ہفتہ، 11 جنوری، 2020

ناشزہ کے نان ونفقہ کا مسئلہ

*ناشزہ کے نان ونفقہ کا مسئلہ*

سوال :

سوال کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی مسلم بیوی اپنے شوہر پر بے جا طریقے سے (یعنی شوہر نیک ہو اور  بیوی بچوں کے تمام حقوق ادا کرنے کیلئے کہتا ہو اور عملاً بھی راضی ہو مگر بیوی دو رنگی چال چلتے ہوئے یعنی زبان حال سے سوسار کیلئے حامی بھرے اور پیٹھ پیچھے شوہر کے خلاف سازشیں بھی رچے یعنی گیم کھیلے) یعنی کورٹ میں کھاؤٹی کا کیس درج کر دے جس کی مقدار موجودہ دور میں کورٹ کے قوانین کے اعتبار سے 4000 ماہانہ شوہر کو بھرنا لازم ہے  شوہر کے کسی بھی حالات پیش نظر نہ بھرنے کی صورت میں قانونی  اعتبار سے جیل میں قید کر دیا جائے گیا نیز شوہر مالدار بھی نہیں بلکہ روز کمانے کھانے والا ایک عام آدمی ہے مزید شوہر شریعت کے مطابق طلاق کے اخراجات دینے کیلئے راضی ہے مگر بیوی اس پر بھی راضی نہیں۔ تو مذکورہ بالا صورتحال میں کیا بیوی کو کھوٹی کا پیسہ کھانا حرام ہے؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : عابد حسین، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وہ عورت جو شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے میکے وغیرہ چلی جائے یا شوہر کو اپنے قریب آنے نہیں دیتی تو وہ شرعاً ”ناشزہ“ (نافرمان) کے حکم میں ہے، اور  ناشزہ کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے دنوں بیوی شوہر کی مرضی کے بغیر اپنے میکے میں رہے گی اتنے دنوں کا نان و نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جبکہ شوہر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے پاس رہے اور وہ اس کے تمام حقوق ادا کرے اور شوہر بھی اپنے حقوق سے استفادہ کرے، لیکن بیوی کا بجائے شریعت کے مطابق معاملات حل کرنے کے کورٹ میں کھاؤٹی کا کیس درج کردینا سراسر ظلم اور ناجائز عمل ہے۔ شوہر کے حقوق ادا نہ کرتے ہوئے شوہر کی مرضی کے بغیر بیوی کا میکے میں رہتے ہوئے کورٹ کے ذریعے شوہر سے کھاؤٹی حاصل کرنا جائز نہیں ہے، اور یہ مال بھی بیوی کے لیے حلال نہیں ہے۔

نیز شوہر اگر اسے طلاق دینا چاہتا ہے تو طلاق کے بعد شریعت مطہرہ نے شوہر پر کچھ ذمہ داری عائد کی ہے، چنانچہ بیوی کی عدت (تین ماہواری اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل) کی مدت میں اس کے رہنے سہنے کھانے پینے کا خرچ شوہر پر واجب کیا گیا ہے، شوہر اپنی حیثیت کے اعتبار سے  عدت کا خرچہ ادا کرے گا، شریعت کی طرف سے اس کی کوئی مخصوص مقدار متعین نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اولاد ہوں تو ان کے خرچ کا ذمہ دار بھی والد ہی ہے۔ لہٰذا ان کے علاوہ شوہر سے مزید کسی چیز کا مطالبہ کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

حضرت ابوحرہ رقاشی تابعی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا جان لو کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

اور اگر کسی نے ایسا کرلیا ہے اور اس ناجائز طریقہ سے کسی کا مال لے لیا ہے تو مالک کو اس مال کا واپس کرنا ضروری ہے، عدم واپسی کی صورت میں ایسے لوگ بروز حشر مستحق مؤاخدہ ہوگا۔

وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منہ ۔ (ہندیہ،۵۴۵/۱)

قال اللہ تعالیٰ : أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ ۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۶)

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۔ (سورۃ الطلاق، آیت : ۷)

ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، ۵۵۸/۱)

وإذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنی۔ (ہدایہ، اشرفی دیوبند ۲/۴۴۳)

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں