جمعرات، 30 جنوری، 2020

بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح کے لئے اولاد کا منع کرنا اور سوتیلی والدہ کے ساتھ بدسلوکی کرنا

*بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح کے لئے اولاد کا منع کرنا اور سوتیلی والدہ کے ساتھ بدسلوکی کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کی عمر ساٹھ سال ہے، پچپن سال کی عمر میں اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، چونکہ انسانی ضرورت کے تحت اس نے دو سال کے بعد دوسرا نکاح کرلیا، دوسرا نکاح کرنے کے لیے بھی بچوں نے منع کیا اور کہا کہ کیا ضرورت ہے اس عمر میں نکاح کرنے کی؟ پھر جب زید نے نکاح کرلیا تو زید کی بیوی کو بچوں نے والدہ کا مرتبہ نہیں دیا، بلکہ اسے سوتیلا سمجھ کر اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے رہے، آپ سے سوال یہ ہے کہ بیوی کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح کرنے کے لیے بچوں کی اجازت لینا ضروری ہے؟ اور کیا انہیں اعتراض کا حق ہے؟ اس دوسری بیوی کا بچوں پر کیا حق ہے؟ براہ کرم تمام سوالوں کے جواب مفصل عنایت فرمائیں تاکہ زید اپنے بچوں کو سمجھا سکے۔
(المستفتی : محمد ایوب، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بڑھاپے کی حالت میں اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو آدمی بے سہارا جیسا ہوجاتا ہے اور اس کو ایسا لگتا ہے کہ وہ بے یارو مددگار ہے، اس وقت بھی اس کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں جس میں وہ بیوی کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی مکمل دیکھ بھال اولاد اور بہوئیں نہیں رکھ سکتیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں جب وہ نکاحِ ثانی کرنا چاہے تو اولاد سے اجازت لینا دور کی بات ہے انہیں شرعاً اعتراض کا حق بھی نہیں ہے۔ اولاد اور خاندان کے دیگر افراد کا اس میں رکاوٹ بننا اور والد کو نکاحِ ثانی سے منع کرنا جائز نہیں ہے، نکاحِ ثانی کو معیوب سمجھنا ہندوستان کے غیر شرعی معاشرہ کا اثر ہے جو شریعت کے مطلوبہ مقصد کے خلاف ہے۔ بلکہ شریعت مطہرہ کا حکم تو یہ ہے کہ والد اگر نکاحِ ثانی کرنا چاہیں تو اولاد خود ان کے نکاح ثانی کا انتظام کرے۔ اور اگر والد نے نکاحِ ثانی کرلیا ہے اور وہ اخراجات پر قادر نہیں ہیں تو اولاد پر لازم ہے کہ والد کے خرچ کے ساتھ ساتھ والد کی دوسری بیوی جو اب ان کے لیے والدہ کے درجہ میں ہے اس کا نان ونفقہ بھی ادا کرے، یہ دوسری والدہ بھی حقیقی والدہ کی طرح بچوں کے حسنِ سلوک کی حقدار ہے، اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے ادبی دنیا وآخرت میں سخت خسارے کا باعث ہوگی، لہٰذا بچوں کو اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔

إلا أن یکون بالأب علۃ لا یقدر علی خدمۃ نفسہ ویحتاج إلی خادم یقوم بشأنہ ویخدمہ، فحینئذ یجبر الابن علی نفقۃ خادم الأب منکوحۃ کانت أو أمۃ (وقولہ) وإن احتاج الأب إلی زوجۃ والابن موسر وجب علیہ أن یزوجہ أو یشتری لہ جاریۃ۔ (الفتاویٰ ہندیۃ، ۱/ ۶۱۱/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الآخر 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں