اتوار، 5 جنوری، 2020

ٹرسٹیان/مینجمنٹ کے بچوں کا ماتحتوں پر رعب جمانا

*ٹرسٹیان/مینجمنٹ کے بچوں کا ماتحتوں پر رعب جمانا*

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک مسئلہ ہمارے شہر ہی کیا، بلکہ ہر جگہ موجود ہے، وہ یہ کہ چاہے مساجد ہوں، مدارس یا اسکولیں، مساجد کے ٹرسٹ حضرات، مینجمنٹ کے افراد بشمول چئیرمین، سکریٹری، وغیرہ، انکے جوان ہوتے ہوئے بچے ان تعلیم گاہوں (مدارس، مساجد، اسکول، کالجس) میں آکر اکثر معلمین، اساتذہ کرام اور دیگر اسٹاف کو اپنی پوزیشن (باپ دادا کی کرسی) بتاتے ہیں، جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ دورانیہ وقتی ہوا کرتا ہے، کوئی بھی مستقل کسی بھی ادارے، مسجد، مدرسے، اسکول، کالج کا ٹرسٹ، ذمہ دار نہیں رہتا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کا ایسا کرنا باعث پکڑ /سرزنش /گناہ نہیں ہے؟ کیا آخرت میں ایسے لوگوں کی پکڑ نہیں ہوگی جو اپنے باپ دادا کی موجودہ پوزیشن سے اپنے نیچے کام کرنے والوں کو ڈراتے، دھمکاتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ ان کی بات نہ ماننا کیسا ہے؟ جبکہ اسی جگہ پر کام بھی کرنا ہے۔
امید ہے کہ آپ مدلل جواب ارسال فرمائیں گے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت میں ملازمین اور ماتحتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان کی دل آزاری کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور ان کی غلطیوں پر درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس عنوان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد ارشادات موجود ہیں، یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنی وصیت میں آپ علیہ السلام نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز اس کا بہترین عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ جس کی گواہی دیتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں) مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اُف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (بخاری)

حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی کہ : اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمہیں اس غلام پر حاصل ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ میں نےعرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ، اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمہیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں جلا ڈالتی یا یہ فرمایا : جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ (مسلم)

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غلاموں (خادموں، ملازموں) کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کرنا برکت کا موجب ہے اور بد خلقی کا برتاؤ کرنا بے برکتی کا سبب ہے۔ (ابوداؤد)

ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کیا۔ یارسول اللہ ہم اپنے خدمت گاروں اور خادموں کی خطاؤں اور غلطیوں سے کتنی دفعہ درگزر کیا کریں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا سوال سن کر خاموش رہے۔ اس نے اپنا سوال دہرایا۔ حضور نے پھر بھی سکوت فرمایا جب اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ہر روز سو دفعہ درگزر کیا کرو ۔(ترمذی)

درج بالا تمہید سے معلوم ہوا کہ کسی بھی ادارہ اور مساجد کے بذاتِ خود ذمہ داروں کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ملازمین اور ماتحتوں پر رعب جمائیں اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئیں تو ان کی اولاد کو کیونکر یہ حق ہوسکتا ہے؟ ان کے بچوں کو قطعاً یہ حق نہیں ہے کہ وہ ادارہ کے ملازمین کو کوئی حکم کریں یا انہیں کسی بھی قسم کی دھمکی دیں یا دھونس جمائیں۔ ان کا یہ عمل سراسر ظلم اور سخت معصیت ہے۔ لہٰذا انہیں اس سے باز رہنا چاہیے ورنہ بروزِ حشر ان کی سخت گرفت ہوگی۔ نیز ملازمین اور ماتحتوں کے لیے ان کی بات ماننا ضروری بھی نہیں ہے۔

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما قال :جاء رجل الی النبیﷺ فقال : یا رسول اللہ کم اعفوعن الخادم؟ فصمت عنہ النبیﷺ ثم قال یا رسول اللہ کم اعفو عن الخادم قال کل یوم سبعین مرۃ۔ (ترمذی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں