جمعرات، 25 اگست، 2022

جنگلی رمی کھیلنے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! موبائل پر ایک گیم ہے جو تاش کے پتوں کا کھیل ہوتا ہے جس کا نام جنگلی رمی ہے، اس میں ہار جیت پر پیسوں کا لین دین ہوتا ہے، آج کل نوجوان اسے بہت کھیل رہے ہیں اور اپنی حلال کمائی اس میں برباد کررہے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ اس کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں۔
(المستفتی : شکیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی بھی کھیل اگر پیسوں کے لین دین کی شرط پر کھیلا جائے مثلاً یہ طے ہوکہ ہارنے والا جیتنے والے کو اتنی اتنی رقم دے گا تو ایسا کرنا قمار اور جوے میں داخل ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

قمار عربی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کا دوسرا نام”میسر“ہے، اِسے اُردو میں ”جوا“ اور انگریزی میں ”Gambling“ کہتے ہیں۔

قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ ر قم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے ”قمار“ کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :

قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل : 3/358)

قمار کے مفہوم کو علامہ شامیؒ نے اس طرح بیان کیا ہے :

الْقِمَارَ هُوَ الَّذِی یسْتَوِی فِیهِ الْجَانِبَانِ فِی احْتِمَالِ الْغَرَامَةِ
”قمار وہ معاملہ ہے جس میں دونوں فریقین کو نقصان پہنچنے کا احتمال برابر ہو۔“ (حاشیة ابن عابدین، 6/ 403)

اس کو مثال کے ذریعہ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر ہندوستان میچ جیت گیا تو میں تمہیں ایک ہزار روپے دُوں گا، لیکن اگر ہندوستان میچ ہار گیا تو تم مجھے ایک ہزار روپے دوگے، یا دو افراد کوئی کھیل کھیلیں اور آپس میں یہ شرط لگادیں کہ جو شخص کھیل جیتے گا وہ دوسرے سے ایک متعین رقم وصول کرے گا، یہ قمار (جوا) ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور گیم جنگلی رمی جوئے پر مشتمل ہے جس کا کھیلنا اور اس کے ذریعے پیسہ کمانا جوئے میں شامل ہے جس کی حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے شیطانی کام سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور بقدر استطاعت دوسروں کو روکنے کی کوشش بھی کریں۔ نیز جن لوگوں نے اس کے ذریعے پیسے کمالیے ہیں تو اس کا استعمال ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس رقم کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے۔

نوٹ : اس کھیل کو بغیر پیسوں کے لین کے دین کے بھی نہیں کھیلنا چاہیے، کیونکہ اس میں دلچسپی ہی اس کے ناجائز پہلو کی طرف لے جائے گی۔

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ : ۴۳۴)

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت : ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل، رقم : ۶۵۱۱)
مستفاد : قمار کی حقیقت اور جدید صورتیں)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں