ہفتہ، 25 جنوری، 2020

خواتین کی دعائیہ مجلس کی شرعی حیثیت

*خواتین کی دعائیہ مجلس کی شرعی حیثیت*

سوال :

مفتی صاحب آج کل ہر جگہ دعائیہ مجلس خاص طور پر مستورات کی چوک چوراہوں پر فلاں اور فلاں اورفلاں تنظیم کی طرف سے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جبکہ فرائض کی کوتاہی کھلم کھلا عام طور پر ہورہی ہے اس میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ رہنما ئی فرمادیں اللہ پاک آپکو بہترین بدلہ عطاء فرمائے۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے دینی تعلیم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث : 224)

چنانچہ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے ہر زمانہ میں خواتین اسلام کی دینی تعلیم کے سلسلے میں مختلف کوششیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں سے ایک کوشش یہ بھی ہے کہ انکے لئے پردے کے مکمل نظم کے ساتھ دینی مجالس انعقاد کیا جائے جس میں ان کے لیے دین سیکھنے سکھانے کا نظم ہو، جو ایک مستحسن عمل ہے، جس کا ثبوت درج ذیل روایت سے ملتا ہے :
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسوال اللہ ! زیادہ تر صرف مرد ہی آپ کی باتیں سنتے ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم عورتوں کے لیے ایک دن خاص کردیجیے۔ جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرسکیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ان کے لیے ایک دن خاص کردیا، عورتیں اس دن اکٹھا ہوئیں اور آپ علیہ السلام نے ان کے پاس جاکر انہیں وعظ و تلقین کی۔ (بخاری : ۱۰۱، ۹۴۲۱،۰۱۳۷)

معلوم ہوا کہ پردہ کی رعایت کرتے ہوئے دین سیکھنے کے لیے عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے خواہ اس کا انتظام مسجد میں ہو یا کسی ہال وغیرہ میں، بشرطیکہ وہاں ان کے لیے شرعی پردہ کا انتظام ہو۔

خواتین کی دعائیہ مجلس بھی اصلاً وعظ ونصیحت اور دین سیکھنے سکھانے کی مجلس ہے، دعا اس کے ضمن میں کی جاتی ہے، اور اس میں مرد علماء کے خطاب کا ثبوت بھی درج بالا بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوگیا۔

فرائض و واجبات کی عدم ادائیگی اور اس میں کوتاہی بہرصورت انتہائی مذموم عمل اور مستحق عتابِ خداوندی ہے۔ جس کی اصلاح محض دعائیہ مجالس کے انعقاد سے نہیں ہوسکتی، بلکہ وعظ ونصیحت اور تقریر وخطاب کے ذریعے عوام الناس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ : اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔

چنانچہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ دعائیہ مجالس میں خطاب ہونا لازمی ہے، اور اس کے اعلانات میں بھی خاص طور پر خطاب کو واضح کیا جائے۔ ورنہ صرف دعا جیسے نفل عمل کے لیے خواتین کو جمع کرنا مکروہ عمل ہے۔ اور جہاں تک بندے کے علم میں ہے شہر میں ہورہی دعائیہ مجالس میں بطورِ خاص خطاب کا نظم کیا جاتا ہے۔ البتہ ایسی مجالس کے مقررین اپنے خطاب میں خصوصاً اس بات پر زور دیں کہ یہاں ہورہی اجتماعی دعا پر اکتفا نہ کیا جائے، اسی کو مقصود نہ سمجھا جائے اور یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ اس طرح کی مجالس میں شرکت کرلینے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور فوری طور پر اللہ تعالٰی کی مدد ونصرت نازل ہوجائے گی۔ بلکہ انفرادی طور پر اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہا کر توبہ و استغفار کیا جائے، اور فرائض و واجبات کا مکمل طور پر اہتمام کیا جائے، کبیرہ و صغیرہ ہر طرح کے گناہوں سے کلی اجتناب ہو، کیونکہ اگر اُمت اسی طرح فرائض و واجبات کو چھوڑ کر گناہوں کے ساتھ زندگی گذارتی رہی تو صرف دعائیہ مجالس کا انعقاد اور اس میں شرکت کرکے حالات کے تبدیل ہونے کا گمان کرنا حماقت ہی کہلائے گا۔

الفتوی فی زماننا علی أنہن لا یخرجن وإن عجائز إلی الجماعات لا فی اللیل ولا النہار لغلبۃ الفتنۃ والفساد وقرب یوم المعاد۔ (شامی : ۲؍۳۰۷)

واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج لدینہ قال : من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد فی إقامۃ دینہ ، وإخلاص عملہ للہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ، وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ ، تعلم علم الوضوء والغسل والصلوۃ والصوم۔ (شامی : ۱/۱۲۱، قبیل مطلب فی فرض الکفایۃ وفرض العین)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں