پیر، 27 فروری، 2023

مہر میں خود کو حافظہ بنوانا مقرر کرنا

سوال :

مفتی صاحب! کیا کوئی لڑکی حق مہر میں رقم کی جگہ یہ کہے کہ مجھے میرا شوہر حافظ قرآن بنائے میرے لئے حق مہر یہی ہے۔ مفتی صاحب ایسا کہنا کیسا ہے؟ اور پھر شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟ حالانکہ لڑکی کا آخری سال ہے عالمہ کے کورس کا، اور لڑکا حافظ ہے۔ آپ رہبری فرمائیں۔
(المستفتی عطاء الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک مہر کا مال متقوم یعنی مال کے قبیل سے ہونا ضروری ہے، لہٰذا اگرمہر میں کوئی ایسی چیز متعین کی جو مال کے قبیل سے نہ ہو، مثلاً کسی شخص نے نعوذ باللہ شراب یا خنزیر کو مہر میں مقرر کیا، جو مسلمان کے حق میں مال نہیں ہے تو اِس تعیین کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ حسبِ ضابطہ مہرِ مثل لازم ہوگا۔

اسی طرح مہر میں قرآن مجید کی آیات و سورۃ حفظ یا ناظرہ سنانے یا خود کو حافظہ بنوانا مقرر کرنا جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو یہ درست نہیں، اس لئے کہ یہ مال متقوم نہیں ہے۔ لہٰذا مہر میں یہ بات مقرر نہیں کرنا چاہیے بلکہ حفظ قرآن والی بات کو صرف درخواست کی حد تک رکھنا چاہیے کہ لڑکی کی ایک نیک خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔

تاہم اگر کسی نے ایسا کرلیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اور بیوی کو مہر مثل ملے گا، نکاح کے صحیح ہونے کے لیے شوہر کا مذکورہ شرط کا پورا کرنا ضروری نہیں، اور نہ اس کی وجہ سے اس کے نکاح پر کوئی اثر ہوگا، البتہ یہ بات وعدہ کی قبیل سے ہوجائے گی اور حفظ قرآن بھی بڑی فضیلت والا عمل ہے، لہٰذا شوہر کو اپنی بیوی کو اتنی سہولت دینا چاہیے کہ وہ حفظ قرآن کے لیے کچھ وقت نکال سکے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ مہر مثل یہ وہ مہر ہے جو لڑکی کے خاندان کی دیگر عورتوں مثلاً بہنوں، پھوپھیوں اور چچازاد بہنوں کے مہر کے برابر مقرر کیا جاتا ہے۔

وَصَرَّحَ الْحَنَفِيَّةُ بِأَنَّ الْمَهْرَ مَا يَكُونُ مَالاً مُتَقَوِّمًا عِنْدَ النَّاسِ فَإِذَا سَمَّيَا مَا هُوَ مَالٌ يَصِحُّ التَّسْمِيَةُ وَمَا لاَ فَلاَ۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ / تحت لفظ : مہر، ۳۹/٣٠٣)

وَإِنْ تَزَوَّجَهَا وَلَمْ يُسَمِّ لَهَا مَهْرًا أَوْ تَزَوَّجَهَا عَلَى أَنْ لَا مَهْرَ لَهَا فَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا إنْ دَخَلَ بِهَا أَوْ مَاتَ عَنْهَا۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۳۰۴/۱)

اما مہر المثل فقد حد رد الحنفیۃ بانہ مہر امرأۃ تماثل الزوجۃ وقت العقد من جہۃ ابیھا لا امھا ان لم تکن من قوم الیھا کاختھا وعمّتھا وبنت عمّھا فی بلدھا وعصرھا۔ (الفقہ الاسلامی وادلّتہٗ: ۷؍۲۶۶، رابعًا انواع المہر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں