ہفتہ، 11 جنوری، 2020

شہریت ترمیمی قانون حامیوں کا بائیکاٹ کرنا

*شہریت ترمیمی قانون حامیوں کا بائیکاٹ کرنا*

سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ہندستان میں این آر سی کا مسئلہ چل رہا ہے، اور اسی تعلق سے این آر سی کی حمایت میں مالیگاؤں شہر میں ہندو بھائیوں نے این آر سی کی حمایت میں ریلی نکالی۔ اس ریلی نکالنے والوں میں سوت کے بیوپاری اور کپڑا بیوپاری بھی تھے اب ہم لوگوں کا تانبا کانٹا پر ایک دوسرے کاروبار ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو بھی بیوپاری این آر سی اور سی اے اے کے حق میں ریلی نکالے انکا بائیکاٹ کرو۔ اس صورت میں بائیکاٹ کرنا شریعت سے درست ہے یا نہیں؟
(المستفتی : ریحان انصاری، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیرمسلموں کے ساتھ تجارتی معاملات کرنا شرعاً جائز اور درست ہے بشرطیکہ اس میں کوئی خلافِ شرع امر نہ ہو۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی غیرمسلموں کے ساتھ تجارت فرمائی ہے۔ بلکہ جب آپ علیہ السلام کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔

مقاطعہ یعنی سماجی یا کاروباری بائیکاٹ کا اصل مقصد سامنے والے کو راہِ راست پر لانا ہوتا ہے جس کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ملتا ہے۔

غزوہ تبوک میں تین کبار صحابہ، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم کو غزوہ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ آسمانی فیصلہ ہوا کہ ان تینوں سے تعلقات ختم کرلئے جائیں۔ ان سے مکمل مقاطعہ کیا جائے۔ کوئی شحص ان سے سلام و کلام نہ کرے۔ حتیٰ کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کے لئے کھانا بھی نہ پکائیں۔ یہ حضرات رو تے روتے نڈھال ہو گئے اور حق تعالیٰ کی وسیع زمین ان پر تنگ ہو گئی۔ وحی قرآنی کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ۔ (سورۃ توبہ، آیت : ۱۱۸)
ترجمہ: اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ بجز اسی کی طرف۔‘‘
پورے پچاس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔

لہٰذا شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کا اگر کاروباری بائیکاٹ کرنے میں اس بات کی امید ہو کہ وہ راہِ راست پر آجائیں گے اور اپنی غلط روش ترک کردیں گے تو ان کا کاروباری بائیکاٹ کرنے کی شرعاً اجازت ہوگی۔ البتہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کا  بائیکاٹ  کرنا بڑے بڑے فتنوں اورفسادات کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اس لئے ایسے فیصلوں پر مکمل غور وفکر کرکے عمل کرنا چاہئے، مثلاً دل کا آپریشن کرانا بہت مشکل ہے، خطرہ سے بھرا ہوا ہے مگر مجبوراً شفاء کی امید پر ہزار مرتبہ سوچ کر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح یہاں پر بھی عمل کرنا چاہئے۔ بائیکاٹ کے کچھ نقصانات اور اندیشے درج ذیل ہیں۔

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ سی اے اے کی حمایت میں جو لوگ بھی ہیں وہ عمومی طور پر غیرمسلم ہیں، اب اگر مسلمانوں نے شدت سے ایسے افراد کا بائیکاٹ کیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ مذہب کی محبت میں دیگر ہندو برادران جو فی الحال ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے ساتھ تو نہیں ہیں، لیکن ہمارے مخالف بھی نہیں ہیں وہ بھی ان کے ساتھ ہوجائیں گے، کیونکہ مذہب ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے۔ اور حکومت یہی چاہتی ہے کہ اسے ہندو مسلم ایشو بناکر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوجائے۔

ہمیں یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ ہمارا ملک ہندوستان ایک ہندو اکثریتی ملک ہے۔ مسلمانوں کا شدت سے ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا پورے احتجاج پر پانی پھیرنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی لڑائی براہِ راست حکومت سے ہے جو سیاہ قانون کا نافذ کرنا چاہتی ہے، اب ہم بجائے حکومت کے دوسروں سے الجھنے لگے اور انہیں اپنا دشمن سمجھنے لگے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم اپنے دشمن بڑھاکر اپنی طاقت کمزور کررہے ہیں۔

ہمارا شہر مالیگاؤں مسلم اکثریتی شہر ہے، لیکن اس جیسے شہر ملک میں کم تعداد میں ہیں، اکثر شہروں میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے، اگر بائیکاٹ کا سلسلہ چل نکلا تو ہندوؤں کی طرف سے بھی مسلمانوں کا بائیکاٹ ہوگا۔ لہٰذا جن شہروں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے وہاں انہیں ناقابل بیان تکلیف سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لہٰذا بائیکاٹ کا فیصلہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پیش نظر رکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔

پھر اس نکتہ پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم شہری سطح پر تو کسی کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں، لیکن آگے چل کر ہم کسی نہ کسی حامی سے تجارتی معاملات میں ضرور ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کیا کہا جائے گا؟

درج بالا اندیشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ صورتِ مسئولہ میں شہریت ترمیمی قانون کے حامی بیوپاریوں کو راہ راست پر لانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ ہمارے بُنکر بھائیوں کا ایک وفد ایسے بیوپاریوں سے براہِ راست ملاقات کرے اور اپنے جذبات اور اس کالے قانون کی خامیوں کو ان کے سامنے رکھے اور انہیں اس بات کے لیے قائل کرے کہ وہ اس سیاہ قانون کی حمایت ترک کردیں، کیونکہ بحیثیت ہندوستانی یہ قانون ہر کسی کی زندگی پر اثر انداز ہوگا، امید ہے کہ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں انہیں پیار ومحبت سے سمجھایا جائے، اگر خدانخواستہ اس سے کام نہ بنے تو اس ناراضگی کا اظہار اجتماعی طور پر نہ کیا جائے بلکہ انفرادی طور پر ایسے لوگوں سے تجارت کرنے میں احتراز کیا جائے۔ باقاعدہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف تحریک اور مہم نہ چلائی جائے جیسا کہ آج کل چل رہا ہے، ورنہ اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔

ملحوظ رہے کہ تجارتی معاملات میں غیرمسلم کے مقابلے میں بہرحال مسلمانوں کو فوقیت دینا بہتر ہے۔ ہمارے شہر میں مسلمانوں کی دوکانوں کو چھوڑ کر جو لوگ جھوٹی شان دکھانے کے لیے ایسے لوگوں کے شوروم جاتے ہیں انہیں اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر کوئی مسلمان ان سے تجارتی معاملات کرلے تب بھی وہ شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا، کیونکہ موجودہ حالات میں ان کا بائیکاٹ شرعاً واجب نہیں ہے بلکہ اسے صرف جائز کہا گیا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان ایسے لوگوں کے ساتھ تجارتی لین دین کرلیں تو انہیں لعن طعن کرنا بھی درست نہ ہوگا۔

ادْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃ۔ (سورۃ النحل :۱۲۵)

قال الطبری : قصۃ  کعب بن مالک اصل فی ہجران اہل المعاصی ۔۔۔ انما لم یشرع ہجرانہ (ای الکافر) بالکلام لعدم ارتداعہ بذالک عن کفرہ بخلاف العاصی المسلم فانہ ینزجر بذالک غالبا۔ (فتح الباری لابن حجر ۱۰/۴۱۵)

قال في الہدایۃ: کل ذٰلک یکرہ ولا یفسد بہ البیع؛ لأن الفساد في معنی خارج زائد لا في صلب العقد ولا في شرائط الصحۃ۔ (الہدایۃ، کتاب البیوع / فصل فیما یکرہ ۳؍۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں