بدھ، 30 نومبر، 2022

تفویض طلاق کا ایک مسئلہ

سوال :

مفتی صاحب ایک شخص کا ایک سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری ابھی جلد شادی ہوئی ہے اور میں بہت غصّے والا ہوں اور جلد باز ہوں اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ غصے میں یا شیطان کے بہکاوے میں میرے منہ سے طلاق نہ نکل جائے، اُس کا کہنا ہے کہ میں نے ایسا ایک واقعہ سنا ہے کہ ایک شخص نے اپنی طلاق کا اختیار اپنی بیوی کو دے دیا تھا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں اپنی بیوی سے یہ شرط لگا لوں کہ جب تک میں تجھ کو باقاعدہ اچھی طرح سے لکھ کر تحریر میں طلاق نا دے دوں تجھے میری طرف سے طلاق نہیں ہوگی یہ میں شرط رکھتا ہوں اور اگر میں ہزار بار بھی طلاق کہوں تو تجھے طلاق نہیں ہوگی۔ اب یہ بات اور شرط کیا قائم کی جاسکتی ہے؟ نیز ایسا ہی کوئی اور شرعی حل ہے کیا؟ اور اگر ایسا ہی کوئی غیر شادی شدہ اپنی شادی سے پہلے کرنا چاہے تو کیا کرے؟ ازراہ کرم مدلل اور تشفی بخش جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : شارق انور، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطہرہ میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو ہوتا ہے، لیکن اگر مرد چاہے تو یہ اختیار بیوی کو یا کسی دوسرے شخص کو بھی دے سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی یا کسی کو بھی کہہ دے کہ تجھے اختیار ہے تو جب چاہے اپنے اوپر/ یا میری بیوی پر طلاق نافذ کردے، لہٰذا اسے جتنی طلاق کا اختیار دیا جائے گا اور وہ اسے استعمال کرلے گا تو اتنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسے فقہ کی اصطلاح میں ''تفویضِ طلاق'' کہا جاتا ہے۔

البتہ یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ تفویض طلاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب شوہر کو طلاق کا حق نہیں رہا۔ بلکہ اب بھی مرد کو طلاق کا حق اور اختیار حاصل ہے۔ یعنی تفویضِ طلاق کے بعد شوہر از خود پہلے ہی طلاق دیدے تو اس کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ لیکن بیوی یا کسی کو بھی طلاق کا اختیار دے دینے کے بعد اب شوہر کو اپنے قول سے رجوع کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر یہ شخص اپنی بیوی کو غصہ میں اور شیطان کے بہکاوے میں جب بھی طلاق دے گا اور جتنی طلاق دے گا اتنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ ایسی کوئی شرط، صورت یا حل نہیں ہے کہ آدمی زبان سے طلاق دے دے اور اس کی طلاق واقع نہ ہو۔ کیونکہ غصہ میں، مذاق میں، سنجیدگی میں ہر صورت میں اگر کوئی زبان سے اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز شادی سے پہلے بھی اس طرح کی کوئی صورت اختیار نہیں کی جاسکتی کہ آدمی شادی کے بعد زبان سے طلاق دے اور طلاق واقع نہ ہو۔ لہٰذا اس شخص کو بلاوجہ کے وسوسہ سے بچنا چاہیے اور غصہ کرنا ویسے بھی گناہ کی بات ہے، وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے، اگر خدانخواستہ بیوی سے کبھی کوئی ان بن ہوجائے تو گھر سے نکل جائے تاکہ اپنے مزاج کی سختی سے اس سے کوئی گناہ صادر نہ ہو۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِى زَوَّجَنِى أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا. قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : الْمِنْبَرَ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجَ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٢٠٧٢)

حَدَّثَنا أبُو بَكْرٍ قالَ: نا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أيُّوبَ قالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمانَ بْنِ يَسارٍ قالَ : الطَّلاقُ بِالرِّجالِ والعِدَّةُ بِالنِّساءِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ١٨٢٤٩)

أَيْ تَفْوِيضُهُ لِلزَّوْجَةِ أَوْ غَيْرِهَا صَرِيحًا كَانَ التَّفْوِيضُ أَوْ كِنَايَةً، يُقَالُ : فَوَّضَ لَهُ الْأَمْرَ: أَيْ رَدَّهُ إلَيْهِ حَمَوِيٌّ، فَالْكِنَايَةُ قَوْلُهُ اخْتَارِي أَوْ أَمْرُكِ بِيَدِكِ، وَالصَّرِيحُ قَوْلُهُ طَلِّقِي نَفْسَك... الْمُرَادُ بِالتَّفْوِيضِ تَمْلِيكُ الطَّلَاقِ۔ (شامی : ٣/٣١٥)

(وَلَا يَمْلِكُ) الزَّوْجُ (الرُّجُوعَ عَنْهُ) أَيْ عَنْ التَّفْوِيضِ بِأَنْوَاعِهِ الثَّلَاثَةِ لِمَا فِيهِ مِنْ مَعْنَى التَّعْلِيقِ۔ (شامی : ٣/٣٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1444

پیر، 28 نومبر، 2022

کیا غیرمسلموں کے ساتھ بھی کراماً کاتبین ہوتے ہیں؟

سوال :

محترم مفتی صاحب!
کراما کاتبین غیر مسلموں کے کاندھوں پر بھی ہوتے ہیں کیا؟ برائے مہربانی بتائیے۔
(المستفتی : انیس احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مفسرین کے ہاں راجح قول کے مطابق کافر کے کندھے پر بھی دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں اور اس کے اعمال کو لکھتے ہیں۔

کتاب النوازل میں ہے :
راجح قول کے مطابق حساب وکتاب لکھنے والے فرشتے مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ کفار کے ساتھ بھی فرشتے مقرر ہیں، نیز جنات کے لئے بھی کراماً کاتبین مقرر کئے گئے ہیں۔ (١٧/١٤٧)

البتہ کافر کے ساتھ رہنے والے فرشتوں کا کام یہ ہے کہ بائیں جانب والا اس کی برائیاں لکھتا ہے اور دائیں طرف والا ان برائیوں کا گواہ بنتا ہے۔

اختلفوا في الکفار ہل علیہم حفظۃ؟ فقیل: لا، لأن أمرہم ظاہر وعملہم واحد، قال تعالیٰ : {یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمَاہُمْ} وقیل : علیہم حفظۃ، وہو ظاہر قولہ تعالیٰ {بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ} وقولہ تعالیٰ: {وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ} (جمل شرح جلالین، الانفطار ۴؍۵، فتح البیان ۹؍۲۰۹)

إن قولہ تعالیٰ : {وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ} وإن کان خطاب مشافہۃ، إلا أن الأمۃ مجمعۃ علی أن ہٰذا الحکم عام في حق کل المکلفین۔ (تفسیر کبیر للرازي الانفطار ۱۶؍۸۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الاول 1444

اتوار، 27 نومبر، 2022

تین بہن بھائیوں کا ایک ساتھ نکاح کرنا

سوال :

ایک مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ کیا گھر میں تین شادی success (کامیاب) نہیں ہوتی؟ مثلاً ایک بھائی دو بہن یا دو بھائی ایک بہن کی۔ اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : سعید الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک گھر کے متعدد لوگوں (خواہ وہ تین ہوں یا اس سے زائد) کا نکاح ایک ساتھ کروانا شرعاً جائز اور درست ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اتفاقاً کبھی اس طرح کے معاملات میں کوئی رشتہ پائیدار نہ ہوسکا اور معاذ اللہ ختم ہوگیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک گھر کے ایک ساتھ تین لوگوں کا نکاح ایک ساتھ کیا گیا۔ یہ بالکل باطل عقیدہ ہے جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وکان القفّال یقول : فإن الأمور کلہا بید اللّٰہ ، یقضي فیہا ما یشاء ، ویحکم ما یرید ، لا مؤخر لما قدّم ولا مقدّم لما أخّر۔ (۱۹/۲۰۳ ، خطبۃ ، خامسًا، الخُطبۃ قبل الخِطبۃ، الموسوعۃ الفھیۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1444

ہفتہ، 26 نومبر، 2022

کیا انسان اسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے؟

سوال :

مفتی صاحب! کیا یہ روایت درست ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے جہاں سے مٹّی لی گئی ہے وہ مرنے کے بعد اسی جگہ دفن ہوتا ہے۔ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ آدمی اسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی سے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ اس میں سے بہت سی روایات غیرمعتبر ہیں، البتہ چند ایک روایات معتبر بھی ہیں جن میں سے ایک روایت درج ذیل ہے جسے امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔

حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی  زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے (اللہ کے حکم سے) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا۔

لہٰذا یہ بات بیان کرنا درست ہے کہ آدمی اسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی سے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک شعر بھی بڑا مشہور ہے جس کا دوسرا مصرعہ تو بطور کہاوت استعمال ہونے لگا ہے۔ وہ شعر درج ذیل ہے :
آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

عَنْ أبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قالَ: مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِجِنازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقالَ: «قَبْرُ مَن هَذا؟» فَقالُوا: فُلانٌ الحَبَشِيُّ يا رَسُولَ اللَّهِ، فَقالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : لا إلَهَ إلّا اللَّهُ لا إلَهَ إلّا اللَّهُ سِيقَ مِن أرْضِهِ وسَمائِهِ إلى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنها خُلِقَ۔ (مستدرک حاکم، رقم : ١٣٥٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1444

جمعرات، 24 نومبر، 2022

بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا اور اسے طلاق بھی نہ دینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے زید کی بیوی زید اور اس کے گھر والوں کی حرکتوں سے تنگ آکر اپنے میکہ آگئی تھی۔ لیکن چند دن کے بعد ہی زید کے سسرال والے کوشش کررہے ہیں کہ زید بیٹھ کر بات کرے اگر معاملہ بنتا ہوتو ٹھیک ورنہ وہ اچھے انداز میں اس رشتہ کو ختم کردے۔ لیکن زید کسی صورت میں بیٹھنے اور بات کرنے کے لیے راضی نہیں ہے، وہ صرف ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، اور معاملہ کو طول دے رہا ہے، یہاں تک کہ کئی مہینے گذر گئے ہیں۔ تو کیا زید کا یہ عمل شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد زید، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جب زید کی بیوی خود اور اس کے گھر والے اس بات پر تیار ہیں کہ زید بیٹھ کر بات کرلے اور بیوی کی تکلیف سن لے، اگر ان مسائل کا کوئی حل نکلتا ہو اور معاملہ بن جاتا ہوتو بہت اچھی بات ہے، اور اگر خدانخواستہ نباہ کی کوئی شکل نہ بنے تو پھر احسن طریقے پر رشتہ ختم کردے۔ لہٰذا ایسی معقول اور مناسب پیشکش کے بعد زید پر ضروری ہے کہ وہ بیٹھ کر بات کرلے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے معاملہ طول دینا اور اپنی بیوی کو معلق رکھنا یعنی اس کے حقوق ادا نہ کرنا اور اسے طلاق بھی نہ دینا بڑا ظلم ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے۔ لہٰذا زید کو فوری طور پر بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرکے اپنی بیوی کو لے جانا چاہیے یا پھر اس رشتہ کو شرعی اصولوں کے مطابق ختم کردینا چاہیے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث طویل، وطرفہ ہذا : ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ (صحیح مسلم، رقم : ۱۲۱۸)

وکون الرجال قوامین علی النساء متکفلین معاشہن وکونہن خادمات حاضنات مطیعات سنۃ لازمۃ وأمراً مسلمًا عند الکافۃ، وفطرۃ فطر اللّٰہ الناس علیہا لا یختلف في ذٰلک عربہم ولا عجمہم۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۱/۱۳۳)

تجب النفقۃ للزوجۃ علی زوجہا، والکسوۃ بقدر حالہما۔ (تبیین الحقائق، باب النفقۃ، ۳/۳۰۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1444

بدھ، 23 نومبر، 2022

کیا خودکشی کرنے والوں کی روح بھٹکتی رہتی ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک بات بچپن میں دوستوں سے سنتے تھے کہ جو شخص خودکشی کرلیتا ہے اس کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ اس کیا حقیقت ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ہارون، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن و حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح مقام عِلِّيِّينْ میں اور بُرے لوگوں کی روحیں مقام سِجِّیْنْ میں ہوتی ہیں، یعنی علیین نیکوں اور سجین بروں کا ٹھکانہ ہے۔ خواہ ان کی موت طبعی طور پر ہوئی ہو یا انہوں نے خودکشی کی ہو۔

علیین اور سجین یہ دونوں مقامات کس جگہ ہیں؟ اس کے متعلق حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سجین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں عرش کے نیچے ہے۔ (مسند احمد)

معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والوں کی روح دنیا میں بھٹکتی رہتی ہے بالکل باطل عقیدہ ہے جو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے خلاف ہے۔ یہ ہندوانہ اور جاہلانہ عقیدہ ہے جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ۔ (المطففین : ۷) كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ۔ (المطففین : ۱۸) قلنا وجہ التوفیق : أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ (مظہری : ۱۰/ ۲۲۵)

وقال کعب : أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس۔ (کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ربیع الآخر 1444

منگل، 22 نومبر، 2022

ٹرین میں نماز کے دوران سمت تبدیل ہوجائے تو؟

سوال :

کشتی میں نماز کے بارے میں یہ مسئلہ پڑھا ہے کہ جیسے جیسے کشتی گھومے مصلی بھی قبلہ کی طرف گھومے تو کیا ٹرین میں بھی یہی مسئلہ ہے؟ دراصل ہوتا یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے ہم قبلہ نما کے ذریعہ صحیح سمت رخ کرلیتے ہیں مگر درمیان نماز میں ٹرین کس طرف گھوم رہی ہے اس کا پتہ نہیں چلتا نماز کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ٹرین گھوم گئی تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ٹرین میں تحری یعنی غالب گمان پر عمل کرکے نماز ادا کی جائے گی، اس کے بعد اگر نماز میں اس کا علم ہوگیا کہ ٹرین کا رخ تبدیل ہوا ہے تو نماز میں ہی اپنا رخ تبدیل کرلے اور اگر سمت کی تبدیلی کا علم نہ ہوسکے تو نماز اسی طرح درست ہوجائے گی اگرچہ نماز کے بعد علم ہوجائے کہ ٹرین کا رُخ تبدیل ہوگیا تھا۔

حَتَّى لَوْ دَارَتْ السَّفِينَةُ وَهُوَ يُصَلِّي تَوَجَّهَ إلَى الْقِبْلَةِ حَيْثُ دَارَتْ. كَذَا فِي شَرْحِ مُنْيَةِ الْمُصَلِّي لِابْنِ أَمِيرِ الْحَاجِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٦٤)

وإن علم بہٖ فی صلاتہ الخ استدار وبنی۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار زکریا، ۲؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الآخر 1444

ہفتہ، 19 نومبر، 2022

نماز میں ٹوپی گرجائے تو کیا کرے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ نماز میں اگر ٹوپی گر جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ نماز اسی طرح مکمل کرنا چاہیے یا اسے پہن لینا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری شکیب، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کی حالت میں اگر ٹوپی گِر جائے تو قیام اور رکوع کی حالت میں اسے اٹھاکر پہننا تو درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس صورت میں عملِ کثیر ہوجائے گا، یعنی دیکھنے والے کو ایسا لگے گا کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے، اور عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا رکوع اور قیام کی حالت میں ٹوپی اٹھا کر نہیں پہننا چاہیے۔ البتہ سجدہ اور قعدہ کی حالت میں ایک ہاتھ سے عملِ قلیل کے ذریعہ ٹوپی اٹھا کر پہننا جائز ہی نہیں، بلکہ افضل ہے۔ اور اگر ٹوپی نہ پہنے تب بھی نماز ہوجائے گی۔

أَنَّ مَا يُعْمَلُ عَادَةً بِالْيَدَيْنِ كَثِيرٌ وَإِنْ عُمِلَ بِوَاحِدَةٍ كَالتَّعْمِيمِ وَشَدِّ السَّرَاوِيلِ وَمَا عُمِلَ بِوَاحِدَةٍ قَلِيلٌ وَإِنْ عُمِلَ بِهِمَا كَحَلِّ السَّرَاوِيلِ وَلُبْسِ الْقَلَنْسُوَةِ وَنَزْعِهَا إلَّا إذَا تَكَرَّرَ ثَلَاثًا مُتَوَالِيَةً۔ (شامی : ١/٦٢٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1444

جمعرات، 17 نومبر، 2022

الیکٹرانک جائے نماز کی اقتداء میں نماز پڑھنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک الیکٹرانک جائے نماز ہے جس میں تکبیر انتقالیہ اور دعائیں وغیرہ پڑھی جاتی ہیں، کیا اس کی اقتداء میں نماز درست ہوگی؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : یہ الیکٹرانک جائے نماز غالباً نو مسلموں بالخصوص یورپی ممالک کے نو مسلموں کو نماز سکھانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ لہٰذا فرضی نماز کی حد تک اس سے استفادہ کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ نماز سیکھنے کے لیے بھی اس طرح کی چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو طریقہ آج تک رائج ہے یعنی جس طرح براہ راست ایک آدمی دوسرے کو نماز سکھاتا ہے اسی طرح نماز سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رہے کہ یہی زیادہ مفید اور مؤثر ہے۔ البتہ اگر کوئی اس مشین والے مصلے کے مطابق نماز ادا کرے گا خواہ وہ فرض ہو یا نفل اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ یہاں خالص مشین کی اقتداء ہورہی ہے، کسی مسلمان عاقل، بالغ شخص کی اقتداء نہیں ہورہی ہے۔

والصغریٰ ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ: نیۃ المؤتم الاقتداء، واتحاد مکانہما، وصلا تہما، وصحۃ صلاۃ إمامہ، وعدم محاذاۃ إمرأۃ، عدم تقدمہ علیہ بعقبہ، وعلمہ بانتقالاتہ، وبحالہ من إقامۃ وسفر، ومشارکتہ فی الأرکان، وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا وفی الشرائط۔ (در مختار مع الشامی بیروت ۲؍۲۴۲- ۲۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1444

پیر، 14 نومبر، 2022

کیا نام رکھنے کا کوئی مخصوص طریقہ ہوتا ہے؟

سوال :

مفتی صاحب اسلام میں بچے کا نام رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ ہمارے یہاں بچے کو جھولے میں لٹا کر کچھ مخصوص اشعار پڑھے جاتے ہے اور بچے کے کان میں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا نام ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سہیل، ضلع بلڈانہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن نام رکھنے کا حکم وارد ہوا ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، بال مونڈوایا  جائے اور اس کا نام رکھ دیا جائے۔ لیکن نام رکھنے کا کوئی مخصوص طریقہ حدیث شریف میں مذکور نہیں ہے۔ لہٰذا کسی مخصوص طریقہ کو سنت نہ سمجھا جائے، سوال نامہ میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ بے بنیاد اور بے اصل ہے۔ اور گمان ہوتا ہے کہ اسے مسنون یا پھر شرعی عمل سمجھ کر انجام دیا جارہا ہے۔ لہٰذا اسے ترک کردینا چاہیے۔ ساتویں دن نام رکھنے میں صرف اتنا اہتمام کافی ہوگا کہ گھر کے بڑے بزرگ، گھر میں یہ اعلان کر دیں کہ نومولود کا نام فلاں فلاں ہوگا، مزید کچھ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔

عَنْ سَمُرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُسَمَّى، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٥٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الآخر 1444

اتوار، 13 نومبر، 2022

مدارس کے طلبہ سے شادی وغیرہ میں خدمت لینا

سوال :

ایک سوال ایسا ہے کہ چند شادیوں میں مدارس کے بچوں کو بلواکر مہمانوں کی خدمت کا کام لیا جا رہا ہے، پچاس سے لے کر سو بچے تک بلائے گئے، یکے بعد دیگرے کئی شادیوں میں ایسا کیا گیا مفتی صاحب، مدارس کے بچوں سے اسطرح شادیوں میں کام لینا کہاں تک صحیح ہے؟ اگرچہ کہ انہیں معاوضہ دیا جائے۔ براہ کرم جواب عنایت فرما کر ہمیں مستفیض فرمائیں۔ شکریہ
(المستفتی : حافظ عزیز الرحمان بجرنگ واڑی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تعلیمی اوقات میں جبکہ طلبہ کا تعلیمی حرج بھی ہو ان سے مدرسہ کے علاوہ کوئی کام لینا مثلاً انہیں ولیمہ وغیرہ کی تقریبات میں مہمانوں کی خدمت کے لیے لے جانا درست نہیں ہے۔ خواہ انہیں معاوضہ دیا جائے یا نہ جائے، ہر دو صورت میں یہ عمل درست نہیں ہے۔

تعلیمی اوقات کے علاوہ بالغ طلبہ سے ان کی مرضی کے ساتھ اور نابالغ طلبہ سے ان کے سرپرستوں کی صراحتاً یا دلالۃً اجازت کے ساتھ اگر یہ کام لیا جائے تو پھر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ خواہ انہیں معاوضہ دیا جائے یا نہ دیا جائے دونوں درست ہے۔

وَفِيهِ عَنْ الْخِزَانَةِ : إذَا آجَرَ الْوَصِيُّ أَوْ الْأَبُ أَوْ الْجَدُّ أَوْ الْقَاضِي الصَّغِيرَ فِي عَمَلٍ مِنْ الْأَعْمَالِ فَالصَّحِيحُ جَوَازُهَا وَإِنْ كَانَتْ بِأَقَلَّ مِنْ أُجْرَةِ الْمِثْلِ اهـ: أَيْ لِأَنَّ لِلْوَصِيِّ وَالْأَبِ وَالْجَدِّ اسْتِعْمَالَهُ بِلَا عِوَضٍ بِطَرِيقِ التَّهْذِيبِ وَالرِّيَاضَةِ فَبِالْعِوَضِ أَوْلَى۔ (شامی : ٥/٤١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ربیع الآخر 1444

پیر، 7 نومبر، 2022

صحافت (Journalism) کی شرعی حیثیت

سوال :

محترم مفتی صاحب! صحافت کے تعلق سے شریعت میں کیا رہنمائی کی گئی ہے؟ کیونکہ بعض صحافی سیاسی معاملوں میں جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ پسند اور نا پسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صحافت ایک انتہائی باوقار اور ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔ صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ سچی اور صحیح معلومات دے۔ خبروں اور دوسرے مواد میں اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق رنگ آمیزی نہ کرے۔کسی خاص نقطۂ نظر کی تشہیر کے لیے اطلاعات کو مسخ نہ کرے۔ سنسنی خیزی کے لیے واقعات کی صحت کو مجروح نہ کرے۔قارئین و ناظرین کو گمراہ نہ کرے۔ آزادی کے ساتھ کام کرے، خوف اور لالچ کو قریب نہ بھٹکنے دے۔ وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو ملحوظ رکھے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کو چھپانے یا اس پر اصرار کے بجائے اس کا اعتراف کرے اور اس کا ازالہ کرے۔ (من شاہ جہانم : 56)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا صفات کا حامل ہوتو وہ صحافی کہلاسکتا ہے۔ اور ایسا شخص عنداللہ بھی اجرِ عظیم کا مستحق ہوگا کیونکہ وہ ایسے اعمال انجام دے رہا ہے جو اسلام میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

لیکن موجودہ دور کی صحافت بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اگر سَرسَری نگاہ بھی ڈالی جائے تو ہمیں باآسانی یہ معلوم ہوجائے گا کہ صحافت کا ایک بڑا طبقہ اپنے مقاصد سے کوسوں دور جاچکا ہے، ان کا مقصد صرف بر سرِاقتدار یا پھر اپنے پسندیدہ لیڈر کی خوشامد اور چاپلوسی کرکے اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنا بن چکا ہے جو بلاشبہ شرعاً بھی ناجائز اور حرام کام ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے میں انہیں جھوٹ، دھوکہ، بہتان اور تہمت وغیرہ جیسے سنگین اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسا شخص جرنلزم کی دنیاوی ڈگری حاصل کرکے اپنے آپ کو صحافی تو لکھ اورسمجھ سکتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ قلم فروش اور کسی سیاسی پارٹی کا ورکر ہوتا ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : إياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا۔ (بخاری ومسلم)

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ وَإِسْمَاعِيلَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ربیع الآخر 1444