بیوی کو دوبارہ مہر دینے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! درج سوال کا جواب قرآن و احادیث کی روشنی میں ارسال فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ برسوں پہلے نقد مہر پر زید کا نکاح ہوچکا ہے۔ تب زید کے علم کی کمی یا معاشی حالات کے مدنظر فریقین نے آپسی رضا مندی سے جو مہر طے کیا اس پر نکاح ہوچکا ہے۔ اب زید کو علم ہوا اور اس کے معاشی حالات بھی کشادہ ہیں اور اب زید مہر فاطمی ادا کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا زید ابھی اپنی زوجہ کو مہر فاطمی ادا کرسکتا ہے۔ اگر ہاں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
(المستفتی : شاکر شیخ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایجاب وقبول کے وقت جس رقم کا ذکر کیا گیا تھا وہی بیوی کے لیے حق مہر تھا جس کا ادا کرنا شوہر پر واجب تھا۔ اگر شوہر نے یہ رقم ادا کردی ہے تو اب اس پر مہر کے نام پر کسی بھی رقم کا دینا واجب نہیں۔ لیکن اگر شوہر اپنی مرضی اور خوشی سے بیوی کو دوبارہ مہر کے نام پر مہر فاطمی کی مقدار رقم دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ رقم شوہر کی طرف سے بیوی کو تحفہ اور ہدیہ ہوگی۔

عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ : أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ ؛ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٢١٠٦)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُّ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا، وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ۔ (مؤطا امام مالک، رقم : ٢٦٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1444

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ