جمعرات، 16 جنوری، 2020

قسطوں کے کاروبار کا شرعی حکم

*قسطوں کے کاروبار کا شرعی حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علمائے دین اس معاملے میں کہ زید نے نئی گاڑیاں قسط پر دینے کا کاروبار شروع کیا ہے اور اس میں کچھ رقم بطور ایڈوانس لے کر گاڑیاں دیتا ہے، لیکن باقی کے پیسے ایک طے شدہ رقم کے اضافے کے ساتھ قسطوں میں پیسے لیتا ہے، کیا زید کا یہ کاروبار شریعتِ مطہرہ کے لحاظ سے درست ہے یا نہیں؟ براہ کرم تفصیلی جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت کریں۔
(المستفتی : محمد عمار، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ قسطوں کی بیع یعنی instalment کا ہے۔جس کا شرعاً درست طریقہ یہ ہے کہ مجلسِ عقد یعنی گاڑی قسطوں پر لیتے وقت گاڑی کی قیمت، ادائیگی کی مدت طے ہوجائے، اگرچہ قسطوں پر طے کی گئی قیمت، نقد قیمت سے زیادہ ہو۔ لیکن اگر یہ طے کیا گیا کہ اگر کوئی قسط وقت پر ادا نہ ہوئی تو قیمت بڑھ جائے گی تو یہ معاملہ فاسد اور ناجائز ہوگا۔

مثال کے طور پر زید نے عمر کو کہا کہ اس گاڑی کی نقد قیمت پچاس ہزار ہے، اگر تو اسے ادھار خریدنا چاہتا ہے تو دو سال کی مدت میں یہ گاڑی ساٹھ ہزار کی دوں گا، چنانچہ عمر کی رضامندی پر بطور ایڈوانس کچھ رقم لے کر گاڑی عمر کے حوالے کردے تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے، بشرطیکہ قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں زید اس میں کسی بھی رقم کا اضافہ نہ کرے۔

جیسا کہ اوپر معلوم ہوا کہ کسی چیز کو ادھار فروخت کرنے کی صورت میں اس کی قیمت میں اضافہ کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے، بلکہ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہے :

ا) ادھار فروخت کرنے کی صورت میں زائد نفع لینے کی قرآن و سنت میں کوئی ممانعت موجود نہیں۔

۲) شریعت نے تجارت میں نفع کمانے کی کوئی خاص حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ اس کو خرید و فروخت کرنے والے جانبین کی باہمی رضامندی پر چھوڑے رکھا ہے البتہ نفع کمانے میں یہ ضروری ہے کہ جھوٹ، دھوکہ فریب اور اس طرح کے دیگر مذ موم امور سے خصوصی اجتناب کیا جائے تاکہ نفع، حرام کی آلودگی سے ملوث نہ ہو، اسی طرح ایک مسلمان کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نفع کمانے میں دوسروں کی مجبوری سے غلط فائدہ نہ اٹھائے بلکہ فرد سے لے کر معاشرے تک پر آنے والے ہر قسم کے خصوصی اور عمومی نامساعد حالات میں بھی ہمدردی کا جذبہ رکھے، یہ ایک مسلمان تاجر کی پہچان ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص ادھار فروخت کرنے کی صورت میں نفع کا تناسب زیادہ رکھتا ہے تو شرعی نقطہ نظر سے اس میں کوئی ممانعت نہیں، بلکہ اس کو حق حاصل ہے۔

۳) فروخت کرنے والا مارکیٹ ریٹ کا بہرحال پابند نہیں، بلکہ وہ مارکیٹ ریٹ سے کم و بیش قیمت مقرر کرکے بھی مال فروخت کر سکتا ہے، اس لیے اگر وہ ادھار فروخت کرنے کی صورت میں قیمت زیادہ مقرر کرلے تو اس میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ (مستفاد : ادھار اور قسطوں کے ذریعے کاروبار کے شرعی احکام)

البیع مع تأجیل الثمن وتقیسطہ صحیح۔ (شرح المجلۃ، بحوالہ: إسلامي فقہ ۲؍۳۳۹)

ویزاد في الثمن لأجلہ إذا ذکرالأجل مقابلۃ زیادۃ الثمن قصدًا۔ (البحر الرائق ۶؍۱۱۵، بدائع الصنائع ۴؍۳۵۸)

ویجوز البیع بثمن حال و مؤجل اذا کان الا جل معلوماً…ولا بدان یکون الا جل معلوماً لان الجھالۃ فیہ ما نعۃ عن التسلیم الواجب بالعقد فھذا یطالبہ بہ فی قریب المدۃ وھذا یسلم فی بعیدھا۔ (ہدایہ اخیرین، کتاب البیوع، ص: ٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں