پیر، 29 اگست، 2022

گنپتی کا چندہ دینے سے متعلق سوالات

سوال :

گنیش مہوتسو میں مسلمانوں کا پیسہ دینا کیسا ہے؟ ہاسٹل و کالج میں چندہ کرنے کا بول رہے ہیں۔ منع کرنا ہو تو کس انداز میں منع کریں، اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ اور اگر مجبوری ہے کہ دینا ہی ہے تو کیا سود کی رقم دے سکتے ہیں؟
(المستفتی : اسجد ملک، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گنپتی جو ہندوؤں کے یہاں مورتی پوجا کا ایک تہوار ہے اس میں مورتی لانے، رکھنے اور اس کا ڈیکوریٹ کرنے کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ جس میں مسلمانوں کو اپنا مال دینا بلاشبہ ناجائز اور حرام ہے اس لیے کہ یہ شرکیہ عمل پر تعاون ہے۔ لہٰذا عام حالات میں تو اس کا چندہ دینے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ مطالبہ کریں تو انہیں صاف صاف کہہ دیا جائے کہ ہمارے مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اور ہم لوگ بھی اپنے کسی مذہبی معاملات میں آپ لوگوں سے تعاون کی درخواست نہیں کرتے، لہٰذا آپ لوگ بھی نہ کریں۔ یا پھر کوئی اور بہانہ کرکے ٹالنے کی کوشش کریں، لیکن اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ چندہ نہ دینے سے ان کی طرف کوئی بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ غیرمسلم علاقوں کے ہاسٹل میں جہاں اکثریت غیرمسلم طلباء کی ہوتو پھر یہ سوچ کر کہ میں اس شرکیہ عمل میں تعاون کے لیے نہیں بلکہ چندہ مانگنے والے کو یہ رقم دے رہا ہوں، اب یہ جو چاہے کرے، تو کم سے کم رقم دے کر اپنی جان چھڑانے کی گنجائش ہوگی۔ البتہ یہ سودی رقم کا مصرف نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں سودی رقم نہ دی جائے، سودی رقم کا مصرف مستحقین زکوٰۃ مسلمان ہیں۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت :٢)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 محرم الحرام 1444

انبیاء علیہم السلام کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں پیدا ہونے کی دعا کرنا

سوال :

مفتی صاحب اکثر و بیشتر سننے میں یہ بات آتی ہے کہ
حضرت محمد ﷺ کی اس آخری امت میں پیدا ہونے کے لئے پہلی امتوں کے یا بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام نے دعائیں مانگی ہیں۔ تحقیق یہ مطلوب ہے قرآن و سنت کی رو سے اس بات کے متعلق کیا رہنمائی ملتی ہے؟ براہ کرم مدلل و مفصل جواب مرحمت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سابقہ انبیاء علیہم السلام یا انبیاء بنی اسرائیل کا امت محمدیہ میں پیدا ہونے کی تمنا اور دعا کرنے کا ذکر کسی معتبر مرفوع حدیث شریف میں نہیں ہے۔

احادیث و روایات کی تحقیق میں مشہور جید عالم شیخ طلحہ بلال منیار دامت برکاتہم کی تحقیق جو اس سلسلے میں ہے ہم یہاں اسے نقل کررہے ہیں، اسی تحقیق کو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور دارالافتاء الاخلاص کراچی والوں نے اپنے فتوے میں ذکر کیا ہے۔

1) حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں تفسیر طبری میں سورہ اعراف کی آیت نمبر 150 : ( وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ ) کے ضمن میں بعض روایات اور امام ابو نعیم کی حلية الاولیاء (6 /18) میں بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جب امت محمدیہ کے فضائل تورات میں دیکھے تو اللہ تعالی سے دعا کی کہ مجھے اس امت میں سے بنادے۔ لیکن ان سب روایتوں کا دار ومدار حضرت کعب احبار، حضرت وھب بن منبہ اور قتادہ بن دعامہ رحمہم اللہ تعالی پر ہے اور یہ وہ تابعین حضرات ہیں جو کثرت سے اسرائیلیات کی روایت کرنے میں مشہور ہیں، اس لئے ظن غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے۔ نیز بعض کتابوں میں ان روایتوں کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بھی بیان کیا گیا ہے، جیسے امام ابو نعیم نے دلائل النبوہ (حدیث ۳۱) میں ایک حدیث بروایت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کی ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔

2) اسی طرح حضرت الیاس علیہ السلام سے بھی اس طرح کی دعا کرنا بعض حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے، جیسے مستدرک حاکم : (2 /674) اوردلائل النبوہ للبیھقی : (5 /421) میں ہے، لیکن یہ روایت سند کے اعتبار شدید الضعف ہے اور امام ذھبی نے اسے موضوع (من گھڑت) بھی قرار دیا ہے۔

3) اسی طرح امام طبرانی کی معجم اوسط : (3071) میں یہی واقعہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے ذکر کیا گیاہے، لیکن اس روایت کی اسناد بھی ساقط اور غیر مستند ہے۔

4) حضرت عیسی علیہ السلام کا امت محمدیہ میں امتی بن کر قرب قیامت کے زمانہ میں نازل ہونا، متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے، البتہ ان کے بارے میں اس طرح کی دعا کرنا اور قبولیت دعا کا تذکرہ صراحت کے ساتھ کتب حدیث میں کہیں نہیں ملا۔

خلاصہ یہ کہ کسی بھی معتبر روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام نے یہ دعا کی ہے کہ انہیں امت محمدیہ میں پیدا کیا جائے۔ لہٰذا اس بات کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 محرم الحرام 1444

اتوار، 28 اگست، 2022

حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول بحیثیت نبی یا امتی؟

سوال :

مفتی صاحب میں نے کسی عالم کے بیان میں سنا کہ عیسی مسیح جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو نبی ہی رہیں گے جبکہ اس کے بر خلاف بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ عیسی علیہ السلام امّتی بن کر آئینگے۔ مہربانی کر کے مسئلہ واضح کردیں۔
(المستفتی : محمد جنید، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن و حدیث سے یہ بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ ہمارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم فرما دیا گیا ہے اب آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعوی کرے وہ بالاجماع جھوٹا ہے اور اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ البتہ دوسری طرف صحیح احادیث میں قیامت سے پہلے ایک نبی یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی خبر ملتی ہے، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول بحیثیتِ نبی جدید نہیں ہوگا، بلکہ ان کا نزول بحیثیتِ حاکم ہوگا اور وہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہوں گے اور اسی کے مطابق امت میں فیصلے فرمائیں گے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہوچکے ہیں، لہٰذا قربِ قیامت جب آپ علیہ السلام میں دجال کو قتل کرنے، صلیب توڑنے، خنزیر کو قتل کرنے اور جزیہ اٹھانے کے لیے تشریف لائیں گے، اس وقت بھی آپ نبی ہوں گے، کیونکہ ان کی نبوت سلب نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن یہ نبوت چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے پہلے حاصل ہوچکی ہے، اس لیے یہ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے، نہ ہی آپ علیہ السلام انجیل کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، بلکہ قرآنِ مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کے مطابق ہی فیصلے فرمائیں گے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ بحیثیت امتی تشریف لائیں گے اور شریعت محمدیہ پر عمل اور اسی کے مطابق فیصلے فرمائیں گے جب شریعت محمدیہ کے مطابق عمل اور حکم فرمائیں گے تو ان کے لیے جدید وحی کی ضرورت نہ ہوگی، اس لیے ان پر کوئی جدید وحی نازل نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 30051)

خلاصہ یہ کہ سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی بات بھی درست ہے اور آپ نے جو سنا ہے وہ بھی درست ہے۔ لیکن ان دونوں کو ایک ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف نبی یا صرف امتی کہا جائے گا تو غلط فہمی ہوگی۔ لہٰذا اس طرح کہنا چاہیے کہ قربِ قیامت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول ہوگا تو آپ اصلاً نبی ہی ہوں گے، اس لیے کہ آپ کی نبوت کو ختم نہیں کیا جائے گا، لیکن بحیثیت امتی اور امت محمدیہ کے حکمراں کے طور پر تشریف لائیں گے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اعزاز میں وقت کے امام کی اقتدا میں نماز بھی ادا فرمائیں گے۔

قال الله تعالٰی : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔ (سورۃ الأحزاب، آیت : ٤٠)

قال ابن كثير رحمه الله : أخبر تعالى في كتابه ، ورسوله في السنة المتواترة عنه : أنه لا نبي بعده ؛ ليعلموا أن كل مَنِ ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب أفاك، دجال ضال مضل، ولو تخرق وشعبذ، وأتى بأنواع السحر والطلاسم، فكلها محال وضلال عند أولي الألباب، كما أجرى الله سبحانه وتعالى على يد الأسود العَنْسي باليمن، ومسيلمة الكذاب باليمامة، من الأحوال الفاسدة والأقوال الباردة، ما علم كل ذي لب وفهم وحِجى أنهما كاذبان ضالان، لعنهما الله. وكذلك كل مدع لذلك إلى يوم القيامة حتى يختموا بالمسيح الدجال۔ (تفسير ابن كثير : ٤٣١-٦/٤٣٠)

عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔ (صحیح البخاری : ٣٤٥٥)

عن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَايَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔ (صحيح البخاری، رقم : ٢٢٢٢)

عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ قال : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لَاتَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. قَالَ : فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ : تَعَالَ صَلِّ لَنَا. فَيَقُولُ : لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ ، تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ۔ (صحیح المسلم : ١٥٦)

إنہ ینزل حاکمًا بہذہ الشریعة فإن ہذہ الشریعة باقیة لا تنسخ بل یکون حاکما من أحکام ہذہ الأمة، ولا یکون نزولہ من حیث أنینبي مستقل کما قد بعث في بني إسرائیل، وفیہ تنبیہ علی أنہ لا یأتي علی أنہ نبي وإن کان نبیًّا في الواقع (فتح الملہم : ۱/۳۰۰، کتاب الإیمان، باب نزول عیسی علیہ السلام)

عیسی علیہ السلام یتابع محمد صلی اللہ علیہ وسلم فیحکم علی شریعتہ، لأن شریعتہ قد نسخت فلا یکون الوحي إلیہ أي لتجدید الشرع ونصب أحکام جدیدة۔ (نبراس شرح، شرح العقائد : ۲۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1444

جمعرات، 25 اگست، 2022

جنگلی رمی کھیلنے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! موبائل پر ایک گیم ہے جو تاش کے پتوں کا کھیل ہوتا ہے جس کا نام جنگلی رمی ہے، اس میں ہار جیت پر پیسوں کا لین دین ہوتا ہے، آج کل نوجوان اسے بہت کھیل رہے ہیں اور اپنی حلال کمائی اس میں برباد کررہے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ اس کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں۔
(المستفتی : شکیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی بھی کھیل اگر پیسوں کے لین دین کی شرط پر کھیلا جائے مثلاً یہ طے ہوکہ ہارنے والا جیتنے والے کو اتنی اتنی رقم دے گا تو ایسا کرنا قمار اور جوے میں داخل ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

قمار عربی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کا دوسرا نام”میسر“ہے، اِسے اُردو میں ”جوا“ اور انگریزی میں ”Gambling“ کہتے ہیں۔

قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ ر قم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے ”قمار“ کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :

قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل : 3/358)

قمار کے مفہوم کو علامہ شامیؒ نے اس طرح بیان کیا ہے :

الْقِمَارَ هُوَ الَّذِی یسْتَوِی فِیهِ الْجَانِبَانِ فِی احْتِمَالِ الْغَرَامَةِ
”قمار وہ معاملہ ہے جس میں دونوں فریقین کو نقصان پہنچنے کا احتمال برابر ہو۔“ (حاشیة ابن عابدین، 6/ 403)

اس کو مثال کے ذریعہ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر ہندوستان میچ جیت گیا تو میں تمہیں ایک ہزار روپے دُوں گا، لیکن اگر ہندوستان میچ ہار گیا تو تم مجھے ایک ہزار روپے دوگے، یا دو افراد کوئی کھیل کھیلیں اور آپس میں یہ شرط لگادیں کہ جو شخص کھیل جیتے گا وہ دوسرے سے ایک متعین رقم وصول کرے گا، یہ قمار (جوا) ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور گیم جنگلی رمی جوئے پر مشتمل ہے جس کا کھیلنا اور اس کے ذریعے پیسہ کمانا جوئے میں شامل ہے جس کی حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے شیطانی کام سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور بقدر استطاعت دوسروں کو روکنے کی کوشش بھی کریں۔ نیز جن لوگوں نے اس کے ذریعے پیسے کمالیے ہیں تو اس کا استعمال ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس رقم کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے۔

نوٹ : اس کھیل کو بغیر پیسوں کے لین کے دین کے بھی نہیں کھیلنا چاہیے، کیونکہ اس میں دلچسپی ہی اس کے ناجائز پہلو کی طرف لے جائے گی۔

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ : ۴۳۴)

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت : ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل، رقم : ۶۵۱۱)
مستفاد : قمار کی حقیقت اور جدید صورتیں)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1444

پیر، 22 اگست، 2022

ماہواری کے ایام میں طالبات قرآن کیسے پڑھیں؟

سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! آج کل مکاتب میں زیر تعلیم بچیاں دوران تعلیم ہی بالغ ہوجاتی ہیں، اور ماہانہ عذر اکثر مدت کے اعتبار سے نو دس دن رہتا ہے۔ اس دوران سبق موقوف کردینے سے سبق کا نقصان تو اپنی جگہ،
بعض کمزور ذہن والی بچیاں اِن دس دنوں میں پڑھائی موقوف ہونے کے سبب بھول جاتی ہیں اور عذر ختم ہونے کے بعد دوبارہ اعادہ کرنے میں کچھ دن مزید ضائع ہوجاتے ہیں، اس طرح اُن بچیوں کے لئے تکمیلِ ناظرہ قرآن میں کافی طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔ تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا معلمات اُن بچیوں کو ایام عذر میں پارہ عم یا قرآن مجید کی آیات ٹکڑے ٹکڑے کرکے پڑھا سکتی ہیں؟ تاکہ بچیوں کی تعلیم کا نقصان کم سے کم ہو۔ ازراہ کرم مدلل جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ماہواری کے ایام میں قرآنِ مجید چھونا اور زبانی پڑھنا دونوں جائز نہیں ہے، البتہ قرآنِ مجید کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ معلمات طالبات کو قرآنی آیات مکمل نہ پڑھائیں، بلکہ ایک ایک لفظ الگ الگ کرکے پڑھائیں، مثلاً : الحمدُ۔۔۔ للہِ۔۔۔ ربِّ۔۔۔ العالمین، اس طرح پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

وَإِذَا حَاضَتْ الْمُعَلِّمَةُ فَيَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُعَلِّمَ الصِّبْيَانَ كَلِمَةً كَلِمَةً وَتَقْطَعُ بَيْنَ الْكَلِمَتَيْنِ، وَلَايُكْرَهُ لَهَا التَّهَجِّي بِالْقُرْآنِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 محرم الحرام 1444

اتوار، 21 اگست، 2022

اللہ لکھی ہوئی اشیاء کھانے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! اخبارات اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع ملتی رہتی ہے کہ فلاں جگہ آلو یا اور کسی کھانے کی چیز پر اللہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ ان اشیاء کا کیا کرنا چاہیے؟ کیا انہیں کھا سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شارق، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کبھی کبھار یہ بات سننے اور دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی سبزی مثلاً آلو وغیرہ پر اللہ یا محمد لکھا ہوا ملتا ہے۔ بلاشبہ یہ ممکن ہے۔ لیکن اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس چیز کو اکرام کی وجہ سے کھانا ناجائز ہوگا۔ ایسی اشیاء جو کھائی جانے والی ہو مثلاً سبزی پھل وغیرہ تو ان کا اسی طرح یا پھر پکا کر کھانا بلاتردد جائز اور درست ہے بلکہ یہ اشیاء کھانے والے کے لیے بابرکت ثابت ہوسکتی ہیں، لہٰذا انہیں کھالینا چاہیے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

أخْبَرَنا أبُو عَبْدِ الله السُّلَمِيُّ : فِي ذِكْرِ مَنصُورِ بْنِ عَمّارٍ وأنَّهُ أُوتِيَ الحِكْمَةَ، وقِيلَ: إنَّ سَبَبَ ذَلِكَ أنَّهُ وجَدَ رُقْعَةً فِي الطَّرِيقِ مَكْتُوبًا عَلَيْها بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَأخَذَها فَلَمْ يَجِدْ لَها مَوْضِعًا فَأكَلَها فَأُرِيَ فِيما يَرى النّائِمُ قائِلًا يَقُولُ لَهُ: قَدْ فَتَحَ اللهُ عَلَيْكَ بابُ الحِكْمَةِ بِاحْتِرامِكَ لِتِلْكَ الرُّقْعَةِ، وكانَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَكَلَّمُ بِالحِكْمَةِ۔ (شعب الایمان، رقم : ٢٤١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 محرم الحرام 1444 

منگل، 16 اگست، 2022

وضو کی حالت میں خون نکالا جائے تو؟

سوال :

مفتی محترم! بیماری کی جانچ کے لیے وضو کی حالت میں خون دینے سے کیا وضو باقی رہے گا؟ اگر نماز پڑھ لی گئی ہو تو کیا دوہرائی جائے گی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ابو سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جسم سے خون بہنے کی مقدار میں نکلا ہو اور ایسا شخص باوضو ہوتو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دار قطنی ؒ نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ بہتا ہوا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اگر خون بہنے کی مقدار میں نہ ہوتو وضو نہیں ٹوٹتا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیماری کی جانچ کے لیے خون نکالا گیا ہے اور یہ خون بہنے کی مقدار میں ہے جیسا کہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر اسی حالت میں دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھ لی گئی تو نماز بھی نہیں ہوئی، لہٰذا اس نماز کا اعادہ کیا جائے گا۔

حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ إسْماعِيلَ الفارِسِيُّ، نا مُوسى بْنُ عِيسى بْنِ المُنْذِرِ، نا أبِي، نا بَقِيَّةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ، قالَ : قالَ تَمِيمٌ الدّارِيُّ : قالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : الوُضُوءُ مِن كُلِّ دَمٍ سائِلٍ۔ (سنن دارقطنی، رقم : ٥٨١)

الْقُرَادُ إذَا مَصَّ عُضْوَ إنْسَانٍ فَامْتَلَأَ دَمًا إنْ كَانَ صَغِيرًا لَا يَنْقُضُ وُضُوءَهُ كَمَا لَوْ مَصَّتْ الذُّبَابُ أَوْ الْبَعُوضُ وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا يَنْقُضُ وَكَذَا الْعَلَقَةُ إذَا مَصَّتْ عُضْوَ إنْسَانٍ حَتَّى امْتَلَأَتْ مِنْ دَمِهِ انْتَقَضَ وُضُوءُهُ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1444

ہفتہ، 13 اگست، 2022

گھروں وغیرہ پر قومی (ترنگا) پرچم لہرانا

سوال :

مفتی صاحب صاحب ایک مہم چل رہی ہے کہ گھر گھر ترنگا لہرانا ہے۔ شریعت کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس مہم میں ساتھ دینا چاہیے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عارف، شری رامپور)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہر مُلک کا اپنا ایک پرچم اور جھنڈا ہوتا ہے۔ جو اس ملک اور اس کے باشندوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، جسے اس ملک کی آزادی یا کسی خاص موقع پر لہرایا جاتا ہے جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک اور اسلامی حکومتوں میں بھی یہ عمل انجام دیا جاتا ہے۔

ہندوستان کا قومی پرچم ترنگا ہے جو بلاشبہ ہر ہندوستانی کے نزدیک اہمیت اور محبوبیت رکھتا ہے۔ اس ترنگے پرچم میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی دین کا حصہ اور ثواب کا کام سمجھ کر کرتا ہے جس کی وجہ سے اس میں بدعت کا بھی کوئی شائبہ نہیں ہے۔ لہٰذا امسال یوم آزادی کے موقع پر اگر گھروں پر قومی پرچم لہرانے کی مہم چل رہی ہے تو مسلمانوں کا اس میں حصہ لینا اور اپنے گھروں پر ترنگا لہرانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي : ۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 محرم الحرام 1444

فرض نمازوں کے ترک پر مخصوص وعید کی تحقیق


سوال :

محترم مفتی صاحب! درج ذیل پوسٹ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہے۔
فجر : جو شخص جان بوجھ کر فجر کی نماز چھوڑ دیتا ہے تو اس کے چہرے سے صبح کا نور ہٹا دیا جاتا ہے۔
ظہر : جو شخص ظہر کی نماز جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو اس کے رزق میں سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
عصر : جو شخص عصر کی نماز جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو اس کے جسم کی طاقت کو سلب کر لیا جاتا ہے اور وہ ہر وقت بیمار رہتا ہے۔
مغرب : جو شخص مغرب کی نماز جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو اس کی اولاد نا فرمان ہو جاتی ہے۔
عشاء : جو شخص عشاء کی نماز جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو اس کو چین و سکون کی نیند نہیں آتی ہے۔
اس کی تحقیق ارسال فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کا ترک کردینا سنگین اور کبیرہ گناہ ہے، جس پر احادیث میں انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں کہ ایسا شخص کفر کے قریب چلا جاتا ہے، عنایاتِ خداوندی اور رحمت ربانی کا مستحق نہیں رہتا،  اللہ کی کرم فرمائی اس سے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔

لیکن سوال نامہ میں پانچوں وقت کی نمازوں کے ترک کرنے پر جو نقصانات بیان کیے گئے ہیں وہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا ان کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٣٤)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 محرم الحرام 1444