جمعرات، 30 جنوری، 2020

بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح کے لئے اولاد کا منع کرنا اور سوتیلی والدہ کے ساتھ بدسلوکی کرنا

*بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح کے لئے اولاد کا منع کرنا اور سوتیلی والدہ کے ساتھ بدسلوکی کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کی عمر ساٹھ سال ہے، پچپن سال کی عمر میں اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، چونکہ انسانی ضرورت کے تحت اس نے دو سال کے بعد دوسرا نکاح کرلیا، دوسرا نکاح کرنے کے لیے بھی بچوں نے منع کیا اور کہا کہ کیا ضرورت ہے اس عمر میں نکاح کرنے کی؟ پھر جب زید نے نکاح کرلیا تو زید کی بیوی کو بچوں نے والدہ کا مرتبہ نہیں دیا، بلکہ اسے سوتیلا سمجھ کر اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے رہے، آپ سے سوال یہ ہے کہ بیوی کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح کرنے کے لیے بچوں کی اجازت لینا ضروری ہے؟ اور کیا انہیں اعتراض کا حق ہے؟ اس دوسری بیوی کا بچوں پر کیا حق ہے؟ براہ کرم تمام سوالوں کے جواب مفصل عنایت فرمائیں تاکہ زید اپنے بچوں کو سمجھا سکے۔
(المستفتی : محمد ایوب، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بڑھاپے کی حالت میں اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو آدمی بے سہارا جیسا ہوجاتا ہے اور اس کو ایسا لگتا ہے کہ وہ بے یارو مددگار ہے، اس وقت بھی اس کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں جس میں وہ بیوی کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی مکمل دیکھ بھال اولاد اور بہوئیں نہیں رکھ سکتیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں جب وہ نکاحِ ثانی کرنا چاہے تو اولاد سے اجازت لینا دور کی بات ہے انہیں شرعاً اعتراض کا حق بھی نہیں ہے۔ اولاد اور خاندان کے دیگر افراد کا اس میں رکاوٹ بننا اور والد کو نکاحِ ثانی سے منع کرنا جائز نہیں ہے، نکاحِ ثانی کو معیوب سمجھنا ہندوستان کے غیر شرعی معاشرہ کا اثر ہے جو شریعت کے مطلوبہ مقصد کے خلاف ہے۔ بلکہ شریعت مطہرہ کا حکم تو یہ ہے کہ والد اگر نکاحِ ثانی کرنا چاہیں تو اولاد خود ان کے نکاح ثانی کا انتظام کرے۔ اور اگر والد نے نکاحِ ثانی کرلیا ہے اور وہ اخراجات پر قادر نہیں ہیں تو اولاد پر لازم ہے کہ والد کے خرچ کے ساتھ ساتھ والد کی دوسری بیوی جو اب ان کے لیے والدہ کے درجہ میں ہے اس کا نان ونفقہ بھی ادا کرے، یہ دوسری والدہ بھی حقیقی والدہ کی طرح بچوں کے حسنِ سلوک کی حقدار ہے، اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے ادبی دنیا وآخرت میں سخت خسارے کا باعث ہوگی، لہٰذا بچوں کو اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔

إلا أن یکون بالأب علۃ لا یقدر علی خدمۃ نفسہ ویحتاج إلی خادم یقوم بشأنہ ویخدمہ، فحینئذ یجبر الابن علی نفقۃ خادم الأب منکوحۃ کانت أو أمۃ (وقولہ) وإن احتاج الأب إلی زوجۃ والابن موسر وجب علیہ أن یزوجہ أو یشتری لہ جاریۃ۔ (الفتاویٰ ہندیۃ، ۱/ ۶۱۱/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الآخر 1441

بدھ، 29 جنوری، 2020

سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کرلے؟

*سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کرلے؟*

سوال :

زید کسی وجہ سے سجدہ سہو کررہا تھا مگر اس نے  بھول سے ایک ہی سجدہ کیا تو اس نماز کا کیا حکم ہوگا؟
(المستفتی : عبدالرحمن رفاعی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں ترکِ واجب یا تاخیرِ واجب یا تاخیرِ فرض کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے، لہٰذا اگر قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کرنا بھول جائے یا سجدۂ سہو میں ایک ہی سجدہ کرے اور سلام پھیرنے کے بعد یاد آئے جبکہ ابھی نماز کے منافی کوئی عمل نہیں ہوا ہے، مثلاً کسی سے بات نہیں کی ہے اور قبلہ سے سینہ نہیں پِھرا ہے تو فوری طور پر سجدۂ سہو کے دو سجدے کرکے تشہد وغیرہ پڑھ کر نماز مکمل کی جاسکتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے سلام کے بعد نماز کے منافی کوئی عمل نہ کیا ہو تو سجدۂ سہو کرکے دوبارہ التحیات وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے تو مکمل ہوجائے گی۔

معلوم ہونا چاہیے کہ سجدۂ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہے، لہٰذا اگر صرف ایک سجدہ ہوا اور سلام پھیرنے کے بعد نماز کے منافی کوئی عمل ہوگیا ہو تو سجدۂ سہو ادا نہیں ہوا، اس صورت میں اس نماز کا وقت گذرنے سے پہلے پہلے اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔

لونسي السہو، أو سجدۃ صلبیۃ، أو تلاویۃ یلزمہ ذلک مادام في المسجد، أي ولم یوجد منہ مناف، فإن وجد منہ مناف، أو خرج من المسجد قبل قضاء مانسیہ فسدت صلاتہ، إن کان علیہ سجدۃ صلبیۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، ۴۷۲)

كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ۔ (حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح، کتاب الصلوۃ، ٤٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الآخر 1441

منگل، 28 جنوری، 2020

بیوی کا دودھ پی لینے کا حکم

*بیوی کا دودھ پی لینے کا حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! زید مارے جوش کے اپنی بیوی کا پستان منہ میں لیتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بیوی کا دودھ اس کی حلق سے نیچے اتر گیا ہے، ایک مرتبہ دوستوں میں اس مسئلہ کو لے کر بحث ہوئی تو ایک دوست عُمر کہنے لگا کہ بیوی کا دودھ حلق سے نیچے اتر جائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ دلائل کے ساتھ بتائیں کہ عُمر کی بات صحیح ہے یا نہیں؟
(المستفتی : شعیب اختر، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مدتِ رضاعت یعنی بچے کے پیدا ہونے کے بعد دو سال کی عمر تک اس کے لیے کسی بھی عورت کا دودھ بالاتفاق حلال ہوتا ہے۔ لہٰذا اس عمر میں اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے، اور ان دونوں کا آپس میں نکاح ناجائز اور حرام ہوتا ہے۔ البتہ ڈھائی سال کی عمر گذر جانے کے بعد بچے کا اپنی والدہ یا کسی محرم و غیرمحرم عورت کا دودھ پینا بالاتفاق ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر کسی نے پی لیا تو ان دونوں کے درمیان رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ لہٰذا دودھ پلانے والی عورت اگر اس کی محرم نہ ہوتو ان دونوں کا آپس میں نکاح جائز اور درست ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے شہوت کے جوش میں اپنی بیوی کا پستان منہ میں لیا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کی بیوی کا دودھ اس کے حلق سے نیچے اتر گیا ہے تو زید کا یہ عمل حرام ہوا جس کی وجہ سے اس پر توبہ و استغفار اور آئندہ احتیاط لازم ہے۔ نیز اگر کبھی دودھ منہ میں آجائے تو اسے تھوک دیا جائے اور کلی کرکے منہ صاف کرلیا جائے۔ تاہم اس کی وجہ سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی اور دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔ سوال نامہ میں مذکور عُمر کا قول غلط فہمی اور ناقص علم پر مبنی ہے، لہٰذا اسے اپنے قول سے رجوع کرنا چاہیے۔


عن علی رضی اللہ عنہ قال : لا رضاع بعد فصال۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب الرضاع، باب رضاع الکبیر، دارالفکر بیروت۱۱/۴۶۴، رقم:۱۶۰۸۲)

وإذا مضت مدۃ الرضاع لم یتعلق بالرضاع تحریم، لقولہ علیہ السلام: لا رضاع بعد الفصال الخ۔ (ہدایۃ، کتاب الرضاع، اشرفي دیوبد ۲/۳۵۰)

(وہي) أي مدتہ (حولان ونصف) أي ثلاثون شہرًا من وقت الولادۃ عند الإمام ۔۔۔۔ (وعندہما حولان) وہو قول الشافعي ، وعلیہ الفتوی کما في المواہب ، وبہ أخذ الطحاوي ۔۔۔ وفي شرح المنظومۃ : الإرضاع بعد مدتہ حرام لأنہ جزء الآدمي والانتفاع بہ غیر ضرورۃ حرام علی الصحیح ۔ (۱/۵۵۲، کتاب الرضاع، الفتاوی الہندیۃ)

مص رجل ثدي زوجتہ لم تحرم۔ (در مختارمع الشامي، زکریا۴/۴۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الآخر 1441

ہفتہ، 25 جنوری، 2020

خواتین کی دعائیہ مجلس کی شرعی حیثیت

*خواتین کی دعائیہ مجلس کی شرعی حیثیت*

سوال :

مفتی صاحب آج کل ہر جگہ دعائیہ مجلس خاص طور پر مستورات کی چوک چوراہوں پر فلاں اور فلاں اورفلاں تنظیم کی طرف سے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جبکہ فرائض کی کوتاہی کھلم کھلا عام طور پر ہورہی ہے اس میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ رہنما ئی فرمادیں اللہ پاک آپکو بہترین بدلہ عطاء فرمائے۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے دینی تعلیم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث : 224)

چنانچہ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے ہر زمانہ میں خواتین اسلام کی دینی تعلیم کے سلسلے میں مختلف کوششیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں سے ایک کوشش یہ بھی ہے کہ انکے لئے پردے کے مکمل نظم کے ساتھ دینی مجالس انعقاد کیا جائے جس میں ان کے لیے دین سیکھنے سکھانے کا نظم ہو، جو ایک مستحسن عمل ہے، جس کا ثبوت درج ذیل روایت سے ملتا ہے :
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسوال اللہ ! زیادہ تر صرف مرد ہی آپ کی باتیں سنتے ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم عورتوں کے لیے ایک دن خاص کردیجیے۔ جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرسکیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ان کے لیے ایک دن خاص کردیا، عورتیں اس دن اکٹھا ہوئیں اور آپ علیہ السلام نے ان کے پاس جاکر انہیں وعظ و تلقین کی۔ (بخاری : ۱۰۱، ۹۴۲۱،۰۱۳۷)

معلوم ہوا کہ پردہ کی رعایت کرتے ہوئے دین سیکھنے کے لیے عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے خواہ اس کا انتظام مسجد میں ہو یا کسی ہال وغیرہ میں، بشرطیکہ وہاں ان کے لیے شرعی پردہ کا انتظام ہو۔

خواتین کی دعائیہ مجلس بھی اصلاً وعظ ونصیحت اور دین سیکھنے سکھانے کی مجلس ہے، دعا اس کے ضمن میں کی جاتی ہے، اور اس میں مرد علماء کے خطاب کا ثبوت بھی درج بالا بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوگیا۔

فرائض و واجبات کی عدم ادائیگی اور اس میں کوتاہی بہرصورت انتہائی مذموم عمل اور مستحق عتابِ خداوندی ہے۔ جس کی اصلاح محض دعائیہ مجالس کے انعقاد سے نہیں ہوسکتی، بلکہ وعظ ونصیحت اور تقریر وخطاب کے ذریعے عوام الناس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ : اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔

چنانچہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ دعائیہ مجالس میں خطاب ہونا لازمی ہے، اور اس کے اعلانات میں بھی خاص طور پر خطاب کو واضح کیا جائے۔ ورنہ صرف دعا جیسے نفل عمل کے لیے خواتین کو جمع کرنا مکروہ عمل ہے۔ اور جہاں تک بندے کے علم میں ہے شہر میں ہورہی دعائیہ مجالس میں بطورِ خاص خطاب کا نظم کیا جاتا ہے۔ البتہ ایسی مجالس کے مقررین اپنے خطاب میں خصوصاً اس بات پر زور دیں کہ یہاں ہورہی اجتماعی دعا پر اکتفا نہ کیا جائے، اسی کو مقصود نہ سمجھا جائے اور یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ اس طرح کی مجالس میں شرکت کرلینے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور فوری طور پر اللہ تعالٰی کی مدد ونصرت نازل ہوجائے گی۔ بلکہ انفرادی طور پر اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہا کر توبہ و استغفار کیا جائے، اور فرائض و واجبات کا مکمل طور پر اہتمام کیا جائے، کبیرہ و صغیرہ ہر طرح کے گناہوں سے کلی اجتناب ہو، کیونکہ اگر اُمت اسی طرح فرائض و واجبات کو چھوڑ کر گناہوں کے ساتھ زندگی گذارتی رہی تو صرف دعائیہ مجالس کا انعقاد اور اس میں شرکت کرکے حالات کے تبدیل ہونے کا گمان کرنا حماقت ہی کہلائے گا۔

الفتوی فی زماننا علی أنہن لا یخرجن وإن عجائز إلی الجماعات لا فی اللیل ولا النہار لغلبۃ الفتنۃ والفساد وقرب یوم المعاد۔ (شامی : ۲؍۳۰۷)

واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج لدینہ قال : من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد فی إقامۃ دینہ ، وإخلاص عملہ للہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ، وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ ، تعلم علم الوضوء والغسل والصلوۃ والصوم۔ (شامی : ۱/۱۲۱، قبیل مطلب فی فرض الکفایۃ وفرض العین)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 جمادی الاول 1441

مسجد کی وقف شدہ زمین پر موبائل ٹاور لگانا

*مسجد کی وقف شدہ زمین پر موبائل ٹاور لگانا*

سوال :

مسجد کی جگہ بہت وسیع ہے، فی الحال کئی سالوں تک اس کا استعمال نہیں ہوسکتا تو جیو کمپنی والوں نے آفر کیا ہے کہ ہم جیو کا ٹاور لگانا چاہتے ہیں اور اس کا کرایہ بھی دینگے تو کیا ذمےداران کا کرائے پر دینا جائز ہے؟
(المستفتی : حافظ الیاس جمالی، امام جامع مسجد، پاچورہ)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائل ٹاور کے استعمال کے اچھے بُرے دونوں پہلو ہیں، چنانچہ جو لوگ ٹاور سروس کا استعمال نیک کاموں میں کریں تو وہ اس کے لیے عنداللہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کریں تو اس کا گناہ خود استعمال کرنے والوں کے سر ہوگا، ٹاور کے لیے زمین کرایہ سے فراہم کرنے والا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہٰذا ٹاور لگانے کے لیے اپنی زمین کرایہ پر دینا شرعاً جائز اور درست ہے۔

اب رہا مسجد کی وقف شدہ زمین ٹاور لگانے کے لیے کرایہ پر دینا تو اس مسئلے میں مسلک دیوبند کے ایک معتبر ومؤقر ادارہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء کا جواب من وعن نقل کیا جارہا ہے۔

جو  جگہ ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے وہ    ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" (زمین کی تہہ) سے  آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، اس میں کوئی ایسا کام کرنا جو مسجد  کے مقاصد کے منافی ہو شرعاً جائز نہیں ہے، لہٰذا مسجد کی چھت  بھی مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس پر کسی موبائل کمپنی یا کسی اور کمپنی کا ٹاور لگانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ  جو جگہ مسجد کی ہو، مگر شرعی مسجد نہ ہو مثلاً مسجد کا وضو خانہ، بیت الخلا، اسٹور، مسجد کی دوکانیں وغیرہ، وہاں ٹاور لگانا جائز ہے۔

ذکر کردہ جواب سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جو جگہ مسجدِ شرعی سے الگ ہے، اور فی الحال مسجد کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے تو موبائل ٹاور لگانے کے لئے یہ جگہ کرایہ پر دی جاسکتی ہے، خواہ ٹاور جیو کمپنی کا ہو یا اور کسی اورکمپنی کا۔ نیز اس کا کرایہ بھی مسجد میں لگانا درست ہوگا۔ البتہ جب مسجد کو اس جگہ کی ضرورت ہوگی تو ٹاور کی جگہ خالی کروانا ضروری ہوگا۔ لہٰذا اس کا خیال رکھتے ہوئے موبائل کمپنی سے معاہدہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :
(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)
(فتوی نمبر :143909201740)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1441

جمعرات، 23 جنوری، 2020

بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! زید اپنے دوست عمر کے ساتھ بیٹھا ہوا اپنی بیوی کی کچھ غلط حرکتوں کو بیان کررہا تھا، اس نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی بیوی سے عاجز آچکا ہوں، اور آخر میں یہ کہا کہ تو گواہ رہنا میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے رہا ہوں۔ کیا بیوی کی غیر موجودگی میں ایسا کہنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع ہوگی؟ اگر طلاق واقع ہوگی تو کون سی؟ اور بیوی کی عدت کب سے شمار ہوگی؟
(المستفتی : ضیاء الدین، بمبئی)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق واقع ہونے کے لئے بیوی کا اُس جگہ موجود ہونا ضروری نہیں، نیز طلاق کے الفاظ کو سُنے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جبکہ زید نے یہ کہا ہے کہ "میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے رہا ہوں" تو ان الفاظ کی وجہ سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کی مدت میں زید کو رجوع کا اختیار ہوگا۔ اور جس وقت زید نے یہ الفاظ کہے ہیں اسی وقت سے عدت شروع ہوگئی، خواہ طلاق کا علم اس کی بیوی کو اسی وقت ہوا ہو یا بعد میں۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْءٍ۔ (سورۃ البقرۃ، جزء آیت : ۲۲۷)

واِبتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق وفی الوفاۃ عقیب الوفاۃ فان لم تعلم بالطلاق أو الوفاۃ حتی مضت مدۃ العدۃ فقد انقضت عدتہا۔ (ہدایہ : ۲/۴۰۵)

وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک أولم ترض۔ (ہدایہ : ٢/۳۹۴)

الطلاق، والعتاق یصح دون علم الآخر۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۹/۲۹۱)

ولایلزم کون الإضافۃ صریحۃ في کلامہ، کما في البحر: لو قال طالق فقیل لہ من عنیت، فقال: امرأتي طلقت امرأتہ۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، ۴/۴۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الاول 1441

منگل، 21 جنوری، 2020

سودی رقم دینی یا دنیاوی جلسہ کے اخراجات میں صَرف کرنا

*سودی رقم دینی یا دنیاوی جلسہ کے اخراجات میں صَرف کرنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ سود کی رقم جلسے میں اخراجات کی مد میں (اسٹیج وغیرہ کے اخراجات میں) استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر جلسہ دینی ہو یا دنیاوی دونوں کیلئے کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ فہد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا میں اصولی بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہوتو بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔

اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے خود کے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کی ادائیگی کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے، جب سود کی رقم انکم ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی، ان کے علاوہ سودی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے۔

درج بالا تفصیل سے اس بات کا بخوبی علم ہوگیا ہوگا کہ جلسہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے اخراجات میں سودی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سودی رقم کا مصرف نہیں ہیں، لہٰذا جلسہ کے اخراجات میں خالص حلال رقم استعمال کی جائے گی۔

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الاول 1441

دوبارہ زیر تعمیر مسجد میں پنج وقتہ نماز

*دوبارہ زیر تعمیر مسجد میں پنج وقتہ نماز*

سوال :

مفتی صاحب! اگر کوئی مسجد خستہ حال ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے منہدم کرنا پڑے تو اس زیر تعمیر مسجد میں پانچوں وقت کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ صحیح جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اگر مسجد میں نماز نہ ہوسکے تو کیا گناہ ملے گا؟
(المستفتی : وسیم احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں دوران تعمیر مسجد کے جماعت خانہ میں جماعت کرنا دشوار ہو تو مسجد کے احاطہ میں جہاں بھی جماعت کرنا ممکن ہو تو وقت پر اذان بھی دی جائے اور جماعت بھی کی جائے، اذان وجماعت کو موقوف کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر احاطہ مسجد میں کوئی ایسی جگہ نہ ہو جس میں باجماعت نماز ادا کرسکیں تو تعمیر مسجد کی تکمیل تک محلہ میں جہاں کہیں مناسب جگہ ہو وہاں پر جماعت سے نماز ادا کرسکتے ہیں، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو قریب کی کسی مسجد میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس صورت میں اہلیانِ محلہ گناہ گار نہیں ہوں گے۔

وتأویل ہذہ المسألۃ إذا لم یکن ہذا الرجل من أہل ہذہ المحلۃ وقد ذکر في الواقعات عن عن أبي حنیفۃ لأہل المسجد أن یہدموا المسجد ویجددوا بناؤہ۔( تاتارخانیہ ، زکریا ۸/۱۶۲، رقم: ۱۱۵۱۴، ہندیہ زکریا قدیم ۲/۴۵۷ جدید۲/۴۱۰)

وظاہر الآیۃ العموم في کل مانع وفي کل مسجد وخصوص السبب لا یمنعہ۔ (روح المعانی ، زکریا ۱/۵۷۲)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 جمادی الاول 1441

پیر، 20 جنوری، 2020

پِنشن جاری کرنے کے لیے ڈونیشن دینا

*پِنشن جاری کرنے کے لیے ڈونیشن دینا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید ایک اسکول میں ٹیچر ہے اور اب زید ریٹائرڈ ہونے والا ہے۔ زید کی پنشن لگی نہیں ہے، پنشن لگانے کے لیے زید کو ایک بڑی رقم ڈونیشن کے طور پر دینا پڑے گا تب زید کی پنشن جاری ہوگی۔ اس لئے ایسی صورت میں زید کا ڈونیشن دینا کیسا ہے؟ اور ڈونیشن کے ذریعے جاری ہوئی پنشن حلال ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئولہ صورت میں اگر زید پِنشن کا مستحق ہے لیکن کسی وجہ سے اس کی پِنشن جاری ہونے میں کوئی رکاوٹ آرہی اور اسے دور کرنے کے لیے کوئی ذمہ دار افسر یا انتظامیہ مالی مطالبہ کررہے ہوں اور ان کا مطالبہ پورا کئے بغیر کام نہ بنتا ہو تو اس صورت میں اس کا مطالبہ پورا کرنے کی گنجائش ہے، اس لئے کہ اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں زید گناہ گار نہ ہوگا اور ملنے والی پِنشن بھی اس کے لئے جائز اور حلال ہوگی۔

وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)

عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم)

والإسلام یحرم الرشوۃ في أي صورۃ کانت وبأي اسم سمیت فسمیتہا باسم الہدیۃ لا یخرجہا عن دائرۃ الحرام إلی الحلال۔ (الحلال والحرام في الإسلام ۲۷۱، بحوالہ فتاوی محمودیہ ڈابھیل۱۸/۴۶۳)

فأما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود ۱۱؍۲۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1441