منگل، 21 فروری، 2023

امتحانات میں نقل نویسی کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! دسویں بارہویں کے امتحانات ہونے والے ہیں، جس میں بعض طلباء چیٹنگ کرتے ہیں، وہ اس طرح سے کہ پہلے ہی سے امکانی سوالات کی پرچیاں بناکر لے جاتے ہیں اور وہاں موجود بعض نگراں بھی ان طلباء کو نقل کرنے میں مدد کرتے ہیں، تو ان کا یہ عمل شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شہزاد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امتحانات کا مقصد نصاب سے مطلوب، طلباء کی استعداد وصلاحیت کو جانچنا اور پرکھنا ہوتا ہے، اب اگر طلباء اس میں چیٹنگ اور نقل کرنے لگیں تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی طالب علم کا بحالت ِامتحان، کسی کا جوابی پرچہ دیکھ کر نقل کرنا یا کروانا، اپنے ساتھ جوابی تحریر لے جانا، یا قبل از وقت سوالیہ پرچوں کا حاصل کرلینا، خلافِ قانون ہونے کے ساتھ خلافِ شریعت بھی ہے، ایسا کرنا خیانت اور دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے، اگر نقل نویسی نگراں کی اجازت اور اس کی مدد سے ہو تو نگراں اور طالب علم دونوں خائن اور گناہ گار ہوں گے، اور اگر نگراں کی اجازت کے بغیر ہے تو صرف طالب علم ہی خائن ہوں گے اور خیانت کو حدیث شریف میں منافقوں کی علامت کہا گیا ہے، لہٰذا نقل نویسی سے بچنا بہت ضروری ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدۃ، آیت :۲)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠١)

عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهِ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ لَهُ بِهِ كَاذِبٌ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٩٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں