منگل، 31 دسمبر، 2019

مستقبل کے صیغہ سے طلاق کا حکم

*مستقبل کے صیغہ سے طلاق کا حکم*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! بعض مرتبہ عورت ناراض ہوکر اپنے میکے چلی جاتی ہے،(جس کو مالیگاؤں کی زبان میں غوصیا کر بیٹھنا بولتے ہیں) اور شوہر بھی طیش میں آکر یہ کہہ دیتا ہے کہ اب اسے طلاق دے دوں گا، کیا اس طرح سے طلاق واقع ہوگی؟ اور اگر ہوئی تو کونسی طلاق واقع ہوگی ؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اب اسے طلاق دے دوں گا یہ مستقبل کا صیغہ ہے۔ اور مستقبل کے صیغہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق ماضی یا حال کے صیغہ سے واقع ہوتی ہے، مثلاً کوئی کہے کہ میں نے طلاق دی یا میں طلاق دیتا ہوں۔

مستفاد : ہو رفع قید النکاح في الحال بالبائن أو الماٰل بالرجعي بلفظ مخصوص ہو ما اشتمل علی الطلاق۔ (الدر المختار علی ہامش الرد المحتار : ۴؍۴۲۴)

بخلاف قولہ: کنم لأنہ استقبال فلم یکن تحقیقاً بالتشکیک۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۳۸۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الآخر1441

اتوار، 29 دسمبر، 2019

حج سے پہلے عمرہ کرنے کا حکم

*حج سے پہلے عمرہ کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حج کرنے سے پہلے اگر کوئی عمرہ کرلے تو کیا اس پر حج کرنا فرض ہوجاتا ہے؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ حج فرض ہونے کے لیے کسی مخصوص نصاب کا مالک ہونا ضروری نہیں، بلکہ حج کے لیے جانے کی استطاعت ہونی چاہیے۔ اور استطاعت ہونے سے مراد یہ ہے کہ  حج کا سفرخرچ اور جن لوگوں  کی  کفالت اس شخص پرضروری ہے، سفر سے واپس آنے تک ان کے گذر بسر کا خرچ نکل سکے اتنے روپئے حج کے مہینوں  میں یا  حجاج کے قافلے حج کے لئے جن دنوں میں جاتے ہیں ان دنوں میں مذکورہ خرچ پاس میں موجود ہو تب  حج  فرض ہو گا۔ چنانچہ اگر عمرہ اور حج کے اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حج کے اخراجات عمرہ سے کئی گنا زیادہ ہیں، لہٰذا اگر کسی پر حج فرض نہیں ہوا ہے، لیکن اس کے پاس عمرہ کرنے کی استطاعت ہے تو اس کا حج سے قبل عمرہ کرنا بلا کراہت جائز اور درست ہے، نیز عمرہ کے لئے حج کی تقدیم شرط نہیں ہے، بلکہ جب چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ (سورہ آلِ عمران : ۹۷)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : " الزَّادُ، وَالرَّاحِلَةُ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۸۱۳)

الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا علی الزاد والراحلۃ فاضلا عن المسکن وما لابد منہ، وعن نفقۃ عیالہ إلی حین عودہ۔ الخ (ہدایۃ، کتاب الحج، أشرفیہ دیوبند ۱/ ۲۳۱-۲۳۳)

العمرۃ في العمر مرۃ سنۃ مؤکدۃ، وتحتہ في الشامیۃ: وأنہا لا وقت لہا معین۔ (درمختار مع الشامیۃ، کتاب الحج، مطلب أحکام العمرۃ، زکریا ۳/ ۴۷۵-۴۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1441

ہفتہ، 28 دسمبر، 2019

فون پر دی گئی دو طلاق کا حکم

*فون پر دی گئی دو طلاق کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو فون پر دو مرتبہ طلاق کہہ دی تو کیا حکم ہے کیا اسکو نکاح پھر سے پڑھانا پڑیگا یا صرف رجوع کر لینا کافی ہو جائے گا برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شیخ سالم، اورنگ آباد)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فون پر دی گئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاق دی ہے یہ طلاق رجعی ہوئی، اس کا حکم یہ ہے کہ عدت (تین ماہواری) گذرنے سے پہلے پہلے شوہر کو رجعت کا حق حاصل ہوگا، جس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کر لیا یا وہ معاملہ کرے جو شوہر اور بیوی کے ساتھ مخصوص ہے، ایسا کرنے یا کہنے سے نکاح قائم رہے گا، دوبارہ نکاح کی حاجت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہوگئی تو نئے مہر کے ساتھ بیوی کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ ان دونوں صورتوں میں زید کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا، اگر اس شخص نے اسکا بھی استعمال کرلیا تو بغیر شرعی حلالہ کے اس کی بیوی زید کے لئے حلال نہیں ہوگی۔

وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک أولم ترض۔ (الہدایۃ : ۲؍۳۹۴) 

وَالطَّلَاقُ بَعْدَ الدُّخُولِ يَعْقُبُ الرَّجْعَةَ وَيُوجِبُ كَمَالَ الْمَهْرِ فَيَجِبُ عَلَيْهِ الْمُسَمَّى فِي النِّكَاحِ الثَّانِي فَيَجْتَمِعُ عَلَيْهِ مَهْرَانِ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب النکاح، ١/۳٢٣)

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ۔ (سورۃ بقرہ، آیت ٢٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الآخر 1441

جمعرات، 26 دسمبر، 2019

درودِ تنجینا کا حکم

*درودِ تنجینا کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ درود تنجینا "اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَا ۃً تُنْجِیْنَا بِہَا مِنْ جَمِیْعِ الْأَہْوَالِ وَالآفَاتِ، وَتَقْضِیْ لَنَا بِہَا جَمِیْعَ الْحَاجَاتِ، وَتُطَہِّرُنَا بِہَا مِنْ جَمِیْعِ السَّیِّئَاتِ، وَتَرْفَعُنَا بِہَا عِنْدَکَ أَعْلَی الدَّرَجَاتِ، وَتُبَلِّغُنَا بِہَا أَقْصَی الْغَایَاتِ مِنْ جَمِیْعِ الْخَیْرَاتِ، فِیْ الْحَیٰوۃِ وَبَعْدَ الْمَمَاتِ، إِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ "
حدیث شریف سے ثابت ہے؟ اور اس کا پڑھنا کیسا ہے؟
(المستفتی : حافظ عرفان، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : درود تنجینا کے الفاظ حدیث شریف سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ مشہور ادیب اور مؤرخ عبدالرحمن الصفوری الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب" نزھۃ المجالس" میں اس درود کو ذکر فرمایا ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ لکھا ہے کہ کسی اللہ والے کو سمندری سفر پیش آیا  کہ سخت طوفان شروع ہوگیا اور سب غرق ہونے کو تھے کہ ان کو نیند کا جھونکا آیا اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سواروں سے کہو! کہ یہ "درود تنجینا" پڑھیں۔ چنانچہ ان کی آنکھ کھلی، پھر تمام لوگوں نے مذکورہ درود پڑھا۔ اللہ کے حکم سے طوفان تھم گیا۔ (نزھۃ المجالس ومنتخب النفائس : 2/86)

اس واقعہ کی تصدیق و تکذیب کے بجائے صرف اس درود کے الفاظ پر غور کرلیا جائے تو اس کی شرعی حیثیت واضح ہوجائے گی، اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے تاکہ آپ بھی اس کے معنی کو سمجھ لیں۔
اے اللہ! رحمت نازل فرمائیے سیدنا حضرت محمد پر، ایسی رحمت کہ آپ اس کی برکت سے ہمیں تمام ہولناکیوں اور آفتوں سے نجات عطا فرمائیں اور اس کی برکت سے آپ ہماری تمام حاجتیں پوری فرمادیں، اور اس کی برکت سے آپ ہمیں تمام برائیوں اور گناہوں سے پاک کردیں، اور اس کی برکت سے آپ ہمیں اپنے پاس اعلیٰ درجات عطا فرمائیں، اور اس کی برکت سے آپ ہمیں تمام بھلائیوں کی آخری حدوں تک پہنچادیں، دنیا کی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی، بلاشبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔

معلوم ہوا کہ درودِ تنجینا کے الفاظ درست ہیں، معنی کے اعتبار سے اس میں کوئی شرکیہ کلمہ یا خلافِ شرع کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا اسے پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں جو  درود شریف  کے الفاظ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول وماثور ہیں، وہ بلاشبہ بقیہ تمام درود کے صیغوں سے افضل ہیں۔

إن الأفضل والأولی والأکثر ثواباً والأجزل جزائً وأرضاہا عند اللّٰہ ورسولہ ا ہي الصیغۃ الماثورۃ، ویحصل ثواب الصلاۃ والتسلیم بغیرہا أیضاً بشرط أن یکون فیہا طلب الصلاۃ والرحمۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اللّٰہ عزوجل۔ (أحکام القرآن ۵؍۳۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الآخر 1441

بدھ، 25 دسمبر، 2019

جمعہ کے دن نفل روزہ رکھنے کا حکم

*جمعہ کے دن نفل روزہ رکھنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! کیا نفل روزہ صرف جمعہ کے روز رکھ سکتے ہیں؟ ایسا مشہور ہیکہ نفل ایک روزہ جمعہ کے دن نہیں رکھ سکتے، بلکہ آگے یا پیچھے ایک دن ملا کر رکھنا چاہئے،  ازراہ کرم رہنمائی فرما دیں۔
(المستفتی : مجاہد اقبال، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تنہا جمعہ کے دن خالص نفل روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص  جمعہ  کے  دن  روزہ  نہ رکھے ہاں اس طرح رکھ سکتا ہے کہ اس سے ایک  دن  پہلے یا ایک  دن  بعد بھی  روزہ  رکھے۔

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ صرف  جمعہ کے دن نفل روزہ نہ رکھے بلکہ جمعہ کے  روزہ کے  ساتھ جمعرات یا سنیچر  کے دن بھی  روزہ  رکھ لے، البتہ جن نفل روزوں کے بارے میں احادیث میں حکم، فضیلت یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل وارد ہوا ہے، مثلاً عرفہ، شوال کے چھ روزے، ایام بیض، عاشوراء وغیرہ کے روزے اگر جمعہ کے دن آجائیں تو صرف جمعہ کو بھی روزہ رکھ سکتے ہیں، کوئی کراہت نہ ہوگی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَصُومُ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ، أَوْ يَصُومَ بَعْدَهُ۔ (صحیح مسلم، رقم ١١٤٤،سنن الترمذی، رقم : ٧٤٣)

وفي معنی المستثنی : ما وافق سنۃ مؤکدۃ کما إذا کان السبت یوم عرفۃ أو عاشوراء للأحادیث الصحاح التي وردت فیہا واتفق الجمہور علی أن ہذا النہي ونہي إفراد الجمعۃ لکراہتہ تنزیہ لا تحریم۔ (۱/۱۵۷، رقم الحاشیۃ :۴ نفع قوت المغتذي، حاشیۃ الترمذي)

حیث لا یکرہ إذا کان وافق یوما اعتادہ أو ضم إلیہ یومًا قبلہ، أو لم یقصد بہ رمضان فیظہر حینئذ وجہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام : إلا أن یصوم یومًا قبلہ أو بعدہ أو یکون في صوم یصومہ أحدکم۔ (۴/۴۸۳ ، کتاب الصوم ، باب صیام التطوع ، الفصل الأول، مرقاۃ المفاتیح)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ربیع الآخر 1441

منگل، 24 دسمبر، 2019

تین طلاق کے بعد نکاح کی صورت

*تین طلاق کے بعد نکاح کی صورت*

سوال :

امید کرتے ہیکہ آپ بخیر ہی ہونگے۔
مسئلہ یہ ہے محمد چاند نے اپنی بیوی گڑیا خاتون کو کسی نااتفاقی کے وجہ سے جذبات میں لفظِ طلاق طلاق طلاق تین مرتبہ کہہ دیا اور اس کے بعد محمدچاند صاحب نے اپنی والدہ کو فون کرکے بولا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیدیا ہوں طلاق دیتے وقت چاند کے والد محمد کفیل صاحب بھی موجود تھے، اسکے بعد وہ اپنی بیوی گڑیا کو مقدار مہر اور سارے سامان کے ساتھ رخصت کردیا گیا
انکے نطفہ سے ایک اولاد بھی تھا جس کو گڑیا کے پاس اس بنا پر رکھا کہ دو سال کے بعد مجھے بچہ چاہئے جو اسٹام پیپر کے ذریعے رکھا گیا اور دوسال کے وقت پر بچہ بھی لے لیاگیا اب بچہ کی جدائی کی وجہ سے گڑیا اپنے شوہر کے پاس دوبارہ آنا چاہتی ہے۔
لیکن اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ
کیا وہ بغیر کسی دوسرے مرد سے نکاح کئے اپنے شوہر سے نکاح ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا عیب سمجھ رہی ہے۔
اگر بغیر کسی دوسرے مرد سے نکاح کئے اگر وہ اپنے شوہر سے نکاح کرے تو کیا کروانے میں بھی کوئی گناہگار ہوگا یا نہیں؟ اس کا شریعت کے رو سے کیا ہونا چاہئے مسئلہ کیا کہتا ہے وضاحت سے اسکا کیا حل ہوسکتا ہے جواب دیجئےگا بڑی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : محمد افتخار اشاعتی)
-------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تین  طلاق  کے  بعد  میاں بیوی کا رشتہ بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب تک گڑیا خاتون دوسرا نکاح نہ کرلے اور دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرے اس کے بعد کسی وجہ سے طلاق دے دے یا پھر انتقال کرجائے اس کے بعد وہ عدت گذار کر اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔

حلالۂ شرعیہ کے بغیر اگر گڑیا خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے کردیا گیا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ حلالہ کی وہ شکل جو منصوبہ بند طریقہ پر ہو حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت کا موجب ہے۔ لہٰذا گڑیا خاتون کا اسے عیب سمجھنا اچھی بات ہے۔ اسے دوبارہ پہلے شوہر کے پاس جانے کی خواہش ترک کردینا چاہیے۔ اور اس ملعون کام سے اجتناب لازم ہے۔ نیز جو لوگ اس ملعون عمل میں معاون بنیں گے سب کے سب گناہ گار ہوں گے۔

اس مسئلے کا جائز اور فوری حل کچھ بھی نہیں ہے۔ محمد چاند اور گڑیا خاتون کے نکاح کی صورت یہی ہے کہ درج ذیل طریقے (جسے حلالۂ شرعیہ کہا جاتا ہے) کے مطابق صورت پیش آجائے۔

شرعی حلالہ کی صورت یہ ہے کہ عورت طلاق کی عدت گذار ے، طلا ق کی عدت یہ ہے کہ اگر عورت کو حیض آتا ہوتو اس کو تین حیض آجائیں، تین حیض چاہے جتنے دنوں میں آئیں تین مہینے میں آئیں یا اس سے کم مدت میں یا اس سے زیادہ مدت میں، تین حیض ہی سے عدت پوری ہوگی، اگر تین حیض آنے سے پہلے عورت نکاح کرے گی تو نکاح صحیح نہ ہوگا اور شرعی حلالہ بھی نہ ہوگا، اور اگر بڑی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے، اور اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہوگی، عورت کی جیسی بھی حالت ہو اس کے مطابق عدت گذارکر عورت بغیر کسی شرط کے کسی سے نکاح کرے، اور وہ شخص اس کے ساتھ رہے صحبت بھی کرے (صحبت کرنا شرط ہے) اس کے بعد اس کا انتقال ہوجائے تو وفات کی عدت پوری کرکے (وفات کی عدت یہ ہے، حمل نہ ہوتو چار مہینے دس دن، حمل ہو تو وضع حمل ہوجائے ) یا نباہ نہ ہونے کی صورت میں اپنی مرضی سے طلا ق دے دے تو اوپر درج شدہ طریقہ کے مطابق طلاق کی عدت گذار کر پھر کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے، پہلا شوہر نکاح کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے کہ حلالہ کی صورت عمل میں آچکی ہے، اسی صورت کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ٢٣٠)
ترجمہ : پھر اگر اس عورت کو طلاق دی (یعنی تیسری بار) تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرلے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے لیے۔

عن عائشۃؓ أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلی اللہ علیہ وسلم، أ تحل للأول؟ قال: لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الأول۔ (صحیح البخاري، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، النسخۃ الہندیۃ۲/۷۹۱، رقم: ۵۰۶۲)

وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہٗ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۱/۵۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الآخر 1441

پیر، 23 دسمبر، 2019

قالین، گادی وغیرہ کو پاک کرنے کا طریقہ

*قالین، گادی وغیرہ کو پاک کرنے کا طریقہ*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کہ قالین پر بچہ پیشاب کردے تو اسے کس طرح پاک کیا جائے؟
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قالین، گادی وغیرہ جسے بِھگونے کے بعد نچوڑا نہ جاسکے وہ اگر ناپاک ہوجائے، تو اس کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس پر اتنا پانی ڈالا جائے کہ پانی نیچے سے ٹپکنے لگے، ہر مرتبہ پانی ڈال کر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ اس سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے، (پوری طرح سوکھنا ضروری نہیں) تین مرتبہ ایسا کرنے سے قالین، گادی وغیرہ پاک ہوجائے گی۔

وما لا ینعصر یطہر بالغسل ثلاث مراتٍ والتجفیف فی کل مرۃ؛ لأن للتجفیف أثراً فی استخراج النجاسۃ۔ وحد التجفیف أن یخلیہ حتی ینقطع التقاطر ولا یشترط فیہ الیبس، ہٰکذا فی محیط السرخسی۔ (الفتاویٰ الہندیۃ،۱؍۴۲)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1441

اتوار، 22 دسمبر، 2019

خواتین کے لیے نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا حکم

*خواتین کے لیے نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ خواتین فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتی ہیں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ ساجد، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے یہاں مخصوص حالات میں قنوتِ نازلہ نمازِ فجر کی جماعت کے ساتھ خاص ہے۔ منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے قنوتِ نازلہ مشروع نہیں ہے۔ چونکہ خواتین کے لیے باجماعت نماز پڑھنا سنت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے لیے نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا مسنون نہیں ہے۔ البتہ نفل نماز کے سجدہ اور قعدہ میں درود شریف کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھ سکتی ہیں، نیز نماز کے بعد دعا میں بھی اس کا اہتمام کرلیا کریں۔

قال ابن عابدین : وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو جَعْفَرٍ الطَّحَاوِیُّ: إنَّمَا لَا یَقْنُتُ عِنْدَنَا فِی صَلَاةِ الْفَجْرِ مِنْ غَیْرِ بَلِیَّةٍ، فَإِنْ وَقَعَتْ فِتْنَةٌ أَوْ بَلِیَّةٌ فَلَا بَأْسَ بِہِ، فَعَلَہُ رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَظَاہِرُ تَقْیِیدِہِمْ بِالْإِمَامِ أَنَّہُ لَا یَقْنُتُ الْمُنْفَرِد۔( شامی: ۱۱/۲، باب الوتر والنوافل، بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1441

ہفتہ، 21 دسمبر، 2019

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ

*نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ*

سوال :

حضرت مفتی صاحب! امید کرتا ہوں کہ خیریت و عافیت سے ہونگے۔ مسئلہ کچھ اس طرح ہے کہ کوئی بالغ لڑکا یہ کہے کہ میری شادی جس لڑکی سے بھی ہوگی اسے نکاح ہوتے ہی تین طلاق، تو کیا ایسے الفاظ سے طلاق واقع یا نہیں؟ مکمل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
---------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں چونکہ اس لڑکے نے "تین طلاق" کے الفاظ کہے ہیں، لہٰذا جیسے ہی اس کا نکاح ہوگا اس کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ اور بغیر خلوتِ صحیحہ کے طلاق ہوجانے کی صورت میں بیوی پر عدت گذارنا لازم نہ ہوگا۔ اور وہ نصف مہر کی حقدار ہوگی۔ نیز بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ اس سے نکاح درست نہ ہوگا۔

البتہ اگر اس نے تین  طلاق متفرق تین لفظوں سے دی ہو  مثلاً اس نے کہا ہو کہ میری شادی جس لڑکی سے بھی ہوگی اسے نکاح ہوتے ہی ’’ طلاق ، طلاق، طلاق‘‘ تو اس طرح  کہنے  سے پہلی ہی طلاق سے وہ فوراً مطلقہ بائنہ ہوکر اس کے نکاح  سے بالکلیہ  خارج ہوجائے گی، چونکہ اس پر عدت واجب نہیں ہوتی اس لیے وہ محل  طلاق باقی نہیں رہے گی، لہٰذا اس کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ یکے بعد دیگرے جو  طلاق  دی گئی ہیں، وہ شرعی طور پر واقع نہیں ہوں گی، بلکہ لغو اور بے فائدہ ہوجائیں گی، اس صورت میں چونکہ صرف ایک طلاقِ  بائن واقع ہوئی،  طلاق  مغلظہ واقع نہیں ہوئی، لہٰذا بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا  قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق وكذا إذا قال أنت طالق واحدة وواحدة وقعت واحدة كذا في الهداية۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، ۳۷۳/۱)

لا یجب علیہا العدۃ، وکذا لو طلّقہا قبل الخلوۃ۔ (خانیۃ علی الہندیۃ، ۱؍۵۴۹/بحوالہ کتاب النوازل)

وإن طلقہا قبل الدخول بہا، والخلوۃ، فلہا نصف المسمیٰ؛ لقولہ تعالیٰ: وان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن۔الآیۃ (ہدایۃ، کتاب النکاح، باب المہر، اشرفي دیوبند۲/۳۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1441

جمعہ، 20 دسمبر، 2019

نکاح کے دن دولہے کا قبرستان جانا اور رات سے پہلے گھر میں نہ جانا

*نکاح کے دن دولہے کا قبرستان جانا اور رات سے پہلے گھر میں نہ جانا*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ نکاح والے دن دولہا قبرستان کیوں جاتا ہے؟ اور قبرستان سے واپس آنے کے بعد کیا گھر میں داخل نہیں ہوسکتے؟ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ نکاح والے دن گھر سے باہر نکلنے پر ڈائریکٹ رات میں ہی کمرے میں داخل ہوتے ہیں اس سے پہلے گھر نہیں جاتے کیا یہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : احتشام حسین، نیااسلامپورہ، مالیگاؤں)
--------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبروں کی زیارت اور مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے کسی بھی وقت قبرستان جانا جائز اور درست ہے۔ لیکن نکاح کے دن قبرستان جانے کا کوئی حکم یا فضیلت قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی نکاح کے دن قبرستان جانے کو دین کا حصہ اور نکاح کے ارکان میں سے نہ سمجھتے ہوئے اگر چلا جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ عوام الناس کا سختی سے اس پر عمل پیرا ہونا یہی واضح کرتا ہے کہ وہ نکاح کے دن قبرستان جانے کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتے ہوئے جائے تو بلاشبہ اس کا یہ عمل دین میں زیادتی اور بدعت کہلائے گا۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

نکاح کے دن کسی بھی وقت گھر میں آنے جانے کی شرعاً کوئی ممانعت یا پابندی نہیں ہے۔ سوال نامہ میں مذکور صاحب کا قول بلادلیل اور جہالت پر مبنی ہے۔ اچھے انداز میں ان کی اصلاح کردی جائے۔

عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا، فإنہا تزہد في الدنیا وتذکر الآخرۃ۔ (سنن ابن ماجۃ، الجنائز / باب ما جاء في زیارۃ القبور رقم: ۱۵۷۱)

ولایکرہ الدفن لیلاً ولہ إجلاس القارئین عند القبر وہو المختار، وفی الشامیۃ : ولایکرہ الجلوس للقراءۃ علی القبر فی المختار۔ (الدر مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب في وضع الجرید ونحو الآس علی القبور، ۳/۱۵۵، ۱۵۶)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم: ۲۶۹۷)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الآخر 1441

بدھ، 18 دسمبر، 2019

فجر کے علاوہ کسی اور نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھنا

*فجر کے علاوہ کسی اور نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا جمعہ کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں؟ اگر کسی نماز فجر کے علاوہ کسی اور نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھ دی تو اس نماز کا کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : شمس العارفین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سخت ترین مصائب و حالات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت ہے۔ حنفیہ میں امام طحاوی وغیرہ محققین علماء کے  نزدیک صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے اٹھ کر امام کے لیے قنوتِ نازلہ پڑھنے کی اجازت ہے دوسری کسی جہری، سری یا جمعہ وغیرہ کی نماز میں قنوتِ نازلہ احناف کے نزدیک مشروع نہیں ہے۔ شوافع کے یہاں جن روایات سے فجر کی نماز کے علاوہ دیگر نمازوں میں قنوتِ نازلہ کی مشروعیت پر استدلال کیا جاتا ہے وہ روایات ہمارے یہاں منسوخ مانی جاتی ہیں۔ تاہم اگر کسی نے فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھ دی تو یہ عمل تو مکروہ ہوگا، لیکن نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال : قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہراً بعد الرکوع في صلاۃ الصبح، یدعو علی رعل وذکوان، ویقول : عصیۃ عصیت اللّٰہ ورسولہ۔ (صحیح البخاري رقم : ۴۰۹۴/صحیح مسلم رقم : ۶۷۷)

وَأَمَّا الْقُنُوتُ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا لِلنَّوَازِلِ فَلَمْ يَقُلْ بِهِ إلَّا الشَّافِعِيُّ، وَكَأَنَّهُمْ حَمَلُوا مَا رُوِيَ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَنَّهُ قَنَتَ فِي الظُّهْرِ وَالْعِشَاءِ» كَمَا فِي مُسْلِمٍ، وَأَنَّهُ «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ» أَيْضًا كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ عَلَى النُّسَخِ لِعَدَمِ وُرُودِ الْمُوَاظَبَةِ وَالتَّكْرَارِ الْوَارِدَيْنِ فِي الْفَجْرِ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ۔ (شامي : ٢/١١)

قال الحافظ أبوجعفر الطحاوي : لایقنت عندنا في صلاة الفجر من غیر بلیة، فإن وقعت فتنة أو بلیة فلا بأس بہ، وأما القنوت في الصلوات کلہا للنوازل، فلم یقل بہ إلا الشافعی، وکأنہم حملوا ماروی عنہ علیہ السلام، أنہ قنت في الظہر والعشاء کما فی مسلم“، وأنہ قنت فی المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم وردد المواظبة التکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاة والسلام۔ (شرح المنیة : ۳۶۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الآخر 1441