منگل، 2 اگست، 2022

قبروں کی ہری گھاس کاٹنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب بارش کے ایام شروع ہیں تو بارش کی وجہ سے قبر پر گھاس وغیرہ آگئی ہے تو اُس کا توڑنا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں توڑ دو تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مت توڑو۔ کیا گھاس کاٹنے سے مُردہ کو تکلیف ہوگی؟ وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حاشر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبروں پر اپنے آپ اُگنے والی گھاس جبکہ وہ ہری بھری ہوتو اس کا کاٹنا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ ترو تازہ اور ہری بھری گھاس اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے جس سے قوی امید ہے کہ میت کو کچھ نا کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہوگا۔ اس کے کاٹ دینے سے میت کو الگ سے کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی، لیکن اس کی تسبیح کی وجہ سے میت پر اللہ تعالیٰ کی جو رحمت ہورہی ہوگی اس سے میت محروم رہ جائے گی۔ البتہ اگر گھاس بہت بڑی ہوجائے جس کی وجہ سے قبروں کی زیارت اور تدفین کے لیے آنے والوں کو تکلیف کا سامنا ہو یا موذی جانوروں کا خطرہ ہوتو پھر بقدر ضرورت قبروں پر اگنے والی ہری گھاس كاٹنے میں كوئی حرج نہیں ہے۔ نیز قبروں کے علاوہ قبرستان میں راستوں وغیرہ پر اگنے والی ہری گھاس کو کاٹنے میں بھی شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

يُكْرَهُ أَيْضًا قَطْعُ النَّبَاتِ الرَّطْبِ وَالْحَشِيشِ مِنْ الْمَقْبَرَةِ دُونَ الْيَابِسِ كَمَا فِي الْبَحْرِ وَالدُّرَرِ وَشَرْحِ الْمُنْيَةِ وَعَلَّلَهُ فِي الْإِمْدَادِ بِأَنَّهُ مَا دَامَ رَطْبًا يُسَبِّحُ اللَّهَ - تَعَالَى - فَيُؤْنِسُ الْمَيِّتَ وَتَنْزِلُ بِذِكْرِهِ الرَّحْمَةُ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الْخَانِيَّةِ.
أَقُولُ: وَدَلِيلُهُ مَا وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ «مِنْ وَضْعِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - الْجَرِيدَةَ الْخَضْرَاءَ بَعْدَ شَقِّهَا نِصْفَيْنِ عَلَى الْقَبْرَيْنِ اللَّذَيْنِ يُعَذَّبَانِ» . وَتَعْلِيلُهُ بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا: أَيْ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا بِبَرَكَةِ تَسْبِيحِهِمَا؛ إذْ هُوَ أَكْمَلُ مِنْ تَسْبِيحِ الْيَابِسِ لِمَا فِي الْأَخْضَرِ مِنْ نَوْعِ حَيَاةٍ؛ وَعَلَيْهِ فَكَرَاهَةُ قَطْعِ ذَلِكَ، وَإِنْ نَبَتَ بِنَفْسِهِ وَلَمْ يَمْلِكْ لِأَنَّ فِيهِ تَفْوِيتَ حَقِّ الْمَيِّتِ۔ (شامی : ٢/٢٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 محرم الحرام 1444

3 تبصرے: