منگل، 14 اپریل، 2020

نماز میں قرآنِ کریم دیکھ کر پڑھنے کا حکم

*نماز میں قرآنِ کریم دیکھ کر پڑھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک ندوی صاحب جن کا نام رضی الاسلام ہے ان کی تحریر نظروں سے گذری اس میں انہوں نے تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کو جائز لکھا ہے، یہ تحریر آپ کو ارسال کی جارہی ہے۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو احناف کی دلیلوں کے ساتھ تفصیل سے بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رضی الاسلام صاحب کے مسلک ومشرب کا تو ہمیں علم نہیں، البتہ انہوں نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ حنفی مسلک کے بالکل خلاف ہے۔ سب سے پہلی بات تو ایسے نازک حالات میں انہیں اس اختلافی مسئلہ کو تختہ مشق ہی نہیں بنانا تھا، اور اگر اس پر کچھ لکھنا ہی تھا تو تمام مسالک بالخصوص حنفی مسلک کا وہ قول لکھنا چاہیے تھا جو راجح اور مفتی بہ ہے، نیز انہوں نے اپنی تحریر میں گویا حنفی مسلک کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مسئلہ ھذا پر احناف کے یہاں الحمدللہ مضبوط دلائل کا ایک دفتر موجود ہے جس میں سے چند اہم دلائل اس جواب میں نقل کیے جارہے ہیں۔ جسے پڑھنے کے بعد قوی امید ہے کہ قاری کو تشفی ہوجائے گی۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔ (سورۃ البقرة :۱۴۴)
ترجمہ : اب آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی سمت کرلیں۔

جہاں نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھا جاتا ہے وہاں قرآن مجید امام کے دائیں طرف رکھا ہوا ہوتا ہے۔ سورہ فاتحہ سے فراغت کے بعد امام، دائیں جانب رکھے گئے قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس طرح کہ پیچھے سے دیکھنے والا اچھی طرح یہ محسوس کرتا ہے کہ امام کا چہرہ بالکل سیدھے قبلہ کی طرف نہیں ہے، بلکہ دائیں جانب رکھے ہوئے قرآن مجید کی طرف ہے، حالانکہ استقبال قبلہ میں مرکزی کردار چہرے کے استقبال کا ہوتا ہے، کیونکہ چہرہ ہی پورے انسانی ڈھانچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر چہرے کا استقبال نہ ہوتو بے رُخی اور عدم دل چسپی کا احساس ہوتا ہے، جبکہ یہ تو انابت اور کمالِ توجہ کا مقام ہے، یہ الگ بات ہے کہ صرف ڈھانچے اور سینے کا استقبال بھی کافی ہوسکتا ہے، لیکن کمالِ ادب یہی ہے کہ ایک ایک عضو کا استقبال ہو، چنانچہ کمال توجہ کی اسی حد کو ملحوظ رکھ کر شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے: یتوجہ المصلي الی القبلة أینما کان بجمیع بدنہ۔ (ہدایة الحائرین، صفة صلاة النبی:۲۹۷) ”مصلی جہیں کہیں بھی ہو استقبال قبلہ ضروری ہے، بدن کے ایک ایک عضو کے ساتھ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لِیَلِنِيْ مِنْکُمْ أُوْلُوا الأَحْلَامِ وَالنُّہٰی۔ (صحیح مسلم، حدیث :۴۳۲) ترجمہ : نماز میں میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو سمجھدار اور صاحبِ علم ہیں۔
اگر قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی تو پھر اس حدیث کا کوئی مطلب ہی نہیں بنے گا۔ اس لیے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان درحقیقت امت کے لیے یہ تعلیم تھی کہ امام کے پیچھے اور امام کے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو صاحبِ علم اور صاحبِ فہم وذکاء ہیں تاکہ نماز میں اگر کوئی بھول چوک ہوجائے تو یہ امام کو لقمہ دیں اور بھول چوک کی تلافی ہوسکے۔ اگر قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے۔ الغرض آپ کا یہ فرمان اشارے اور کنایے میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ۔ (صحیح البخاری، حدیث:۶۳۱) ترجمہ : اس طرح نماز پڑھو جیسے تم لوگ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
دورِ نبوی کی تیئس سالہ زندگی میں کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے یا آپ علیہ السلام کی موجودگی میں صحابہ نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھا ہو، حتی کہ ابتدائی دور میں تو نماز میں بات چیت کرنے کی اجازت بھی تھی، لیکن اس دور میں بھی دیکھ کر پڑھنا ثابت نہیں۔

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ۔ (سنن أبي داود، حدیث:۴۶۰۷)
ترجمہ : میری سنت (میرے طریقے) کو اور خلفاء راشدین کی سنت (کے طریقے) کو لازم پکڑو۔
عہد خلفاء راشدین میں بھی کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اُن حضرات نے نماز میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ سیدنا عمر سے ممانعت ضرور ثابت ہے۔ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نَہَانَا أمیرُ المُوٴمِنِیْنَ عُمَرُ رضی اللّٰہ عنہ أَن یَوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ، وَنَہَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا اِلَّا الْمُحْتَلِمُ․ (کتاب المصاحف، ہل یوٴم القرآن فی المصحف:۱۸۹) ترجمہ : ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کرے اور اس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے۔

قیام کی حالت میں مصلی کے لیے مستحب ہے کہ نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو، کیونکہ اس سے دلجمعی پیدا ہوتی ہے اور خشوع وخضوع کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ دیکھ کر قرآن پڑھنے کی صورت میں نگاہ یقیناً قرآن مجید کے صفحات و حروف پر ہوگی، جس سے نماز کا ایک اہم ادب فوت ہوجائے گا۔

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
قال شریک القاضي : ینظر في حال قیامہ الی موضع سجودہ کما قال جمہور الجماعة، لأنہ أبلغ في الخضوع وآکد في الخشوع وقد ورد بہ الحدیث۔ (تفسیر ابن کثیر سورة البقرة:۱۴۴) ترجمہ : حضرت شریک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : قیام کی حالت میں مصلی کی نظر سجدہ کی جگہ پر ہونی چاہیے، جمہور نے یہی فرمایا ہے، اس لیے کہ یہ خشوع وخضوع کی اعلیٰ ترین کیفیت ہے اور اس سلسلے میں حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں لکھا ہے :
ینبغی للمصلي اذا قام في صلاتہ أن یرمي ببصرہ الی موضع سجودہ، وہو قول أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ۔ (الموطا، باب وضع الیمین علی الیسار، حدیث :۲۹۱) ترجمہ : جب قیام کی حالت میں ہو چاہیے کہ وہ اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے۔

حدیث میں ہے :
فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِيْ صَلَاتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ۔ (سنن الترمذی، حدیث: ۲۸۶۳، مستدرک الحاکم، حدیث:۸۶۳) ترجمہ : جب نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر نہ دیکھو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نماز میں اپنا چہرہ بندہ کے چہرہ کی طرف اس وقت تک کیے رکھتے ہیں، جب تک بندہ اپنا رخ نہیں پھیرتا۔

نماز پڑھتے ہوئے سکون وطمانینت اور خشوع وخضوع کا حکم ہے، قرآن دیکھ کر پڑھنے میں وہ سکون وطمانینت اور خشوع وخضوع نہیں رہتا، کیونکہ ساری توجہ قرآن پر ہوتی ہے، قرآن کھولنے، بند کرنے اور اوراق پلٹنے میں کہاں خشوع پیدا ہوسکتا ہے؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَیْسَ یَنْبَغِيْ أَن یَّکُوْنَ فِي الْبَیْتِ شَیْءٌ یُشْغِلُ الْمُصَلِّيَ۔ (سنن أبي داود، حدیث:۲۰۳۰، مسند أحمد، حدیث: ۱۶۶۳۶) ترجمہ : گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جونمازی کو مشغول کرتی ہو۔

نیز نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا حفاظتِ قرآن کے لیے بھی سخت مضر ہے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِہَا۔ (صحیح البخاری، حدیث:۵۰۳۳) ترجمہ : قرآن کی نگہ داشت کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یقینا قرآن کریم رخصت ہونے اور سینوں سے نکل جانے میں اونٹ کے اپنے بندھن سے بھاگنے سے زیادہ تیز ہے۔

امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ”کتاب المصاحف“ میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھنے کے حوالے سے ایک باب قائم کیا ہے : ”ہل یوٴم القرآن في المصحف“، جس میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مختلف آثار نقل کیے ہیں، ذیل میں مذکورہ باب سے چند اہم آثار کو نقل کردینا استفادے سے خالی نہیں۔

۱) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب  نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کریں اوراس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے : ”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللّٰہ عنہما قَالَ: نَہَانَا أمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عُمَرُ رضي اللّٰہ عنہ أَن یَّوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ وَنَہَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا إِلَّا الْمُحْتَلِمُ“․

۲) قتادہ، سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : اگر قیام اللیل میں پڑھنے کے لیے مصلی کو کچھ یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے، لیکن قرآن دیکھ کر نہ پڑھے۔ ”عن قتادة عن ابن المسیب قال: إِذَا کَانَ مَعَہُ مَا یَقُوْمُ بِہِ لَیْلَہُ رَدَّدَہُ وَلاَ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ۔

۳) لیث، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو مکروہ قرار دیتے تھے، اس وجہ سے کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے، ”عن لیث عن مجاہد أنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَّتَشَبَّہُوْا بِأَہْلِ الْکِتَابِ یَعْنِيْ أَنْ یَّوٴُمَّہُمْ فِي الْمُصْحَفِ“۔

۴) اعمش،ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو سخت ناپسند کرتے تھے؛ کیوں کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے۔ ”عن الأعمش عن إبراہیم قال: کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ أَنْ یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ کَرَاہِیَةً شَدِیْدَةً أَن یَّتَشَبَّہُوْا بِأَہْلِ الْکِتَابِ“․

اس کے علاوہ بھی اور بہت سے آثار امام ابوداؤد نے نقل کیے ہیں، مزید تفصیل کے لیے کتاب المصاحف (۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱) کی طرف رجوع کیا جائے۔

۵) خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی رمضان کے مہینے میں لوگوں کو نماز پڑھائے اور قرأت، قرآن میں دیکھ کرکرے اور فرماتے تھے کہ یہ اہلِ کتاب کا عمل ہے : عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ ہُوَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ۔ (تاریخ:۹/۱۲۰)

معلوم ہوا کہ اکثر اہلِ علم نے اس کو باطل گردانا ہے۔ بعض علماء نے اگر کچھ نرمی برتی بھی ہے تو بلاضرورتِ شدیدہ کے جائز کسی نے نہیں کہا ہے۔ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : إن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف۔ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳) ترجمہ : نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے۔

پھر بھی چونکہ سلف میں سے بعض نے اجازت دی ہے (قطع نظر اس کے کہ وہ اجازت ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے ہے یا بلا ضرورت بھی اجازت ہے) اس لیے کچھ لوگ جواز کے قائل ہوئے ہیں اور استدلال میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل پیش کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے : وَکَانَتْ عَائِشَةُ یَوٴُمُّہَا عَبْدُہَا ذَکوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ․ (صحیح البخاری، باب إمامة العبد والمولی) ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے غلام ذکوان قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتے تھے۔“ یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح ہے: کَانَ یَوٴُمُّ عَائِشَةَ عَبْدٌ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ․ (حدیث:۷۲۹۳) ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے غلام ذکوان نماز پڑھاتے تھے اور وہ قرآن دیکھ کر قراء ت کرتے تھے۔“

اس اثر کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے : وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لا عموم لہا۔ (فتح الرحمن : ۱۲۴) ترجمہ : اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے سیدنا ذکوان کی امامت کا جو واقعہ ذکر کیا جاتاہے وہ ایک جزوی اور خصوصی واقعہ ہے عمومی نہیں ہے۔

علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

وأما حدیث ذکوان فیحتمل أن عائشة ومن کان من أہل الفتوی من الصحابة لم یعلموا بذلک وہذا ہو الظاہر بدلیل أن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ولو علموا بذلک لما مکنوہ من عمل المکروہ في جمیع شہر رمضان من غیرحاجة، ویَحْتَمِلُ أن یکون قول الراوي کان یوٴم الناس في شہر رمضان وکان یقرأ من المصحف إخبارا عن حالتین مختلفین أي کان یوٴم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالة الصلاة۔ (بدائع الصنائع : ۲/۱۳۳، ۱۳۴)

ترجمہ : سیدنا ذکوان والی حدیث میں احتمال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کو معلوم نہ ہوا ہو کہ وہ دیکھ کرپڑھ رہے ہیں اوریہی مناسب بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ (نماز میں) قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے۔ اگر انہیں اس حالت کاپتہ ہوتا تو ہرگز ایک مکروہ فعل کی اجازت نہ دیتے وہ بھی پورے مہینے بلا ضرورت کے اور یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا یہ قول کہ ”ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے“ دو الگ الگ حالتوں کی خبر دینا ہے، یعنی ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور نماز سے باہر قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔“

اسی طرح کی بات علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

أثر ذکوان إن صح فہو محمول علی أنہ کان یقرأ من المصحف قبل شروعہ في الصلاة أي ینظر فیہ ویتلقن منہ ثم یقوم فیصلي، وقیل مادل فإنہ کان یفعل بین کل شفعین فیحفظ مقدار ما یقرأ من الرکعتین، فظن الراوی أنہ کان یقرأ من المصحف۔ (البنایة:۲/۵۰۴)

ترجمہ : اثر کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس بات پرمحمول ہوگا کہ ذکوان نماز شروع کرنے سے پہلے قرآن دیکھتے تھے، پھر ذہن نشین کرکے نماز پڑھاتے تھے، ذکوان ہر دورکعت بعد یہ عمل کرتے اور اگلی دو رکعت میں جتنا پڑھنا ہوتا وہ یاد کرلیتے۔ اسی کو راوی نے اس طرح نقل کردیا کہ وہ قرآن دیکھ کر قراءت کرتے تھے۔

علامہ کاسانی اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہما کی بات کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے ”التلخیص الحبیر“ میں اورامام شوکانی رحمة اللہ علیہ نے ”نیل الاوطار“ میں ذکر کیا ہے، اس اثر میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی بات ہی نہیں :

عن ابن أبي ملیکة أنہم کانوا یأتون عائشة بأعلی الوادي ہو وعبید بن عمیر والمسور بن مخرمة وناس کثیر فیوٴمہم أبو عمر و مولی عائشة، وأبو عمر وغلامہا حینئذ لم یعتق۔ (التلخیص الحبیر:۲/۱۱۰، نیل الأوطار، باب إمامة العبد الأعمی والمولی:۵۸۶)

ترجمہ : ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عبید بن عمیر، مسور بن مخرمہ اور بہت سے لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمرو سب کی امامت کرتے تھے اور وہ اس وقت تک آزاد نہیں ہوئے تھے۔

غنیة شرح منیہ، البحرالرائق، تبیین الحقائق، فتح القدیر، رد المحتار اور بدائع الصنائع وغیرہ میں قرآن دیکھ کر نمازپڑھنے سے متعلق مختلف جزئیات ہیں، جن کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے :

۱) قرآن مجید ہاتھ میں لے کر نماز پڑھی جارہی ہو اور امام حافظ قرآن بھی نہ ہو تو امام مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر منفرد (تنہا شخص) نماز پڑھ رہا ہوتو اس کی بھی نماز فاسد ہوگی اور فاسد ہونے کی دو وجہیں ہیں :

الف : *عمل کثیر* : کیونکہ قرآن اٹھانے میں دونوں ہاتھ مشغول رہیں گے، قرآن کھولنے، بند کرنے اور اوراق پلٹنے میں بھی دونوں ہاتھ مشغول ہوں گے۔

ب : *تعلیم و تعلّم* : چونکہ اس کو قرآن یاد نہیں ہے دیکھ کرپڑھ رہا ہے تو یہ مانا جائے گا کہ یہ نماز کے باہر سے لقمہ لے رہا ہے اور لقمہ لینا ایک طرح سے تعلیم وتعلّم ہے، اس لیے یہ انسانی کلام کے درجے میں ہوگیا، لہٰذا نماز فاسد ہوجائے گی۔ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ اس علت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

أن ہذا یلقن من المصحف فیکون تعلمًا منہ، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم، وذا یفسد الصلاة فکذا ہذا․ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳)․

ترجمہ : یہ قرآن سے تلقین ہے، لہٰذا قرآن سے سیکھنے کے درجہ میں ہوگیا۔ جو شخص قرآن سے سیکھتا ہے اسے ہر کوئی متعلّم کہتاہے تو یہ ایسے ہی ہوگیا گویا کہ اس نے معلم سے سیکھا ہے (اگر آدمی نماز کی حالت میں معلم سے سیکھ لے) تو نماز فاسد ہوجاتی ہے، لہٰذا اس سے بھی نماز فاسد ہوجائے گی۔

۲) قرآن ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ رحل یا کسی اونچی چیز پر رکھا ہوا ہے، امام یا منفرد اس میں دیکھ کر پڑھ رہے ہیں، جبکہ ان کو قرآن یاد نہیں ہے تو اب اگرچہ عمل کثیر نہیں پایا جارہا ہے، لیکن دوسری وجہ تعلیم وتعلّم پائی جارہی ہے، اس لیے نماز فاسد ہوگی۔

(غنیة شرح منیہ : ۲۷۴، البحرالرائق : ۲/۱۷، تبیین الحقائق : ۱/۱۵۹، ردالمحتار : ۲/۳۸۴/بحوالہ : نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شعبان المعظم 1441

3 تبصرے:

  1. انصاری محمود1 اپریل، 2023 کو 1:01 AM

    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. مفتی صاحب ایک خامی قرآن دیکھ کر پڑھنے سے یہ ہوگی کہ لوگ قرآن مجید حفظ کرنا چھوڑ دیں گے کیونکہ جب دیکھ کر ہی پڑھانا ہے تو پھر اتنی محنت کون کرے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے واٹس اپ پہ

    جواب دیںحذف کریں