جمعرات، 23 اپریل، 2020

قضیہ دس رکعت تراویح کا

*قضیہ دس رکعت تراویح کا*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! سعودی حکومت نے وبائی مرض کو لے کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال حرمین میں دس رکعت تراويح اور تین رکعت وتر باجماعت ادا کی جائے گی۔ اکیسویں شب سے تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جائے گی، تراويح اور تہجد میں ملاکر انتیسویں شب کو قرآن کریم کی تکمیل ہوگی۔ اور بقیہ مساجد بند رہیں گی۔

چونکہ اس سال عمرہ پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے اس لیے دیگر ممالک سمیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی وہاں جانے پر پابندی عائد ہے۔ اب جبکہ ہندوستانی مسلمانوں کو وہاں جانا ہی نہیں ہے اور ان کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیش نہیں آنے والا ہے کہ وہاں دس رکعت تراويح ہوگی تو ہم کس طرح تراویح پڑھیں؟ تو پھر اس میں دلچسپی لینے اور بلاوجہ تشویش میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ سعودی حکومت کے بہت سے فیصلے ہماری سمجھ کے باہر ہیں، ایک یہ بھی سمجھ لیا جائے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اِدھر اُدھر جھانکنے اور پریشان ہونے کے بجائے سیدھے اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں۔ اور حنفی مسلک جو عین قرآن وسنت کے مطابق ہے وہ یہی ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے، اس پر امت کا اجماع ہے، یعنی چودہ سو سال سے امت تراویح کی بیس رکعت باجماعت ادا کرتی آرہی ہے۔

سوالات یہ بھی آرہے ہیں کہ اگر ہم تراویح بیس کے بجائے دس رکعت پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے کہ سعودی عرب میں حنبلی مسلک رائج ہے اور ہم حنفی ہیں تو ہم کیسے دوسرے مسلک پر عمل کرسکتے ہیں؟ اگر ایسے ہی کسی بھی مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دے دی جائے تو چوں چوں کا مربہ بن جائے گا۔ لوگ شریعت پر نہیں بلکہ نفسانی خواہشات پر عمل کریں گے۔ جہاں آسانی ہوگی اس پر عمل کیا جائے گا اور جہاں مشکل ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بالکل واضح ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز (دین و شریعت) کی تابع نہیں ہوتیں جس کو میں اللہ کی جانب سے لایا ہوں۔ (شرح السنہ)

حدیث شریف کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو دین کے تابع کریں نہ کہ خود دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے۔ لہٰذا جب مسلمان اپنا مسلک چھوڑ کر اِدھر اُدھر دیکھے گا تو اس کا انجام یہی ہوگا وہ دین پر عمل کرنے کے بجائے اپنی خواہشات پر عمل کرے گا۔

سعودی حکومت کا یہ فیصلہ بلاشبہ خلافِ شرع وخلافِ عقل ہے کہ جب حرمین میں مخصوص لوگوں کو تراویح پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تو پھر رکعتوں میں کمی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی جب چند افراد تراویح ادا کرسکتے ہیں تو وہ پوری بیس رکعت کیوں نہیں ادا کرسکتے؟ جبکہ اخیر عشرہ میں دس رکعت تہجد بھی باجماعت ادا کی جائے گی۔

اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ تراويح بیس رکعت ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے، لہٰذا بلاعذر شرعی اس میں سے جتنی رکعتیں کم ادا کی جائیں گی، اتنی رکعتوں کے چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ چنانچہ جن حضرات کے دل ودماغ میں دس رکعت تراويح پڑھنے کا باطل خیال آرہا ہے وہ فوراً اسے جھٹک دیں اور اس عمل سے باز رہیں کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور کچھ نہیں۔

اللہ تعالٰی آپ ہم سب کی نفسانی خواہشات پر چلنے حفاظت فرمائے اور سنت کے عین مطابق عبادتوں کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

1 تبصرہ: