال: إنما یجزئک من ذٰلک الوضوء، قلت: یا رسول اللّٰہ! کیف بما یصیب ثوبي منہ قال یکفیک أن تاخذ کفا من ماء فتنضح بہ ثوبک حیث تری أنہ أصاب منہ۔ (سنن الترمذي : ١/۳۱)

وعفا (الشارع) عن قدر درہم۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۴۵)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1444

امتحانات میں نقل نویسی کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! دسویں بارہویں کے امتحانات ہونے والے ہیں، جس میں بعض طلباء چیٹنگ کرتے ہیں، وہ اس طرح سے کہ پہلے ہی سے امکانی سوالات کی پرچیاں بناکر لے جاتے ہیں اور وہاں موجود بعض نگراں بھی ان طلباء کو نقل کرنے میں مدد کرتے ہیں، تو ان کا یہ عمل شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شہزاد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امتحانات کا مقصد نصاب سے مطلوب، طلباء کی استعداد وصلاحیت کو جانچنا اور پرکھنا ہوتا ہے، اب اگر طلباء اس میں چیٹنگ اور نقل کرنے لگیں تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی طالب علم کا بحالت ِامتحان، کسی کا جوابی پرچہ دیکھ کر نقل کرنا یا کروانا، اپنے ساتھ جوابی تحریر لے جانا، یا قبل از وقت سوالیہ پرچوں کا حاصل کرلینا، خلافِ قانون ہونے کے ساتھ خلافِ شریعت بھی ہے، ایسا کرنا خیانت اور دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے، اگر نقل نویسی نگراں کی اجازت اور اس کی مدد سے ہو تو نگراں اور طالب علم دونوں خائن اور گناہ گار ہوں گے، اور اگر نگراں کی اجازت کے بغیر ہے تو صرف طالب علم ہی خائن ہوں گے اور خیانت کو حدیث شریف میں منافقوں کی علامت کہا گیا ہے، لہٰذا نقل نویسی سے بچنا بہت ضروری ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدۃ، آیت :۲)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠١)

عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهِ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ لَهُ بِهِ كَاذِبٌ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٩٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1444

اتوار، 19 فروری، 2023

نور محمد صلی اللہ کہنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ایک نعت ہے حسبی ربی جل اللہ، نور محمد صلی اللہ اس میں نور محمد صلی اللہ کہنا جائز ہے؟ ایک مولوی صاحب کا کہنا ہے ایسا کہنا جائز نہیں ہے۔
(المستفتی : مسیب خان، جنتور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر، بلکہ افضل البشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لیے مینارہٴ نور ہیں، یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کوخدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی تاقیامت درخشندہ وتابندہ رہے گی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع کے اعتبار سے بشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے نور ہیں۔ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم : ۳۷)

لہٰذا یہ نعتیہ شعر "نور محمد صلی اللہ" پڑھنا بالکل درست ہے۔ اس لیے کہ یہاں ذات کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نور نہیں کہا جارہا ہے، بلکہ صفت کے اعتبار سے نور کہا جارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری انسانیت کے لیے نورِ ہدایت ہیں۔ یہی بات دارالعلوم دیوبند کے ایک عربی فتوی میں لکھی ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بشر سمجھتے ہوئے نور کہنا درست ہے۔

فتوی درج ذیل ہے :
لو کانت عقیدة القائل صحیحة یعنی أنہ یعتقد أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بشر ویقول إنہ نور باعتبار الصفات فلا بأس فیہ وإن یقول ”نور محمد“ باعتقاد أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق نوري فلا یجوز۔ (رقم الفتوی : 161253)

ایک اردو فتوی ہے :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے انسان اور بشر تھے اور صفات کے اعتبار سے نور تھے، قرآن میں ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ الخ۔ (رقم الفتوی : 56179)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور مولوی صاحب کی بات درست نہیں ہے۔ انہیں مذکورہ شعر کو مطلق ناجائز نہیں کہنا چاہیے، بلکہ ہمارے عقیدہ کی پوری بات سمجھانا چاہیے تاکہ کچھ خلجان باقی نہ رہے۔

قال اللہ تعالیٰ : قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ۔ (سورۃ الکہف : ۱۱۰)

وقال تعالیٰ : ذٰلِکَ بِاَنَّہُ کَانَتْ تَأْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالُوْا اَبَشَرٌ یَہْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَاسْتَغْنَی اللّٰہُ۔ (سورۃ التغابن : ۶)

عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنہ لو حدث في الصلاۃ شيء أنبأتکم بہ ولٰکن إنما أنا بشر أنسی کما تنسون الخ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٥٧٢)

عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنکم تختصمون إلي وإنما أنا بشر الخ۔ (سنن الترمذي، رقم : ١٣٣٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 رجب المرجب 1444

اجتماع کی اختتامی دعا سے متعلق اہم وضاحت

قارئین کرام! اجتماع کی اختتامی دعا کے سلسلے میں ہماری ایک عاجزانہ درخواست شہر اور بیرون شہر بڑی تیزی سے وائرل ہوئی، الحمدللہ بڑی تعداد میں ائمہ وعلماء سمیت تبلیغی جماعت کے احباب اور عام عوام نے اس کی تائید اور سراہنا کی۔ اب چونکہ اجتماع ختم ہوچکا ہے تو کل سے متعدد کال اور میسج آرہے ہی، اور ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق بات کررہا ہے۔ لہٰذا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں مزید کچھ باتوں کی وضاحت کردی جائے تاکہ بات کا رُخ کہیں اور نہ چلا جائے۔

پیغامات اور فون کال کچھ اس طرح کے ہیں کہ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی رائے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور وہی اپنی پرانی روش کے مطابق اعمال ہوئے۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ آپ کی تحریر کا اثر تھا کہ ایک بڑے مجمع نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی۔

چنانچہ ان سب کے جواب میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد دعا کرنے والی ہماری درخواست تو مجمع کو جوڑے رکھنے کے لیے تھی کہ وہ عشاء کی نماز پڑھے بغیر نہ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تحریر میں عوام سے بھی یہ بات کہی تھی کہ فرض نماز چھوڑ کر دعا کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں تک بھی یہ بات پہنچی اور انہوں نے محسوس کرلیا کہ واقعی ہم فرض نماز چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کررہے ہیں تو انہوں نے اس پر عمل کیا اور نماز پڑھ کر ہی اجتماع گاہ سے رخصت ہوئے۔ لیکن اگر یہ مقصد (مجمع کا باجماعت نماز پڑھ لینا) کسی اور طریقہ سے بھی حاصل ہوجائے تب بھی ہمارا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور بات ختم ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنی رائے پر کبھی بھی اصرار نہیں رہا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی دینی مجلس کے اختتام پر دعا کرنا مستحب ہے۔ لہٰذا ان کا مروجہ طریقہ بھی بالکل درست ہے۔ بس غلط بات یہی تھی کہ دعا کے بعد بالکل چھٹی جیسا ماحول بن جاتا تھا اور اذان وجماعت ہوتی رہتی تھی اور لوگ گھروں کی طرف رواں دواں ہوتے تھے۔

ہماری رائے شہر کے علماء کرام نے ذمہ داران تک بڑے اچھے انداز میں پہنچا دی تھی۔ جسے اجتماع کے ذمہ داران نے بڑی سنجیدگی سے لیا جو ان کی سعادت مندی کی علامت ہے۔ اور اصل مرض جو مجمع کا جماعت یا نماز ترک کردینے والا تھا اس پر حکمتِ عملی سے قابو پانے کی کوشش کی گئی اور دعا کے بعد چھٹی جیسا ماحول ہی بننے نہیں دیا گیا کہ مجمع بغیر نماز پڑھے چلا جائے۔ لہٰذا دعا سے پہلے مجمع کو نماز کی تاکید کی گئی اور دعا کے فوراً بعد اذان اور پھر جماعت کھڑی کردی گئی جس کی وجہ سے تقریباً 90 فیصد مجمع نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کرلی جو اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اسی طرح عوام نے بھی اپنی دینی حمیت کا ثبوت دیا اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھ کر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی کبھی اجتماعات ہوں تو اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ نماز جیسا اہم فریضہ اور جماعت جیسی تاکیدی سنت مجمع سے ترک نہ ہو۔

اللہ تعالٰی سب کو ان کی نیتوں کے مطابق بدلہ عطا فرمائے اور سب کو شریعت وسنت کا پابند بنائے۔ آمین ثم آمین