سوال :
مفتی صاحب ایک شخص کا ایک سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری ابھی جلد شادی ہوئی ہے اور میں بہت غصّے والا ہوں اور جلد باز ہوں اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ غصے میں یا شیطان کے بہکاوے میں میرے منہ سے طلاق نہ نکل جائے، اُس کا کہنا ہے کہ میں نے ایسا ایک واقعہ سنا ہے کہ ایک شخص نے اپنی طلاق کا اختیار اپنی بیوی کو دے دیا تھا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں اپنی بیوی سے یہ شرط لگا لوں کہ جب تک میں تجھ کو باقاعدہ اچھی طرح سے لکھ کر تحریر میں طلاق نا دے دوں تجھے میری طرف سے طلاق نہیں ہوگی یہ میں شرط رکھتا ہوں اور اگر میں ہزار بار بھی طلاق کہوں تو تجھے طلاق نہیں ہوگی۔ اب یہ بات اور شرط کیا قائم کی جاسکتی ہے؟ نیز ایسا ہی کوئی اور شرعی حل ہے کیا؟ اور اگر ایسا ہی کوئی غیر شادی شدہ اپنی شادی سے پہلے کرنا چاہے تو کیا کرے؟ ازراہ کرم مدلل اور تشفی بخش جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : شارق انور، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطہرہ میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو ہوتا ہے، لیکن اگر مرد چاہے تو یہ اختیار بیوی کو یا کسی دوسرے شخص کو بھی دے سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی یا کسی کو بھی کہہ دے کہ تجھے اختیار ہے تو جب چاہے اپنے اوپر/ یا میری بیوی پر طلاق نافذ کردے، لہٰذا اسے جتنی طلاق کا اختیار دیا جائے گا اور وہ اسے استعمال کرلے گا تو اتنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسے فقہ کی اصطلاح میں ''تفویضِ طلاق'' کہا جاتا ہے۔
البتہ یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ تفویض طلاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب شوہر کو طلاق کا حق نہیں رہا۔ بلکہ اب بھی مرد کو طلاق کا حق اور اختیار حاصل ہے۔ یعنی تفویضِ طلاق کے بعد شوہر از خود پہلے ہی طلاق دیدے تو اس کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ لیکن بیوی یا کسی کو بھی طلاق کا اختیار دے دینے کے بعد اب شوہر کو اپنے قول سے رجوع کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر یہ شخص اپنی بیوی کو غصہ میں اور شیطان کے بہکاوے میں جب بھی طلاق دے گا اور جتنی طلاق دے گا اتنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ ایسی کوئی شرط، صورت یا حل نہیں ہے کہ آدمی زبان سے طلاق دے دے اور اس کی طلاق واقع نہ ہو۔ کیونکہ غصہ میں، مذاق میں، سنجیدگی میں ہر صورت میں اگر کوئی زبان سے اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز شادی سے پہلے بھی اس طرح کی کوئی صورت اختیار نہیں کی جاسکتی کہ آدمی شادی کے بعد زبان سے طلاق دے اور طلاق واقع نہ ہو۔ لہٰذا اس شخص کو بلاوجہ کے وسوسہ سے بچنا چاہیے اور غصہ کرنا ویسے بھی گناہ کی بات ہے، وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے، اگر خدانخواستہ بیوی سے کبھی کوئی ان بن ہوجائے تو گھر سے نکل جائے تاکہ اپنے مزاج کی سختی سے اس سے کوئی گناہ صادر نہ ہو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِى زَوَّجَنِى أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا. قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : الْمِنْبَرَ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجَ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٢٠٧٢)
حَدَّثَنا أبُو بَكْرٍ قالَ: نا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أيُّوبَ قالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمانَ بْنِ يَسارٍ قالَ : الطَّلاقُ بِالرِّجالِ والعِدَّةُ بِالنِّساءِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ١٨٢٤٩)
أَيْ تَفْوِيضُهُ لِلزَّوْجَةِ أَوْ غَيْرِهَا صَرِيحًا كَانَ التَّفْوِيضُ أَوْ كِنَايَةً، يُقَالُ : فَوَّضَ لَهُ الْأَمْرَ: أَيْ رَدَّهُ إلَيْهِ حَمَوِيٌّ، فَالْكِنَايَةُ قَوْلُهُ اخْتَارِي أَوْ أَمْرُكِ بِيَدِكِ، وَالصَّرِيحُ قَوْلُهُ طَلِّقِي نَفْسَك... الْمُرَادُ بِالتَّفْوِيضِ تَمْلِيكُ الطَّلَاقِ۔ (شامی : ٣/٣١٥)
(وَلَا يَمْلِكُ) الزَّوْجُ (الرُّجُوعَ عَنْهُ) أَيْ عَنْ التَّفْوِيضِ بِأَنْوَاعِهِ الثَّلَاثَةِ لِمَا فِيهِ مِنْ مَعْنَى التَّعْلِيقِ۔ (شامی : ٣/٣٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1444