پیر، 13 جنوری، 2020

عذر کی وجہ سے اسکول میں باجماعت نماز ادا کرنا

*عذر کی وجہ سے اسکول میں باجماعت نماز ادا کرنا*

سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! عرض تحریر یہ ہے کہ میں ایک اسکول میں معلم ہوں، ہمارے علاقے میں عام طور پر اسکول کا وقت صبح دس ساڑھے دس بجے سے شام پانچ بجے تک ہوتا ہے، درمیان میں تقریباً پینتیس چالیس منٹ کا وقفہ (درمیانی تعطیل) ہوتا ہے۔ اس درمیان ظہر کی نماز کا وقت ہوتا ہے، عموماً مسجدوں میں نماز ظہر کا وقت کہیں تو درمیانی تعطیل کے دوران ہوتا ہے اور کچھ جگہ نماز ظہر کے بعد۔ جو لوگ نماز کے پابند ہیں ان کے لئے بعض اوقات پریشانی ہوتی ہے کہ نماز ظہر کب ادا کریں؟
اگر مسجد کی جماعت کے وقت جاتے ہیں تو تعلیمی سلسلہ کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے، بعض اوقات اس درمیان طلبہ شور ہنگامہ برپا کرتے ہیں، اور کبھی کوئی ذمہ دار اچانک آجاتے ہیں تو شکایت ہوتی ہے۔
کچھ ذمہ دار یوں بھی کہتے ہیں کہ "جیسے نماز فرض ہے اسی طرح اپنی ڈیوٹی پوری کرنا بھی فرض ہے اور اس میں کوتاہی بھی گناہ ہے" ۔
اور اگر جماعت کی نماز چھوڑ کر وقفے میں تنہا ادا کریں تو جماعت کا ترک کرنا لازم آتا ہے۔ اس معاملے میں کچھ کوتاہی اور کچھ نامناسب بات جانبین سے سامنے آتی ہیں۔
لہٰذا ان تفصیلات کی روشنی میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں معتدل حکم کیا ہے؟
جس سے حکم شریعت اور ملازمت کے حقوق دونوں پر عمل ہوسکے۔
(المستفتی : توصیف احمد خان، جلگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، اور مردوں کے لئے باجماعت نماز ادا کرنے کو سنت مؤکدہ اور قریب قریب واجب قرار دیا گیا ہے، احادیث مبارکہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بلا عذر اس کے ترک پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ باجماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ۲۷؍ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری شریف ۱؍۸۹) 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۵۹)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو ضرور جلوادوں گا۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہایت بے مروتی اور کفر ونفاق کی علامت ہے کہ آدمی اذان سن کر نماز کے لئے حاضر نہ ہو۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۶۷)

لہٰذا مسلمان مردوں کو چاہیے کہ وہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، اس میں غفلت و سُستی کا مظاہرہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے۔

سوال نامہ میں مذکور ذمہ داروں کا یہ کہنا کہ "جیسے نماز فرض ہے اسی طرح اپنی ڈیوٹی پوری کرنا بھی فرض ہے اور اس میں کوتاہی بھی گناہ ہے" ۔ ان کی یہ بات دینی احکامات سے لاعلمی اور حقوق اللہ کی اہمیت کی اہمیت کو کماحقہ نہ سمجھنے پر مبنی ہے۔ فرض نماز ہر کام پر مقدم ہے۔ لہٰذا اس کی ادائیگی کے لیے ذمہ داروں کا چھٹی دینا ضروری ہے، اگر وہ اس عمل پر ناراض ہوتے ہیں تو ان کا یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ بعض اوقات مدرسین وملازمین کی طرف سے بھی ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے لہٰذا ان کو بھی چاہئے کہ نماز کے بہانے اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی نہ کریں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر درمیانی تعطیل کے وقت قریب کی کسی مسجد میں نماز مل جائے تو آپ حضرات وہیں جاکر فرض نماز ادا کرکے جلد واپس آجائیں تاکہ تاخیر کی صورت میں کسی کا نقصان نہ ہو۔ البتہ اگر اس کا موقع نہ مل سکے تو پھر درمیانی تعطیل میں آپ حضرات اسکول کے ہی کسی کمرے میں باجماعت نماز ادا کرلیں، اگر اسکول میں کسی مسجد کی اذان کی آواز آتی ہوتو اذان دینے کی ضرورت نہیں، بغیر اذان کے باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس صورت میں کوئی گناہ گار بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی انتظامی امور میں کسی قسم کا خلل ہوگا۔

عن معاذ بن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: الجفاء کل الجفاء، والکفر والنفاق: من سمع منادی اللّٰہ ینادي إلی الصلاۃ فلا یجیبہ۔ (مسند أحمد ۳؍۴۳۹)

وفي روایۃ للطبراني: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحسب المؤمن من الشقاء والخیبۃ أن یسمع المؤذن یثوب بالصلاۃ فلا یجیبہ۔ (الترغیب والترہیب مکمل ۱۰۷ رقم: ۶۲۵)

عن أسامۃ بن زید رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لینتہینّ رجال عن ترک الجماعۃ أو لأحرقن بیوتہم۔ (سنن ابن ماجۃ / کتاب المساجد باب: ۱۷، الترغیب والترہیب ۱؍۱۷۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

قال عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علمنا سنن الہدیٰ، وإن من سنن الہدیٰ الصلوٰۃ في المسجد الذي یؤذن فیہ۔ (صحیح مسلم ۱؍۲۳۲)

والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ، وقیل واجبۃ، وعلیہ العامۃ فتسن أو تجب - ثمرتہ تظہر في الإثم بترکہا مرۃ - علی العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ۔ (الدر المختار مع الرد المحتار ۲؍۲۸۷ زکریا)

والجماعة سنة موٴکدة للرجال ۔۔من غیر حرج (درمختار) قال الشامي: قید لکونہ سنة موٴکدة أو واجبة، فبالحرج یرتفع ویرخص في ترکہا ولکنہ یفوتہ الأفضل (درمختار مع الشامي، ۲/ ۲۸۷- ۲۹۱، باب الإمامة، زکریا)

وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفی بأذان القریۃ، أو البلدۃ إن کان قریبا، وإلا فلا، وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا، کذا في مختار الفتاوی، وإن أذنوا کان أولی۔ (ہندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الثاني في الأذان، زکریا قدیم ۱/ ۵۴، جدید ۱/ ۱۱۱)

إذ أذان الحي یکفیہ۔(رد المحتار :۲/ ۶۲۔)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں