بدھ، 15 جنوری، 2020

نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد بسم اللہ پڑھنے کا حکم

*نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد بسم اللہ پڑھنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب ! شہر میں ایک جگہ خواتین کا درس قرآن ہوتا ہے  وہاں پر کچھ دنوں پہلے عورتوں کی نماز کا طریقہ بتایا گیا وہاں ایک مسئلہ یہ بتایا گیا کہ سورہ فاتحہ کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے سورہ پڑھنا چاہیے اگر سورہ فاتحہ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورہ پڑھیں گے تو سجدہ سہو واجب ہو جائے گا کیا یہ صحیح ہے؟
(المستفتی : ریحان سردار، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ  سے پہلے  بسم اللہ  پڑھنا مسنون ہے، اور سورۂ  فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا اگرچہ مسنون نہیں ہے، لیکن فقہاء نے اسے بہتر کہا ہے۔ البتہ سورت  کے درمیان سے قرأت شروع کی جائے تو بسم اللہ نہ پڑھنا بہتر ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دارالافتاء میں ہے :
سورہٴ  فاتحہ اور سورت  کے  درمیان میں  بسم اللہ  پڑھنا بلاکراہت جائز ہے نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ لا تسن بین الفاتحة  والسورة  مطلقًا ولو سریة ولا تکرہ اتفاقًا۔(درمختار)۔ (جواب نمبر : 35589)

صاحبِ فتاویٰ قاسمیہ مفتی شبیر احمد قاسمی لکھتے ہیں :
اصل حکم یہ ہے کہ سورۂ  فاتحہ  اور سورت  کے  درمیان ’’بسم ﷲ‘‘ شریف پڑھنا جہراً یا سراً مسنون نہیں ہے، یہی امام اعظم کا مسلک ہے، مگر مکروہ بھی نہیں ہے۔ اور جن کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اس موقع پر  بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہئے وہاں مسنون نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح لکھا ہے۔ اور جن کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ پڑھنا جائز ہے، بلکہ بہتر ہے وہاں مکروہ نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح لکھا ہے، حاصل یہ ہے کہ مسنون نہیں ہے۔ اور اگر کوئی آہستہ سے پڑھ لیتا ہے تو اس کی گنجائش ہے، بہتر ہے۔

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ سوال نامہ میں بتایا گیا مسئلہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف افضل غیرافضل کا ہے۔ اس میں بہرحال کسی بھی صورت میں سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔

عن ابن عمر رضي اللہ عنہ أنہ کان إذا افتتح الصلاۃ قرأ  بسم اللہ الرحمن الرحیم، فإذا فرغ من الحمد قرأ  بسم  اللہ  الرحمن الرحیم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، مؤسسۃ علوم القرآن، جدید ۳/ ۳۷۷، رقم: ۴۱۷۸، قدیم رقم: ۴۱۵۵، المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/ ۲۴۵، رقم: ۸۴۱)

ولا تسن بین الفاتحۃ والسورۃ مطلقا ولو سریۃ، ولا تکرہ اتفاقا۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، کراچی ۱/ ۴۹۰، زکریا ۲/ ۱۹۲، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ، جدید، دارالکتاب دیوبند ۲۸۲)

واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ، بل ہو أحسن، سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا، دارالکتاب ۱/ ۲۶۰)

وروی عن أبي نصر عن محمد رحمہ ﷲ: أنہ یأتي بالتسمیۃ عند افتتاح کل رکعۃ، وعند افتتاح السورۃ أیضا، وفي الفتاوی الغیاثیۃ: وہو المختار۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث في کیفیۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۱۶۶، رقم: ۲۰۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 جمادی الاول 1441

2 تبصرے: