جمعرات، 24 نومبر، 2022

بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا اور اسے طلاق بھی نہ دینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے زید کی بیوی زید اور اس کے گھر والوں کی حرکتوں سے تنگ آکر اپنے میکہ آگئی تھی۔ لیکن چند دن کے بعد ہی زید کے سسرال والے کوشش کررہے ہیں کہ زید بیٹھ کر بات کرے اگر معاملہ بنتا ہوتو ٹھیک ورنہ وہ اچھے انداز میں اس رشتہ کو ختم کردے۔ لیکن زید کسی صورت میں بیٹھنے اور بات کرنے کے لیے راضی نہیں ہے، وہ صرف ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، اور معاملہ کو طول دے رہا ہے، یہاں تک کہ کئی مہینے گذر گئے ہیں۔ تو کیا زید کا یہ عمل شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد زید، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جب زید کی بیوی خود اور اس کے گھر والے اس بات پر تیار ہیں کہ زید بیٹھ کر بات کرلے اور بیوی کی تکلیف سن لے، اگر ان مسائل کا کوئی حل نکلتا ہو اور معاملہ بن جاتا ہوتو بہت اچھی بات ہے، اور اگر خدانخواستہ نباہ کی کوئی شکل نہ بنے تو پھر احسن طریقے پر رشتہ ختم کردے۔ لہٰذا ایسی معقول اور مناسب پیشکش کے بعد زید پر ضروری ہے کہ وہ بیٹھ کر بات کرلے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے معاملہ طول دینا اور اپنی بیوی کو معلق رکھنا یعنی اس کے حقوق ادا نہ کرنا اور اسے طلاق بھی نہ دینا بڑا ظلم ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے۔ لہٰذا زید کو فوری طور پر بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرکے اپنی بیوی کو لے جانا چاہیے یا پھر اس رشتہ کو شرعی اصولوں کے مطابق ختم کردینا چاہیے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث طویل، وطرفہ ہذا : ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ (صحیح مسلم، رقم : ۱۲۱۸)

وکون الرجال قوامین علی النساء متکفلین معاشہن وکونہن خادمات حاضنات مطیعات سنۃ لازمۃ وأمراً مسلمًا عند الکافۃ، وفطرۃ فطر اللّٰہ الناس علیہا لا یختلف في ذٰلک عربہم ولا عجمہم۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۱/۱۳۳)

تجب النفقۃ للزوجۃ علی زوجہا، والکسوۃ بقدر حالہما۔ (تبیین الحقائق، باب النفقۃ، ۳/۳۰۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1444

1 تبصرہ: