ہفتہ، 25 جنوری، 2020

مسجد کی وقف شدہ زمین پر موبائل ٹاور لگانا

*مسجد کی وقف شدہ زمین پر موبائل ٹاور لگانا*

سوال :

مسجد کی جگہ بہت وسیع ہے، فی الحال کئی سالوں تک اس کا استعمال نہیں ہوسکتا تو جیو کمپنی والوں نے آفر کیا ہے کہ ہم جیو کا ٹاور لگانا چاہتے ہیں اور اس کا کرایہ بھی دینگے تو کیا ذمےداران کا کرائے پر دینا جائز ہے؟
(المستفتی : حافظ الیاس جمالی، امام جامع مسجد، پاچورہ)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائل ٹاور کے استعمال کے اچھے بُرے دونوں پہلو ہیں، چنانچہ جو لوگ ٹاور سروس کا استعمال نیک کاموں میں کریں تو وہ اس کے لیے عنداللہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کریں تو اس کا گناہ خود استعمال کرنے والوں کے سر ہوگا، ٹاور کے لیے زمین کرایہ سے فراہم کرنے والا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہٰذا ٹاور لگانے کے لیے اپنی زمین کرایہ پر دینا شرعاً جائز اور درست ہے۔

اب رہا مسجد کی وقف شدہ زمین ٹاور لگانے کے لیے کرایہ پر دینا تو اس مسئلے میں مسلک دیوبند کے ایک معتبر ومؤقر ادارہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء کا جواب من وعن نقل کیا جارہا ہے۔

جو  جگہ ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے وہ    ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" (زمین کی تہہ) سے  آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، اس میں کوئی ایسا کام کرنا جو مسجد  کے مقاصد کے منافی ہو شرعاً جائز نہیں ہے، لہٰذا مسجد کی چھت  بھی مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس پر کسی موبائل کمپنی یا کسی اور کمپنی کا ٹاور لگانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ  جو جگہ مسجد کی ہو، مگر شرعی مسجد نہ ہو مثلاً مسجد کا وضو خانہ، بیت الخلا، اسٹور، مسجد کی دوکانیں وغیرہ، وہاں ٹاور لگانا جائز ہے۔

ذکر کردہ جواب سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جو جگہ مسجدِ شرعی سے الگ ہے، اور فی الحال مسجد کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے تو موبائل ٹاور لگانے کے لئے یہ جگہ کرایہ پر دی جاسکتی ہے، خواہ ٹاور جیو کمپنی کا ہو یا اور کسی اورکمپنی کا۔ نیز اس کا کرایہ بھی مسجد میں لگانا درست ہوگا۔ البتہ جب مسجد کو اس جگہ کی ضرورت ہوگی تو ٹاور کی جگہ خالی کروانا ضروری ہوگا۔ لہٰذا اس کا خیال رکھتے ہوئے موبائل کمپنی سے معاہدہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :
(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)
(فتوی نمبر :143909201740)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں