اتوار، 28 اگست، 2022

حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول بحیثیت نبی یا امتی؟

سوال :

مفتی صاحب میں نے کسی عالم کے بیان میں سنا کہ عیسی مسیح جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو نبی ہی رہیں گے جبکہ اس کے بر خلاف بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ عیسی علیہ السلام امّتی بن کر آئینگے۔ مہربانی کر کے مسئلہ واضح کردیں۔
(المستفتی : محمد جنید، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن و حدیث سے یہ بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ ہمارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم فرما دیا گیا ہے اب آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعوی کرے وہ بالاجماع جھوٹا ہے اور اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ البتہ دوسری طرف صحیح احادیث میں قیامت سے پہلے ایک نبی یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی خبر ملتی ہے، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول بحیثیتِ نبی جدید نہیں ہوگا، بلکہ ان کا نزول بحیثیتِ حاکم ہوگا اور وہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہوں گے اور اسی کے مطابق امت میں فیصلے فرمائیں گے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہوچکے ہیں، لہٰذا قربِ قیامت جب آپ علیہ السلام میں دجال کو قتل کرنے، صلیب توڑنے، خنزیر کو قتل کرنے اور جزیہ اٹھانے کے لیے تشریف لائیں گے، اس وقت بھی آپ نبی ہوں گے، کیونکہ ان کی نبوت سلب نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن یہ نبوت چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے پہلے حاصل ہوچکی ہے، اس لیے یہ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے، نہ ہی آپ علیہ السلام انجیل کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، بلکہ قرآنِ مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کے مطابق ہی فیصلے فرمائیں گے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ بحیثیت امتی تشریف لائیں گے اور شریعت محمدیہ پر عمل اور اسی کے مطابق فیصلے فرمائیں گے جب شریعت محمدیہ کے مطابق عمل اور حکم فرمائیں گے تو ان کے لیے جدید وحی کی ضرورت نہ ہوگی، اس لیے ان پر کوئی جدید وحی نازل نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 30051)

خلاصہ یہ کہ سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی بات بھی درست ہے اور آپ نے جو سنا ہے وہ بھی درست ہے۔ لیکن ان دونوں کو ایک ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف نبی یا صرف امتی کہا جائے گا تو غلط فہمی ہوگی۔ لہٰذا اس طرح کہنا چاہیے کہ قربِ قیامت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول ہوگا تو آپ اصلاً نبی ہی ہوں گے، اس لیے کہ آپ کی نبوت کو ختم نہیں کیا جائے گا، لیکن بحیثیت امتی اور امت محمدیہ کے حکمراں کے طور پر تشریف لائیں گے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اعزاز میں وقت کے امام کی اقتدا میں نماز بھی ادا فرمائیں گے۔

قال الله تعالٰی : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔ (سورۃ الأحزاب، آیت : ٤٠)

قال ابن كثير رحمه الله : أخبر تعالى في كتابه ، ورسوله في السنة المتواترة عنه : أنه لا نبي بعده ؛ ليعلموا أن كل مَنِ ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب أفاك، دجال ضال مضل، ولو تخرق وشعبذ، وأتى بأنواع السحر والطلاسم، فكلها محال وضلال عند أولي الألباب، كما أجرى الله سبحانه وتعالى على يد الأسود العَنْسي باليمن، ومسيلمة الكذاب باليمامة، من الأحوال الفاسدة والأقوال الباردة، ما علم كل ذي لب وفهم وحِجى أنهما كاذبان ضالان، لعنهما الله. وكذلك كل مدع لذلك إلى يوم القيامة حتى يختموا بالمسيح الدجال۔ (تفسير ابن كثير : ٤٣١-٦/٤٣٠)

عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔ (صحیح البخاری : ٣٤٥٥)

عن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَايَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔ (صحيح البخاری، رقم : ٢٢٢٢)

عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ قال : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لَاتَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. قَالَ : فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ : تَعَالَ صَلِّ لَنَا. فَيَقُولُ : لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ ، تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ۔ (صحیح المسلم : ١٥٦)

إنہ ینزل حاکمًا بہذہ الشریعة فإن ہذہ الشریعة باقیة لا تنسخ بل یکون حاکما من أحکام ہذہ الأمة، ولا یکون نزولہ من حیث أنینبي مستقل کما قد بعث في بني إسرائیل، وفیہ تنبیہ علی أنہ لا یأتي علی أنہ نبي وإن کان نبیًّا في الواقع (فتح الملہم : ۱/۳۰۰، کتاب الإیمان، باب نزول عیسی علیہ السلام)

عیسی علیہ السلام یتابع محمد صلی اللہ علیہ وسلم فیحکم علی شریعتہ، لأن شریعتہ قد نسخت فلا یکون الوحي إلیہ أي لتجدید الشرع ونصب أحکام جدیدة۔ (نبراس شرح، شرح العقائد : ۲۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1444

1 تبصرہ: