جمعرات، 30 اپریل، 2020

نمازِ وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم

*نمازِ وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا نماز وتر کے بعد کوئی بھی نفل نماز نہیں ہے؟ کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟ براہ کرم اس سلسلے میں مکمل مفصل مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی درج ذیل روایت کی بنیاد پر بعض حضرات وتر کے بعد نفل پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا آخِرَ  صَلَاتِکُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا۔
ترجمہ : عبداللہ بن عمر نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ۔

جب کہ نمازِ وتر کے بعد دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا متعدد احادیث سے ثابت ہے۔

1) اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت میں خَفِیْفَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر مختصر پڑھا کرتے تھے۔

2) حضرت ثوبان ؓ راوی ہیں کہ سرکار کونین ﷺ نے فرمایا (تہجد کے لئے) رات کو بیدار ہونا مشکل اور گراں ہوتا ہے اس لئے جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کے آخری حصے میں جاگنے) کا یقین نہ رکھتا ہو اور سونے سے پہلے یعنی عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے ، اگر وہ نماز تہجد کے لئے رات کو اٹھ گیا تو بہتر ہے اور اگر نہ اٹھ سکا تو پھر دو رکعتیں کافی ہوں گی (یعنی ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے کی وجہ سے اسے نماز تہجد کا ثواب مل جائے گا۔

3) حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایھاالکافرون پڑھتے تھے۔

درج بالا احادیث سے صراحتاً اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا قولاً اور فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَافَ اَنْ لاَّ ےَقُوْمَ مِنْ اٰخِرِ اللَّےْلِ فَلْےُوْتِرْ اَوَّلَہُ وَمَنْ طَمَعَ اَنْ ےَّقُوْمَ اٰخِرَہُ فَلْےُوْتِرْ اٰخِرَ اللَّيل فَاِنَّ صَلٰوۃَ اٰخِرِ اللَّےْلِ مَشْھُوْدَۃٌ وَذَالِکَ اَفْضَلُ۔(مسلم)
ترجمہ : حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا " جس آدمی کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر رات کو وتر پڑھنے کے لئے نہ اٹھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں (یعنی عشاء کے فورا بعد ) وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو آخر رات میں اٹھنے کی امید ہو تو وہ آخر رات ہی میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز مشہودہ ہے (یعنی) اس وقت رحمت کے فرشتوں اور انوارو برکات کا نزول ہوتا ہے اور یہ (یعنی آخررات میں و تر پڑھنا ) افضل ہے۔(صحیح مسلم)

مسلم شریف کی اس روایت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس شخص کو اخیر رات میں نیند سے بیدار ہونے پر یقین واعتماد ہو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ تہجد سے فارغ ہوکر اخیر میں وتر ادا کرے۔ اس کے بعد نوافل نہ پڑھے، اور اگر پڑھ لے تو مباح ہے، اس لئے کہ حدیث اجعلوا آخر صلاتکم وترًا میں امر مستحب پر محمول ہے نہ کہ وجوب پر، جیسا کہ صاحب مرقاۃ نے ذکر کیا ہے : اجعلوا أي أمر مندوب (مرقاة:۳/۱۶۴)

مسلم شریف کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جس شخص کو اخیر رات میں بیدار ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ عشاء کے فوراً بعد وتر پڑھ لے۔ اب اگر ایسا شخص اخیر شب میں بیدار ہوجائے تو وہ کیا کرے؟ بخاری شریف کی روایت "وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ " پر عمل کیا جائے تو ایسا شخص پھر تہجد (جو کہ نفل ہے) نہیں پڑھے گا کیونکہ اس نے تو وتر ادا کرلی ہے۔

نیز شعب الایمان کی ایک روایت میں ہے حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جب شب قدر آتی ہے تو اس رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے جلو میں اترے ہیں اور ہر اس بندے کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ تعالٰی کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔

اس روایت کی بنیاد پر مانعین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب رمضان المبارک میں وتر باجماعت ادا کرنے کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھی جا سکتی تو پھر یہاں حدیث شریف میں قائم سے مراد کیا لیا جائے گا؟ فرشتوں کی جماعت کس کے لیے بخشش کی دعا کرے گی؟ بلاشبہ یہاں قائم سے مراد نماز پڑھنے والے ہی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر کے بعد رات بھر نفل نمازیں پڑھی جا سکتی ہے۔

مندرجہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوگیا کہ وتر کے بعد نفل پڑھنا جائز و مباح ہے، ضروری نہیں۔ جس کا جی چاہے پڑھے اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔ جس کا جی  نہ چاہے نہ پڑھے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن سرے سے ان نفلوں کا انکار و منع کرنا غیر مناسب اور باعث تعجب ہے۔ البتہ غیر رمضان میں ان لوگوں کے لیے جنہیں اخیر شب میں اٹھنے کا یقین ہو اولیٰ اور افضل یہ ہے کہ وہ وتر کو اپنی آخری نماز بنائیں۔

1) عن أم سلمة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین رواہ الترمذي وزاد ابن ماجة خفیفتین وہو جالسٌ۔ (مشکاة ۱۱۳)

2) عن ثوبان عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن ہذا السہر جَہْدٌ وثِقْلٌ فإذا أوتر أحدکم فلیرکع رکعتین فإن قام من اللیل وإلا کانتا لہ۔ رواہ الدرامي (مشکاة: ۱۱۳)

3) عن أبي أمامة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلیہما بعد الوتر وہو جالس، یقرأ فیہما إذا زُلزلت، وقل یا أیہا الکافرون۔ (رواہ احمد بحوالہ مشکاة ص۱۱۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رمضان المبارک 1440

عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا مسئلہ

*عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا مسئلہ*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! سوشل میڈیا کی سب سے بڑی بُرائی جس کی طرف بندے نے کئی مرتبہ نشاندہی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایرا غیرا بیٹھے بیٹھے کچھ بھی لکھ دیتا ہے اور عوام کا ایک بڑا طبقہ بغیر سوچے سمجھے، اس کی شرعی حیثیت جانے بغیر اندھا دھند اسے شیئر کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ان نام نہاد مفکرین سے درخواست ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے بہت کچھ غور کرلیا کریں، آپ جو لکھ رہے ہیں اس کا دنیاوی کتنا فائدہ ہوگا؟ شریعت اس کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟ ورنہ بروز حشر آپ کے لکھے ہوئے ہر ہر لفظ کی پوچھ ہوگی۔ اسی طرح ایسی پوسٹ بغیر سوچے سمجھے اور علماء کرام کی رہنمائی لیے بغیر دھڑا دھڑ شیئر کرنے والے بھی اپنی خیر منائیں کہ آپ کی ہر شیئر کی ہوئی پوسٹ کے بارے میں آپ کو اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امت کے یہ خیرخواہ اپنے مضمون میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ نام کیوں نہیں لکھتے؟ جب یہ اپنے آپ کو امت کا خیرخواہ سمجھتے ہیں تو اپنا نام لکھنے میں ان کو کیا پریشانی ہے؟ اگر یہ حضرات اپنا نام لکھ دیا کریں تو براہ راست ان سے رابطہ کرکے ان سے مزید استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

محترم قارئین ! فی الحال سوشل میڈیا پر انہیں پردہ نشین مفکرین کی طرف سے یہ بات بہت زور وشور سے چلائی جارہی ہے کہ ہمیں عید پر نئے کپڑے نہیں پہننا ہے، کیونکہ جب حرمین شریفین اور مساجد بند ہیں تو ہم نیا کپڑا پہن کر کیا کریں گے؟ اور کہیں یہ کہا جارہا ہے کہ نیا کپڑا پہننے سے ان لوگوں کی دل آزاری ہوگی جو نیا کپڑا نہیں پہن سکیں گے۔

ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ شریعت کاملہ کا واضح حکم یہ ہے کہ استطاعت ہوتو عید کے دن نیا کپڑا پہننا مستحب ہے۔ اگر نیا کپڑا بنانے کی استطاعت نہ ہوتو جو سب سے اچھا کپڑا ہو وہ پہن لینا چاہیے۔ اب جن لوگوں کی استطاعت ہے وہ تو نیا کپڑا پہنیں گے اور جو استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے پاس موجود سب سے اچھا کپڑا پہنیں گے تو اب اس میں دل آزاری والی بات کہاں سے آگئی؟ کیا ایسے علاقے جہاں کچھ لوگ عید پر نئے کپڑے بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہاں استطاعت رکھنے والوں پر نئے کپڑے پہننا ناجائز ہوجائے گا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق شریعت پر عمل کرے گا۔

اسی طرح حرمین شریفین اور مساجد کے بند ہونے پر بطور سوگ عید کے دن نئے کپڑے نہ پہننا بھی درست نہیں ہے۔ بلاشبہ حرمین اور مساجد میں عام نمازیوں کی پابندی ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لیکن اس کے سوگ اور غم میں عید کے دن نئے کپڑے نہ پہننے کی بات شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ایسے حالات میں رجوع الی اللہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ناکہ اپنے طور سے کوئی بھی پابندی لگادینے کی، جو مزاجِ شریعت کے خلاف ہو۔

پھر یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ آپ عید کی تیاریوں میں فضول خرچی سے پرہیز کریں۔ اور موجودہ حالات میں تو اس کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم احتیاط سے خرچ کریں، اور حتی الامکان غریبوں کی مدد کو اپنے لیے ضروری سمجھیں۔ نیز احتیاطی تدابیر کا تقاضا ہے کہ ہم بازار کی بھیڑ کا حصہ بالکل نہ بنیں۔ کم سے کم خریدی پر اکتفا کریں۔ بالخصوص خواتین غیر ضروری چیزوں کے خریدنے سے بالکل اجتناب کریں۔

نوٹ : غیرمسلموں کی دوکانوں سے خریدی سے متعلق بھی بہت سی باتیں گردش کررہی ہیں، جس پر چند دنوں پہلے ایک مفصل اور مدلل جواب بعنوان "شہریت ترمیمی قانون حامیوں کا بائیکاٹ کرنا" لکھا گیا ہے، لہٰذا اس موضوع پر اس جواب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب شرعی احکامات کی باریکیوں کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، من مانی کرنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

پیر، 27 اپریل، 2020

شہری حالات کے تناظر میں چند اہم گذارشات

*شہری حالات کے تناظر میں چند اہم گذارشات*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں جتنی اموات کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کی نہیں ہورہی ہیں اس سے زیادہ اموات کرونا کی وجہ سے ہورہی ہے۔ یعنی گمان ہوتا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نام پر کچھ ایسے فیصلے لیے گئے ہیں جو بجائے شہریان کے حق میں مفید ثابت ہونے کے انہیں سخت نقصان پہنچانے کا کام کررہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے مشہور شخصیات اور قائدین کی اموات نے شہریان کو انتہائی غمزدہ، خوفزدہ اور بے حال کردیا ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے نام پر ہاٹ اسپاٹ علاقوں کو سیل کردیا گیا، اور راستے بند ہونے کی وجہ سے متعدد مریضوں کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہی ان کی موت کا سبب بنا۔ پھر اس میں عوام کے ایک بڑے طبقہ نے از خود اپنی گلی محلوں کو بند کرلیا جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کی موت کے ذمہ دار ہوکر گناہ گار ہوئے ہیں۔ اب پانی سر سے اوپر ہورہا ہے، لہٰذا پہلی فرصت میں بند راستوں کو مکمل طور پر کھولا جائے۔

بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کا کوئی بدل فراہم کیے بغیر انہیں بند کروا دیا گیا۔ پھر بعض ہسپتالوں کو کھولنے کی اجازت بھی دی گئی تو دسیوں پابندیوں کے ساتھ۔ لاکھوں کی آبادی والے اس شہر میں جب غیر فطری طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہسپتالوں کو بند کردیا جائے گا، اور جاری رہنے والے ہسپتالوں میں دسیوں پابندیاں لگادی جائیں گی تو کیا ہوگا؟ بروقت کماحقہ طبی امداد نہ ملنے پر اموات نہیں ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟ لہٰذا اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ تمام ہسپتالوں کو کھلوایا جائے اور ان میں حسب معمول مریضوں کے علاج ومعالجہ کا پورا بندوبست کیا جائے۔

صحافی حضرات اور ان کی خبریں فوری طور پر پھیلانے والوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ انتہائی دانشمندی سے کام لیں، اور درج ذیل احادیث کو پیش نظر رکھیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف ڈرانے والی نظر سے دیکھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ڈرائے گا۔ (بیہقی)

ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا : خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔ (مسند احمد)

اسی کے ساتھ ایک واقعہ بھی سنتے چلیں کہ ایک بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے کئی دانت گرگئے ہیں، وہ بڑا پریشان ہوا کہ خواب میں میں نے دانت گرتے ہوئے دیکھے، اس نے صبح تعبیر کرنے والے کو بتایا، اب وہ تعبیر کرنے والا ذرا  کا بندہ تھا، اس نے خواب سن کر کہا : بادشاہ سلامت ! آپ کے دانت گرے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے سامنے اپنے کئی رشتہ داروں کو مرتے دیکھیں گے، اب جیسے ہی اس نے تعبیر بتائی تو بادشاہ کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے کہا، اسے دوچار جوتے لگا دو اور یہاں سے بھگا دو، یہ ایسی بری تعبیر بتا رہا ہے، اس کے بعد وہ پھر بھی خواب کی وجہ سے پریشان تھا کہ آخر اس کی کوئی نہ کوئی تعبیر تو ہوگی، چنانچہ ایک اور بندے کو بلایا گیا، وہ بندہ ذرا سمجھدار تھا، اس کوبات کرنے کا سلیقہ آتا تھا، لہٰذا جب اس نے خواب سنا تو اس نے کہا : بادشاہ سلامت ! یہ بہت اچھا خواب ہے، آپ کو مبارک ہو، بادشاہ نے پوچھا : کیسے؟ اس نے کہا : آپ اپنے تمام رشتہ داروں سے زیادہ لمبی عمر پائیں گے، بادشاہ اس تعبیر سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ اس کو انعام دے کر روانہ کر دو۔

ذکر کردہ واقعہ میں خواب کی تعبیر تو ایک ہی ہے لیکن جس نے اسے مثبت انداز میں بیان کیا تو سامنے والے پر بھی اس کا اچھا اثر ہوا اور خود بیان کرنے والے کا بھی فائدہ ہوا۔

موجودہ حالات میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی ہی لاک ڈاؤن کی تاریخ ختم ہونے کا وقت قریب آنے لگتا ہے، بار بار ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں جس میں حتمی طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ بس صرف اٹکلیں ہوتی ہیں، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ فلاں نے یہ کہا، فلاں نے وہ کہا۔ جسے پڑھ کر سوائے ذہنی تناؤ بڑھنے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسی خبروں کے شیئر کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کردیا جائے۔ صرف انتہائی اہم اور حتمی فیصلے والی خبروں کو پھیلایا جائے۔

خلاصہ یہ کہ ان حالات میں خبریں لکھنے والے مثبت پوائنٹ کو ہائی لائٹ کریں اور خبروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے والے انداز میں پیش نہ کریں کہ یہی شریعت کا حکم اور حالات کا تقاضا ہے۔

میت کا پکارا کرنا کوئی فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک جائز عمل ہے، کارخانے بند ہونے کی وجہ سے اسپیکر پر کیے جانے والے پکارے کی آواز دور تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ساتھ کئی کئی پکارے سننے کی وجہ سے شوگر، پریشر، اور قلبی امراض کے مریضوں پر بہت زیادہ اثر ہورہا ہے، اور ان کے مرض میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے، اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اموات ہورہی ہیں۔ لہٰذا حالات سازگار ہونے تک مصلحتاً یہ سلسلہ بھی موقوف کردینا بہتر ہے۔ رشتہ داروں تک فون کال کے ذریعے خبر پہنچادی جائے، ویسے بھی احتیاطی تدابیر کا تقاضا ہے کہ تدفین میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ شہر عزیز مالیگاؤں پر اپنا خصوصی کرم فرمائے، اور مہلک وبا کی تباہ کاریوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

بینک اکاؤنٹ سے روپے نکال کر دینے کی اجرت لینا

*بینک اکاؤنٹ سے روپے نکال کر دینے کی اجرت لینا*

سوال :

مفتی صاحب! امید ہیکہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے
آپ سے ایک مسئلہ کا جواب دریافت کرنا تھا۔ مسئلہ یہ ہیکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بینک بند ہے اور ATM میں پیسہ نہیں ہے، اس لئے زید نے آدھار کارڈ سے پیسہ نکال کر دینے کا کام شروع کیا ہے، زید نے 30 روپیہ رقم طے کردی ہے، فکس کردی ہے، مطلب زید 1000 پر 30 روپیہ چارج لیتا اور اسی طرح 25000 پر 750 روپیہ لیتا ہے۔ تو مفتی صاحب آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ یہ جو 30 روپیہ فکس کردیا گیا ہے یہ صحیح ہے یا نہیں؟ کیونکہ  1000 پر 30 روپیہ چارج ہے اب جیسے جیسے رقم بڑھے گی چارج بھی بڑھے گا جیسے 10 ہزار نکالے گا سامنے والا تو 30 روپیہ چارج کے حساب سے 300 روپیہ  زید لے لے گا تو کیا اس طرح بڑھتا ہوا چارج اور فکس کی گئی رقم حلال ہے یا حرام؟
مدلل اور اطمینان بخش جواب دیں۔
(المستفتی : حافظ آصف انجم، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ موجودہ دور میں منی آرڈر کی ایک جدید شکل ہے، اس میں اکاؤنٹ سے پیسہ نکال کر دینے والا اَجیر کی حیثیت سے اپنا حق المحنت وصول کرتا ہے، اس لئے شرعاً اس کی گنجائش ہے خواہ اس کی اجرت فیصد کے اعتبار سے رکھی جائے۔

علامہ تھانوی رحمہ اللہ منی آرڈر سے متعلق لکھتے ہیں :
منی آرڈر مرکب ہے دو معاملوں سے، ایک قرض : جو اصل رقم سے متعلق ہے، دوسرے اجارہ : جو فارم کے لکھنے اور روانہ کرنے پر بنامِ فیس کے دی جاتی ہے، اور دونوں معاملے جائز ہیں، پس دونوں کا مجموعہ بھی جائز ہے۔ اور چونکہ اس میں ابتلاء عام ہے، اس لئے یہ تاویل کرکے جواز کا فتویٰ مناسب ہے۔ (امداد الفتاویٰ، کتاب الربوا / عنوان : تحقیق منی آرڈر، ۳؍۱۴۶ دار العلوم کراچی)

البتہ اس کی فیس انتہائی مناسب رکھی جائے بالخصوص جب رقم زیادہ نکالنا ہوتو بہتر ہے کہ فیس کا فیصد کم کردیا جائے تاکہ اس سے یہ ظاہر نہ ہو کہ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جارہا اور ضرورت مندوں کو لوٹا جارہا ہے۔

الأجير المشترك لا يستحق الأجرة الا بالعمل۔ (مجلة الأحكام العدلية ١٥٧/١ المادة: ٤٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رمضان المبارک 1441

اتوار، 26 اپریل، 2020

دجال کو مسیح کیوں کہا گیا ہے؟

*دجال کو مسیح کیوں کہا گیا ہے؟*

سوال :

مسیح کا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ دجال کو بھی مسیح دجال اور سیدنا عيسى علیہ السلام کو بھی مسیح کہا جاتا ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دجال کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ ملی ہوئی ہوگی یعنی وہ کانا ہوگا چونکہ ممسوح ہوگا اس لئے اس مناسبت سے اسے مسیح کہا جاتا ہے۔ ممسوح کا مطلب ہے" تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہوگا۔" اور ظاہر کہ اتنی بری خصلتوں کا حامل دجال کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟

حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب بھی "مسیح" ہے جس کی اصل مسیحا ہے اور مسیحا عبرانی زبان میں "مبارک" کو کہتے ہیں یا یہ کہ مسیح کے معنی ہیں " بہت سیر کرنے والا " چونکہ قرب قیامت حضرت عیسی علیہ السلام اس دنیا میں آسمان سے اتارے جائیں گے اور دنیا سے گمراہی وضلالت اور برائیوں کی جڑ اکھاڑنے اور پھر تمام عالم پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے پر مامور فرمائے جائیں گے اور اس سلسلے میں آپ علیہ السلام کو امور مملکت کی دیکھ بھال کرنے اور اللہ کے دین کو عالم میں پھیلانے اور کانے دجال کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تقریبا پوری دنیا میں پھرنا پڑے گا۔ اس لئے اس مناسبت سے ان کا لقب "مسیح" قرار پایا ہے۔

لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسی علیہ السلام اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف " مسیح" لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ قید کر دیتے ہیں یعنی" مسیح دجال" لکھتے اور بولتے ہیں۔

المَسِيحُ  : عيسى بنُ مريم عليه السلام.  المَسِيحُ  المَمْسُوح بمثل الدُّهْن وبالبركة ليكون مَلِكًا أَو نَبيًّا، وهذه من عادات اليهود والنَّصارى.  المَسِيحُ  الأَعْوَرُ.
ورجلٌ  مَسِيحُ  الوجه: ليس على أحد شِقَّيْ وجهه عَيْنٌ ولا حاجب. والجمع : مُسَحَاءُ، ومَسْحَى.  المَسِيحُ  العَرَقُ يُمْسَحُ من الوجه.  المَسِيحُ  المِنْدِيلُ الخَشِن يُمْسَحُ به۔ (معجم الوسيط)
مستفاد : مشکوٰۃ مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رمضان المبارک 1441

جمعہ، 24 اپریل، 2020

مرد کا گھر میں اعتکاف کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کے ایک شخص جو تقریبا 17 18 سال سے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتا تھا اب لاک ڈاؤن کا زمانہ ہے مسجد جانا دشوار ہے تو کیا وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف اپنے گھر کے اندر کر سکتا ہے؟

(المستفتی : محمد فہیم، مراد آباد)
---------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلی بات تو ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ مکمل رمضان المبارک لاک ڈاؤن میں گذرے گا۔ لہٰذا اگر اخیر عشرے سے پہلے پابندی ختم ہوجائے تو آپ اطمینان سے مسجد میں اعتکاف کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ پابندی برقرار رہی اور آپ کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت نہیں مل سکی تو پھر گھر میں بھی اعتکاف کرنا درست نہیں ہے۔ اس اعتکاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ مرد کے لئے شرط ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہو۔ البتہ آپ اپنے جذبہ میں سچے ہیں تو امید ہے کہ بغیر اعتکاف کیے آپ کو   اعتکاف کا ثواب مل جائے گا۔ہ

 
اما شروطہ ومنہا مسجد الجماعۃ فیصح فی کل مسجد لہ أذان وإقامۃ ہو الصحیح۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۲۱۱)

فدل أن مکان الاعتکاف ہو المسجد۔ (بدائع الصنائع : ۲/۲۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی 
29 شعبان المعظم 1441

جمعرات، 23 اپریل، 2020

قضیہ دس رکعت تراویح کا

*قضیہ دس رکعت تراویح کا*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! سعودی حکومت نے وبائی مرض کو لے کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال حرمین میں دس رکعت تراويح اور تین رکعت وتر باجماعت ادا کی جائے گی۔ اکیسویں شب سے تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جائے گی، تراويح اور تہجد میں ملاکر انتیسویں شب کو قرآن کریم کی تکمیل ہوگی۔ اور بقیہ مساجد بند رہیں گی۔

چونکہ اس سال عمرہ پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے اس لیے دیگر ممالک سمیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی وہاں جانے پر پابندی عائد ہے۔ اب جبکہ ہندوستانی مسلمانوں کو وہاں جانا ہی نہیں ہے اور ان کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیش نہیں آنے والا ہے کہ وہاں دس رکعت تراويح ہوگی تو ہم کس طرح تراویح پڑھیں؟ تو پھر اس میں دلچسپی لینے اور بلاوجہ تشویش میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ سعودی حکومت کے بہت سے فیصلے ہماری سمجھ کے باہر ہیں، ایک یہ بھی سمجھ لیا جائے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اِدھر اُدھر جھانکنے اور پریشان ہونے کے بجائے سیدھے اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں۔ اور حنفی مسلک جو عین قرآن وسنت کے مطابق ہے وہ یہی ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے، اس پر امت کا اجماع ہے، یعنی چودہ سو سال سے امت تراویح کی بیس رکعت باجماعت ادا کرتی آرہی ہے۔

سوالات یہ بھی آرہے ہیں کہ اگر ہم تراویح بیس کے بجائے دس رکعت پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے کہ سعودی عرب میں حنبلی مسلک رائج ہے اور ہم حنفی ہیں تو ہم کیسے دوسرے مسلک پر عمل کرسکتے ہیں؟ اگر ایسے ہی کسی بھی مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دے دی جائے تو چوں چوں کا مربہ بن جائے گا۔ لوگ شریعت پر نہیں بلکہ نفسانی خواہشات پر عمل کریں گے۔ جہاں آسانی ہوگی اس پر عمل کیا جائے گا اور جہاں مشکل ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بالکل واضح ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز (دین و شریعت) کی تابع نہیں ہوتیں جس کو میں اللہ کی جانب سے لایا ہوں۔ (شرح السنہ)

حدیث شریف کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو دین کے تابع کریں نہ کہ خود دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے۔ لہٰذا جب مسلمان اپنا مسلک چھوڑ کر اِدھر اُدھر دیکھے گا تو اس کا انجام یہی ہوگا وہ دین پر عمل کرنے کے بجائے اپنی خواہشات پر عمل کرے گا۔

سعودی حکومت کا یہ فیصلہ بلاشبہ خلافِ شرع وخلافِ عقل ہے کہ جب حرمین میں مخصوص لوگوں کو تراویح پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تو پھر رکعتوں میں کمی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی جب چند افراد تراویح ادا کرسکتے ہیں تو وہ پوری بیس رکعت کیوں نہیں ادا کرسکتے؟ جبکہ اخیر عشرہ میں دس رکعت تہجد بھی باجماعت ادا کی جائے گی۔

اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ تراويح بیس رکعت ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے، لہٰذا بلاعذر شرعی اس میں سے جتنی رکعتیں کم ادا کی جائیں گی، اتنی رکعتوں کے چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ چنانچہ جن حضرات کے دل ودماغ میں دس رکعت تراويح پڑھنے کا باطل خیال آرہا ہے وہ فوراً اسے جھٹک دیں اور اس عمل سے باز رہیں کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور کچھ نہیں۔

اللہ تعالٰی آپ ہم سب کی نفسانی خواہشات پر چلنے حفاظت فرمائے اور سنت کے عین مطابق عبادتوں کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین