پیر، 16 دسمبر، 2019

آزادی کی ایک جنگ ابھی اور لڑیں گے

*آزادی کی ایک جنگ ابھی اور لڑیں گے*

✍محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! شہریت ترمیمی نامی منحوس بِل جس وقت لوک سبھا میں پیش کیا گیا اسی وقت سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا پھر جب اِس ظالمانہ بل کے لیے راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل کرکے صدرجمہوریہ کے دستخط بھی لے لیے گئے تو اس کے بعد اس کی حیثیت ایک بِل کی نہیں رہی بلکہ یہ ایک ایکٹ اور قانون کی شکل اختیار کرگیا۔ چنانچہ جیسے ہی آئینِ ہند کی دھجیاں اڑانے والا یہ بِل پاس ہوا دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہندوستان اس احتجاج کی لپیٹ میں آگیا، اور ہندوستان کا ہر انصاف پسند شہری اس کالے قانون کا مخالف نظر آیا۔ سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ غیرسیاسی تنظیموں، یہاں تک کہ عصری تعلیم گاہوں کے طلباء و طالبات نے ایسا مؤثر اور بے مثال احتجاج کیا کہ تاریخ رقم کردی، اس کے بعد ان معصوم اور نہتے طلباء وطالبات پر ظلم و بربریت کا ایسا پہاڑ توڑا گیا جس کی ویڈیوز دیکھ کر اور رُوداد پڑھ کر آنکھیں بھر آنے لگیں، خون رَگوں میں ابلنے لگا اور کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ اور دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس پورے قضیہ نامرضیہ پر کچھ نہ کچھ لکھ کر لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

محترم قارئین ! اس قضیہ میں کچھ اعتراضات مدارس کے طلباء اور مذہبی قائدین پر بھی ہوئے، ان اعتراضات اور تنقیدوں کا جواب یہ ہے کہ فوری طور پر مذہبی قائدین کا اس سلسلے میں پیش قدمی کرنا اس مسئلے کو ایک خاص رنگ دے سکتا ہے۔ اورنیشنل نیوز پر بھی یہی کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج ہورہا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس احتجاج میں برادرانِ وطن بھی برابر کے شریک ہیں، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے انصاف پسند شہریان کو ساتھ لے کر احتجاج کیا جائے کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، بلکہ یہ معاملہ آئینِ ہند میں ترمیم کا ہے جو ہر ہندوستانی کا مسئلہ ہے۔ نیز احتجاج کے پہلے ہی مرحلہ میں پوری طاقت جھونک دینا کون سی عقلمندی کی بات ہے؟ ہمارے قائدین الحمدللہ بابصیرت ہیں، اس لئے احتجاج کو زیادہ دور تک لے جانے اور کامیاب بنانے کے لیے منظم لائحۂ عمل کی ضرورت ہوگی، جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرلینا غیرمؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا غیرمعروف، نئے نویلے اور جذباتی سوشل میڈیائی مفکرین کے مضامین سے متاثر نہ ہوں، بلکہ اپنے علاقے کے معتبر علماء کرام کی رہنمائی میں حکومت کی نااہلی، ہٹلر شاہی اور ظالمانہ رویے کے خلاف آئینِ ہند کی رُو سے جو بھی ہوسکے کریں۔ شہر کے علماء کرام و عمائدین شہر کا اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس میں دامے، درمے قدمے سخنے شریک ہوں۔ اور یہ طے کرلیں کہ

ہم ظلم کریں گے نہ کبھی ظلم سہیں گے
آزادی کی ایک جنگ ابھی اور لڑیں گے

معزز قارئین! ان سب کے ساتھ رجوع الی اللہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ یہی اصل کامیابی ہے۔ کیونکہ رب راضی تو سب راضی، ورنہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے ساتھ دنیا میں بظاہر کامیابی مل بھی جائے تو یہ کامیابی نہیں، بلکہ ڈِھیل ہوگی۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے۔ احتجاج میں شریک افراد کی قربانیوں کو قبول فرماکر مقصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ اور ظالموں کے حق میں ہدایت نہ ہو تو جلد از جلد انہیں عبرت کا نشان بنادے۔ آمین یا مجیب المضطرین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں