*تین طلاق کے بعد نکاح کی صورت*
سوال :
امید کرتے ہیکہ آپ بخیر ہی ہونگے۔
مسئلہ یہ ہے محمد چاند نے اپنی بیوی گڑیا خاتون کو کسی نااتفاقی کے وجہ سے جذبات میں لفظِ طلاق طلاق طلاق تین مرتبہ کہہ دیا اور اس کے بعد محمدچاند صاحب نے اپنی والدہ کو فون کرکے بولا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیدیا ہوں طلاق دیتے وقت چاند کے والد محمد کفیل صاحب بھی موجود تھے، اسکے بعد وہ اپنی بیوی گڑیا کو مقدار مہر اور سارے سامان کے ساتھ رخصت کردیا گیا
انکے نطفہ سے ایک اولاد بھی تھا جس کو گڑیا کے پاس اس بنا پر رکھا کہ دو سال کے بعد مجھے بچہ چاہئے جو اسٹام پیپر کے ذریعے رکھا گیا اور دوسال کے وقت پر بچہ بھی لے لیاگیا اب بچہ کی جدائی کی وجہ سے گڑیا اپنے شوہر کے پاس دوبارہ آنا چاہتی ہے۔
لیکن اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ
کیا وہ بغیر کسی دوسرے مرد سے نکاح کئے اپنے شوہر سے نکاح ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا عیب سمجھ رہی ہے۔
اگر بغیر کسی دوسرے مرد سے نکاح کئے اگر وہ اپنے شوہر سے نکاح کرے تو کیا کروانے میں بھی کوئی گناہگار ہوگا یا نہیں؟ اس کا شریعت کے رو سے کیا ہونا چاہئے مسئلہ کیا کہتا ہے وضاحت سے اسکا کیا حل ہوسکتا ہے جواب دیجئےگا بڑی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : محمد افتخار اشاعتی)
-------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تین طلاق کے بعد میاں بیوی کا رشتہ بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب تک گڑیا خاتون دوسرا نکاح نہ کرلے اور دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرے اس کے بعد کسی وجہ سے طلاق دے دے یا پھر انتقال کرجائے اس کے بعد وہ عدت گذار کر اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔
حلالۂ شرعیہ کے بغیر اگر گڑیا خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے کردیا گیا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ حلالہ کی وہ شکل جو منصوبہ بند طریقہ پر ہو حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت کا موجب ہے۔ لہٰذا گڑیا خاتون کا اسے عیب سمجھنا اچھی بات ہے۔ اسے دوبارہ پہلے شوہر کے پاس جانے کی خواہش ترک کردینا چاہیے۔ اور اس ملعون کام سے اجتناب لازم ہے۔ نیز جو لوگ اس ملعون عمل میں معاون بنیں گے سب کے سب گناہ گار ہوں گے۔
اس مسئلے کا جائز اور فوری حل کچھ بھی نہیں ہے۔ محمد چاند اور گڑیا خاتون کے نکاح کی صورت یہی ہے کہ درج ذیل طریقے (جسے حلالۂ شرعیہ کہا جاتا ہے) کے مطابق صورت پیش آجائے۔
شرعی حلالہ کی صورت یہ ہے کہ عورت طلاق کی عدت گذار ے، طلا ق کی عدت یہ ہے کہ اگر عورت کو حیض آتا ہوتو اس کو تین حیض آجائیں، تین حیض چاہے جتنے دنوں میں آئیں تین مہینے میں آئیں یا اس سے کم مدت میں یا اس سے زیادہ مدت میں، تین حیض ہی سے عدت پوری ہوگی، اگر تین حیض آنے سے پہلے عورت نکاح کرے گی تو نکاح صحیح نہ ہوگا اور شرعی حلالہ بھی نہ ہوگا، اور اگر بڑی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے، اور اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہوگی، عورت کی جیسی بھی حالت ہو اس کے مطابق عدت گذارکر عورت بغیر کسی شرط کے کسی سے نکاح کرے، اور وہ شخص اس کے ساتھ رہے صحبت بھی کرے (صحبت کرنا شرط ہے) اس کے بعد اس کا انتقال ہوجائے تو وفات کی عدت پوری کرکے (وفات کی عدت یہ ہے، حمل نہ ہوتو چار مہینے دس دن، حمل ہو تو وضع حمل ہوجائے ) یا نباہ نہ ہونے کی صورت میں اپنی مرضی سے طلا ق دے دے تو اوپر درج شدہ طریقہ کے مطابق طلاق کی عدت گذار کر پھر کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے، پہلا شوہر نکاح کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے کہ حلالہ کی صورت عمل میں آچکی ہے، اسی صورت کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ٢٣٠)
ترجمہ : پھر اگر اس عورت کو طلاق دی (یعنی تیسری بار) تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرلے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے لیے۔
عن عائشۃؓ أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلی اللہ علیہ وسلم، أ تحل للأول؟ قال: لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الأول۔ (صحیح البخاري، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، النسخۃ الہندیۃ۲/۷۹۱، رقم: ۵۰۶۲)
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہٗ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۱/۵۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الآخر 1441