جمعہ، 10 فروری، 2023

چھ کلمات کی حقیقت؟

سوال :

مفتی صاحب! مکاتب میں جو پانچ یا چھ کلمات پڑھائے اور یاد کرائے جاتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا حدیث میں یہ کلمات ان کے نمبرات کے ساتھ ملتے ہیں؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اشفاق، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اصل کلمہ دو ہی ہے، کلمہ توحید "لا الٰہ إلا اللہ" اور کلمہ رسالت "محمد رسول اللہ" یہ دونوں قرآن مجید سے ثابت ہیں، اور اس کے بعد کے بقیہ تین کلمات یعنی کلمہ شہادت، کلمہ تمجید اور کلمہ توحید بعینہ احادیث میں ملتے ہیں۔ پانچواں اورچھٹا کلمہ بعینہ احادیث میں موجود تو نہیں ہے، البتہ یہ احتمال ہے ان دونو‌ں کے الفاظ کو مختلف ادعیہ سے لیا گیا ہو، ان کلمات کے نام اور نمبرات اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے متعین طور پر نازل نہیں ہوئے ہیں یہ لوگوں نے یاد کرنے کرانے کی سہولت کی وجہ سے بنایا ہے۔ لہٰذا اس کا یاد کرنا اور پڑھنا درست ہے۔

ان کلمات میں بعض میں کمی بیشی کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں :
اسلام کی بنیاد دراصل ان عقائد پر ہے جو ایمان مفصل میں بیان کئے گئے ہیں، لہٰذا ان عقائد پر ایمان رکھنا تو مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، اسی طرح کلمۂ توحید یا کلمۂ شہادت چونکہ اپنے عقائد کا اجمالی اعلان ہے اس لئے ہر مسلمان کو یاد ہونا چاہئے، باقی جو کلمات نماز وغیرہ کی کتابوں میں لکھے ہیں انہیں بچوں کی تعلیم کی آسانی کے لئے لکھ دیا گیا ہے ورنہ درحقیقت ان کا وہ مقام نہیں جو کلمۂ توحید، کلمۂ شہادت یا ایمان مفصل کا ہے۔ اگر یہ کلمات کسی کو یاد نہ ہوں تو اس سے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ البتہ چونکہ ان کلمات کا پڑھنا بہت موجب اجر و ثواب ہے اور مسلمانوں کو ان کا ورد رکھنا چاہئے اس لئے بچوں کو یہ تمام کلمات سکھا دینے چاہییں، اور کلمہ استغفار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احادیث میں استغفار کے مختلف صیغے وارد ہوئے ہیں ان میں سے جو صیغہ بھی پڑھ لیا جائے مقصود حاصل ہے، کیونکہ معنی کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے درود شریف کے مختلف صیغے احادیث سے ثابت ہیں۔ (فتاوی عثمانی : ١/٨)

مفتی سلمان منصور پوری لکھتے ہیں :
بچوں کو بنیادی عقائد یاد کرانے کے لئے چھ کلمات کو منتخب کیا گیا ہے، اِن کلمات کو پڑھنا اور خود یاد رکھنا نیز بچوں کو یاد کرانا نہ صرف جائز، بلکہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔ ذیل میں ہر ایک کلمہ کے ماٰخذ درج کئے جارہے ہیں :

اول کلمۂ طیب : (کسی آیت یا حدیث میں الگ سے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ مکمل کلمہ یکجا دستیاب نہیں ہوا؛ البتہ قرآنِ کریم کی ایک آیت میں اور متعدد احادیث میں ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا کلمہ موجود ہے، اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ قرآنِ کریم میں سورۂ فتح میں مذکور ہے، نیز احادیث میں کلمہ شہادت کے ضمن میں بھی یہ دونوں کلمات یکجا ذکر کئے گئے ہیں)

قال اللّٰہ تعالیٰ : {فَاعْلَمْ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ} [محمد: ۱۹]
قال اللّٰہ تعالیٰ: {مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّآئُ عَلٰی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} [الفتح: ۲۹]

عن جابر رضي اللّٰہ عنہ یقول سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول : أفضل الذکر لا إلٰہ إلا اللّٰہ۔ (رواہ الترمذي، أبواب الدعوات/ باب ما جاء أن دعوۃ المسلم مستجابۃ ۲؍۱۷۵، رقم ۳۳۸۳)

عن أبی قتادۃ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من شہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمداً رسول اللّٰہ فذلّ بہا لسانہ واطمأن بہا قلبہ لم تطعمہ النار۔ (رواہ البیہقي في شعب الإیمان ۱؍۴۱، الأحادیث المنتخبۃ في الصفات الست للدعوۃ إلی اللّٰہ تعالیٰ للشیخ محمد یوسف الکاندھلوی ۱۳)

دوم کلمۂ شہادت :
في حدیث ضماد : اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ الخ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ ۱؍۲۸۵)

سوم کلمۂ تمجید :
عن عبادۃ بن صامت رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من تقار من اللیل فقال: سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ وأن لا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ۔ (رواہ الترمذي أبواب الدعوات؍ باب الدعاء إذا تنبہ من اللیل ۲؍۱۷۸)

چہارم کلمۂ توحید :
عن أبی صالح السمان أن أبا العیاش کان یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال حین یصبح:لا إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت وہو حي لایموت بیدہ الخیر وہو علی کل شيء قدیر …الخ۔ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السني باب ما یقول: إذا أصبح و أمسی: ۵۲، رقم ۶۴ دار الزمان رواہ الترمذي، أبواب الدعوات؍ باب ما یقول إذا دخل السوق ۲/۱۸۱)

پنجم کلمہ اِسْتِغفار :
استغفار کے بعینہٖ مذکورہ الفاظ کسی روایت میں دست یاب نہیں ہوئے؛ البتہ درج ذیل روایت سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے، اور بہرحال اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عن أبي موسیٰ الأشعري رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یدعو بہذا الدعاء:… اللّٰہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت علی کل شيء قدیر۔ (صحیح البخاري رقم: ۶۳۹۸، الأذکار من کلام سید الأبرار ۲؍۴۷۱ رقم: ۱۰۱۴)

ششم کلمۂ رَدِّ کُفر :
بظاہر اس کلمے کے مذکورہ الفاظ اپنی طرف سے بناکر لکھے گئے ہیں، ان میں سے بعض الفاظ کی تائید درج ذیل روایت سے ہوتی ہے، اور مضمون سب درست ہے۔

عن أبي علی رجل بن بنی کاہل قال : خطبنا أبو موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ فقال: … خطبنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم فقال: … وفیہ: قولوا: اللّٰہم إنا نعوذ بک من أن نشرک بک شیئا نعلمہ ونستغفرک لما لا نعلمہ۔ (مسند أحمد بن حنبل ۴؍۴۰۳، رقم: ۱۹۴۹۶، الترغیب والترہیب مکمل : ۳۶، رقم ۵۷/کتاب النوازل : ٢/١٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رجب المرجب 1444

3 تبصرے: