ہفتہ، 4 فروری، 2023

ملٹی لیول مارکیٹنگ کا شرعی حکم

✍️مفتی محمد عامر ملی عثمانی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ہر ہفتہ پرسنل نمبر یا گروپ پر چند کمپنیوں کے بارے میں سوال آتا ہے کہ فلاں فلاں کمپنی سے جڑ کر کام کرنا اور اس سے پیسے کمانا جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح لوگوں کو پرسنل نمبر یہ میسج بھی آتا رہتا ہے کہ گھر بیٹھے آپ دس پندرہ ہزار کمانا چاہتے ہیں تو ہم سے جڑ جائیں۔ ہمیں اپنا نام، پتہ اور عمر لکھ کر ارسال کریں۔ چنانچہ آج ہم زیر نظر مضمون میں اس طرح کی ساری کمپنیوں کے طریقہ کار اور ان کی شرعی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

معزز قارئین ! تجارت کے نت نئے طریقوں میں نیٹ ورکنگ (Net working) اور ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing) کا طریقہ بھی عام ہورہا ہے، ویسے یہ طریقہ بالکل نیا بھی نہیں ہے، پندرہ سال سے زائد عرصہ سے یہ طریقہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں رائج رہا ہے، اور یہ طریقہ ہندوستان میں یورپی ممالک سے ناکام ہونے کے بعد پہنچا ہے۔ ملٹی لیول مارکیٹنگ طریقہ کار کے مطابق جو کمپنیاں کام کرتی ہیں ان میں Vestige, Modi care, M way, Forever living, Ebiz.Com, Harbalife وغیرہ ہیں، اور صرف یہی کمپنیاں نہیں، بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سی کمپنیاں نئے نئے نام کے ساتھ وجود میں آرہی ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اور بھی کمپنیاں وجود میں آئیں گے۔ اس طرح کی کمپنیوں کے کام کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے :

ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی میں جڑنے کے بعد کمپنی کے دوکان سے سامان خریدنا پڑتا ہے، سامان ہاتھ میں آنے کے بعد کمپنی ہمیں کچھ فیصد بونس دیتی ہے اور ہم جتنے لوگ کو اپنے نیچے جوڑیں گے اتنا ہمارا بونس بڑھتا جائے گا اور ہم سے نیچے والا وہ بھی جتنے لوگ کو جوڑے گا اس کا بھی ہمیں کچھ فیصد بونس ملے گا۔ اس کمپنی میں صرف لوگوں کو کمپنی سے جوڑکر سامان خریدوانا ہے کمپنی خود اپنے آپ کھاتے میں بونس ڈال دے گی، جتنا اپنے سے نیچے والے کو سامان خریداری کروائیں گے اتنا ہمیں فائدہ ہوگا، اور اس میں ہم سے نیچے والا کو بھی فائدہ ہے اگر وہ اپنے سے نیچے کیسی کو جوڑے گا۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ پر دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

نیٹ ورک مارکیٹنگ سسٹم جس میں نیچے تک جوڑنے والے کی خریداری سے کچھ نہ کچھ حصہ اوپر (سب سے پہلے ممبر بنانے) والے کو ملتا رہتا ہے اور یہ طریقہ اصولِ اجارہ کے خلاف ہے، لہٰذا اس طریقہ پر نفع کمانا درست نہیں۔

اسی کے ساتھ اس طرح کی کمپنیوں میں مزید شرعی قباحتیں موجود ہوتی ہیں، اگر آپ کسی ایسی کمپنی سے جڑے ہوئے ہیں یا جڑنا چاہتے ہیں جن میں درج ذیل خرابیوں میں سے ایک خرابی بھی موجود ہو تو آپ اس سے قطعاً دور ہوجائیں۔

۱) اگر اس طریقہٴ کار کو بیع کہا جائے تو چونکہ اس کے اندر خریداری کے لیے ممبر بننا شرط ہے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہے؛ لہٰذا یہ بیع کے فاسد ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ (هدایہ: ۳/۵۹)

۲) اس جیسی کمپنیوں میں خریداری مقصود ہی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی خریدنے والے کو کمپنی کی طرف سے مختلف متعین سامانوں کو خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے؛ بلکہ اصل مقصد ممبر بننا ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی ایک متعین سامان لینا ضروری ہوتا ہے، اس سے کم یا زیادہ کا یا بالکل نہ لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے جو شرائطِ فاسدہ اور عدم تراضی کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (البقرة: ۱۸۸)

۳) اس کمپنی سے اول مرحلہ میں دیئے جانے والے سامانوں کی قیمت ان کے بازاری ریٹوں سے کئی گنا زیادہ لگائی جاتی ہے جو غبن فاحش کی وجہ سے ناجائز ہے۔

۴) اس کمپنی سے حصولِ منافع کے لیے ممبرسازی کرنا ضروری ہے جس کو اگر شرکت کا معاملہ کہا جائے تو یہ شرکت کی تینوں قسموں : شرکتِ عنان، شرکتِ مفاوضہ یا مضاربت کسی میں بھی داخل نہیں ہے۔

۵) اور اگر اس کو اجارہ کہا جائے تو اس کی شرائط کی صحت میں سے اجرت اور منفعت کا معلوم ہونا ہے، اور مذکورہ طریقہٴ کار  میں کوئی منفعت یعنی محنت اور عمل کی مقدار متعین نہیں ہوتی ہے کہ مثلاً آپ کو اتنے دن تک ممبر سازی کے لیے محنت کرنی ہے، وشرطها (أي الإجارة) کون الأجرة والمنفعة معلومتین․․․ ویعلم النفع ببیان المدّة کالسّکنی والزراعة مدّة کذا أيّ مدّة کانت وإن طالت (در مختار: ۹/۷، زکریا دیوبند)

۶) اور اس سے ملنے والی منفعت کو دلّالی کی اجرت بھی نہیں کہہ سکتے ہیں؛ اس لیے کہ جن دو ممبروں کو وہ خود خریداری کرائے گا، وہاں اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؛ لیکن جو منفعت اس کو ممبروں کے ممبروں کی خریداری پر ملے گی اس کو کیونکر دلّالی کی اجرت کہا جاسکتا ہے؟

۷) اس میں منفعت ممبرسازی پر موقوف ہوتی ہے اور ممبرسازی ایک مبہم اور نامعلوم امر ہے؛ کیونکہ اس کمپنی کے شریک کے لیے یہ یقینی بات نہیں ہے کہ اگر وہ کوشش و محنت کرے تو وہ ممبر بنا ہی لے؛ بلکہ اکثر ممبران ممبرسازی میں ناکام اور اس سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ اور کسی مبہم اور نامعلوم چیز پر نفع کو معلق کرنا ہی جوا اور قمار ہے جو نص قطعی سے حرام ہے۔ یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَo (المائدة:۹۰)

۸) اور پھر جو کمیشن اعلیٰ ممبر کو اس کے ممبروں کے ممبروں (لا الی النهایہ) کی جمع کردہ رقم میں سے دیا جاتا ہے، وہ اس کو بغیر محنت و مشقت کے ملتا ہے بلکہ اگر اس کو معلوم نہ ہو تب بھی ملتا ہے جو بالکل ناجائز ہے ۔

۹) ممبری فیس ناجائز ہے۔

١٠) ہرسال تجدید شرکت کی فیس لینا ناجائز ہے۔

۱۱) ممبرسازی نہ کرنے کی صورت میں سامان سے زائد جمع شدہ رقم کو ضبط کرلینا ناجائز ہے۔

۱۲) مذکورہ کمپنی سے حصولِ منافع کے لیے ہر ماہ کمپنی سے سو روپئے (یا متعینہ رقم) کے سامان کو خریدنے کی شرط لگانا بھی ناجائز ہے۔ (رقم الفتوی : 161755)

اس طرح کی کمپنی سے جڑے افراد یہ دھوکہ بھی دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں مسلم حکومت نے حلال کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کی کمپنیوں کے پروڈکٹس کا حلال ہونا الگ بات ہے اور اس پروڈکٹس کے فروخت کرنے کا طریقہ کار کا ناجائز ہونا الگ بات ہے۔ اور اس طرح کی کمپنیوں میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان کے پروڈکٹ تو حلال اور جائز ہوتے ہیں، لیکن ان کے فروخت کرنے کا طریقہ کار ملٹی لیول مارکیٹنگ کے تحت ہوتا ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے۔

ان کمپنیوں سے جڑے ہوئے افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں بہت سے مفتیان، علماء اور حفاظ جڑے ہوئے ہیں، لیکن باوجود کوشش کے اب تک کسی مستند مفتی سے ہمارا رابطہ نہیں ہوسکا، اور رہ گئی علماء اور حفاظ کی بات تو ظاہر سی بات ہے انہیں اس کی باریکی کا علم ہی نہیں ہوگا یا ہوسکتا ہے کہ وہ خدانخواستہ مالی مفاد کی خاطر جان بوجھ کر اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال اتنی بات تو طے ہے کہ کسی عالم کے اس طرح کی کمپنیوں سے جڑے ہونے سے یہ طریقہ جائز نہیں ہوجائے گا، کیونکہ دنیائے اسلام کے مرکزی اور مؤقر ادارے مثلاً دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مدرسہ شاہی مرادآباد، دارالعلوم کراچی، جامعۃ الرشید کراچی، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ متعدد چھوٹے بڑے اداروں نے اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا ہے، اسی طرح اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا) جس میں سینکڑوں مفتیان کی موجودگی میں یہ تجویز پاس کی گئی تھی کہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کی مروجہ شکلیں مختلف مفاسد کو شامل ہیں، اس میں دھوکہ، غرر، بیع کو ایک غیر متعلق چیز کے ساتھ مشروط کرنا، ایک معاملہ کو دو معاملوں سے مرکب بنا دینا اور شبہ قمار وغیرہ خلاف شرع باتیں پائی جاتی ہیں، اور خریداروں کا اصل مقصد سامان خرید کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ غیر معمولی کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔ (اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے)

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات پڑھنے کے بعد ایک عام مسلمان بھی اس طرح کی کمپنیوں کی شرعی حیثیت سمجھ کر ان سے اپنے آپ کو دور رکھ سکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعتِ مطہرہ کے اصولوں کے مطابق روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

5 تبصرے: