بدھ، 30 جون، 2021

کیا اعراب کی غلطی کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک امام نے سورہ شعراء کی آیت فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ کو مُنذِرین پڑھ دیا تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لوگوں میں قلت علم کی وجہ سے زَلَّةُ الْقَارِی کے باب میں فقہاء نے بہت وسعت رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرأت میں غلطی ہونے کی وجہ سے معنی کو درست کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے اور دور دور کی تاویل کرکے نماز کو فساد سے بچایا گیا ہے۔ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے زلۃ القاری کے باب میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے یہی باتیں لکھی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دیکھا جائے تو اس غلطی کی بھی تاویل ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ منذِرین سے قوم لوط کو بھی مراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے لوط علیہ السلام کو جلا وطن کرنے کی دھمکی دی تھی اور انہیں ڈرایا تھا۔ تاہم اگر یہ تاویل قابل قبول نہ ہو تب بھی نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ متاخرین فقہاء کے نزدیک اعراب کی غلطی مفسد صلوۃ نہیں ہے خواہ معنی میں کیسا ہی فساد ہوجائے، فتوی اسی پر ہے۔ اور فقہ کی مشہور کتابوں مثلاً درمختار، شامی، ہندیہ، طحطاوی سب میں یہ مسئلہ موجود ہے، یہی وجہ ہے اکابر مفتیان کرام نے اسی کے مطابق جواب لکھا ہے جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرأت میں خطاً اعراب غلط پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ تو متقدمین اگرچہ ایسی غلطی میں جس سے معنی میں تغیر فاحش ہوجائے فساد صلوٰۃ کے قائل ہیں لیکن متاخرین میں سے بہت سے جلیل القدر فقہا فرماتے ہیں کہ نماز صحیح ہوجائے گی فاسد نہ ہوگی اور یہی قول مفتی بہ ہے۔ (کفایت المفتی : ٦/٢٧٩)

سابق مفتی دارالافتاء مفتی نظام الدین اعظمی نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں :
متقدمین کے نزدیک معنی میں تغیر فاحش نہ ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی متأخرین کے نزدیک اعراب کی غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوتی (الشامی) اور یوم یکون الآیۃ میں بجائے فتح کے سہواً کسرہ پڑھ جانے سے معنی میں تغیر فاحش نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اس غلطی سے متقدمین فقہاء ومتاخرین فقہاء کسی کے نزدیک فاسد نہیں ہوگی سب کے نزدیک درست ہوگی۔ (نظام الفتاویٰ : ٥/١٥٣)

ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
منزِلین کا منزَلین محض اعراب کی اس غلطی سے نماز فاسد نہ ہوگی اور نہ سجدئہ سہو لازم آئے گا مفتیٰ بہ قول میں اعاجم سے اس قسم کی غلطی مفعولہ ہے۔ (٥/١٥٤)

مفتی حمید اللہ جان رحمۃ اللہ علیہ (پاکستان) لکھتے ہیں :
صورتِ مسئولہ میں اعراب کی غلطی سے مفتی بہ قول کے مطابق نمازفاسدنہیں ہوتی۔ (ارشاد المفتین : ٣/٢٣٤)

مفتی دارالافتاء مدرسہ شاہی مراد آباد مفتی شبیر احمد قاسمی لکھتے ہیں :
ونمارق مصفوفۃ کے بجائے اگر ونمارق مصوفۃً بالفتح پڑھا تو نماز درست ہوگئی، اس لئے کہ اعرابی غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (فتاویٰ قاسمیہ : ٧/٢٦٢)

فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی تحریر فرماتے ہیں :
عربی زبان میں اعراب یعنی زبر، زیر، پیش کی بڑی اہمیت ہے، اور اکثر اوقات اس سے معنی میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے، اس لئے نماز میں خصوصا اور نماز کے باہر بھی قرآن مجید پڑھنے میں خوب احتیاط کرنی چاہئے، تھوڑی سی محنت اور کوشش کے ذریعہ ایسی غلطیوں سے بچاجاسکتا ہے، تاہم چونکہ اللہ تعالی نے خطأ اور بھول چوک کو معاف فرمایا ہے، اور خاص کر اہل عجم سے ایسی غلطیاں پیش آتی رہتی ہیں، اس لئے فقہاء کی رائے ہے کہ اگر زیر و زبر کی غلطی ہوجائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (کتاب الفتاویٰ : ٢/١٣٩)

صفہ دارالافتاء کراچی کا فتوی ہے :
اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، متقدمین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہو گی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے۔ (فتوی نمبر : ١٧٦)

مفتی سید نجم الحسن امروہی (پاکستان) لکھتے ہیں :
نماز کے دوران قراء ت کرتے وقت حرکات اور اعراب میں غلطی کرنے سے نماز میں کسی قسم کی خرابی اور نقصان واقع نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ حرکات اور اعراب میں غلطی کرنے سے معنی ومطلب میں تبدیلی اور فساد واقع ہوجائے۔ صورت مسئولہ میں اس غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوئی لہٰذا اس نماز کا دوبارہ اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ (نجم الفتاویٰ : ٢/٢١٥)

درج بالا تفصیلات سے بالکل واضح ہوگیا کہ صورتِ مسئولہ میں نماز فاسد نہیں ہوئی ہے، کیونکہ متاخرین فقہاء نے سینکڑوں سال پہلے لوگوں کی علمی حالت دیکھتے ہوئے یہ فتوی دیا تھا اور اب حالات تو اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں، مستند علماء کو بھی ہر وقت ہر ہر آیت کے معنی کا استحضار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے غلطی کا اندیشہ پہلے کی بہ نسبت کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا عموم بلوی کی وجہ سے اور مفتی بہ قول کی بنیاد پر یہی کہا جائے گا کہ نماز درست ہوگئی، اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں۔

وَمِنْهَا زَلَّةُ الْقَارِئِ فَلَوْ فِي إعْرَابٍ أَوْ تَخْفِيفِ مُشَدَّدٍ وَعَكْسِهِ، أَوْ بِزِيَادَةِ حَرْفٍ فَأَكْثَرَ نَحْوُ الصِّرَاطِ الَّذِينَ، أَوْ بِوَصْلِ حَرْفٍ بِكَلِمَةٍ نَحْوُ إيَّاكَ نَعْبُدُ، أَوْ بِوَقْفٍ وَابْتِدَاءٍ لَمْ تَفْسُدْ وَإِنَّ غُيِّرَ الْمَعْنَى بِهِ يُفْتَى بَزَّازِيَّةٌ۔ (الدر المختار : ٨٦)

(قَوْلُهُ فَلَوْ فِي إعْرَابٍ) كَكَسْرٍ قِوَامًا مَكَانَ فَتْحِهَا وَفَتْحِ بَاءِ نَعْبُدُ مَكَانَ ضَمِّهَا، وَمِثَالُ مَا يُغَيِّرُ - {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ} [فاطر: 28]- بِضَمِّ هَاءِ الْجَلَالَةِ وَفَتْحِ هَمْزَةِ الْعُلَمَاءِ، وَهُوَ مُفْسِدٌ عِنْدَ الْمُتَقَدِّمِينَ. وَاخْتَلَفَ الْمُتَأَخِّرُونَ؛ فَذَهَبَ ابْنُ مُقَاتِلٍ وَمَنْ مَعَهُ إلَى أَنَّهُ لَا يُفْسِدُ وَالْأَوَّلُ أَحْوَطُ وَهَذَا أَوْسَعُ، كَذَا فِي زَادَ الْفَقِيرِ لِابْنِ الْهُمَامِ، وَكَذَا - {وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ} [طه: 121]- بِنَصْبِ الْأَوَّلِ وَرَفْعِ الثَّانِي يُفْسِدُ عِنْدَ الْعَامَّةِ، وَكَذَا - {فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ} [الشعراء: 173]- بِكَسْرِ الذَّالِ -، وَ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ} [الفاتحة: 5]- بِكَسْرِ الْكَافِ وَ - الْمُصَوِّرُ - بِفَتْحِ الْوَاوِ إلَّا إذَا نَصَبَ الرَّاءَ أَوْ وَقَفَ عَلَيْهَا وَفِي النَّوَازِلِ : لَا تَفْسُدُ فِي الْكُلِّ وَبِهِ يُفْتَي بَزَّازِيَّةٌ وَخُلَاصَةٌ۔ (شامی : ١/٦٣١)

(وَمِنْهَا اللَّحْنُ فِي الْإِعْرَابِ) إذَا لَحَنَ فِي الْإِعْرَابِ لَحْنًا لَا يُغَيِّرُ الْمَعْنَى بِأَنْ قَرَأَ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتُكُمْ بِرَفْعِ التَّاءِ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ بِالْإِجْمَاعِ وَإِنْ غَيَّرَ الْمَعْنَى تَغْيِيرًا فَاحِشًا بِأَنْ قَرَأَ وَعَصَى آدَمَ رَبُّهُ بِنَصْبِ الْمِيمِ وَرَفْعِ الرَّبِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا لَوْ تَعَمَّدَ بِهِ يَكْفُرُ. إذَا قَرَأَ خَطَأً فَسَدَتْ صَلَاتُهُ فِي قَوْلِ الْمُتَقَدِّمِينَ وَاخْتَلَفَ الْمُتَأَخِّرُونَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ وَأَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ سَعِيدٍ الْبَلْخِيّ وَالْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ الْهِنْدُوَانِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ الزَّاهِدُ وَشَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ. وَمَا قَالَهُ الْمُتَقَدِّمُونَ أَحْوَطُ؛ لِأَنَّهُ لَوْ تَعَمَّدَ يَكُونُ كُفْرًا وَمَا يَكُونُ كُفْرًا لَا يَكُونُ مِنْ الْقُرْآنِ وَمَا قَالَهُ الْمُتَأَخِّرُونَ أَوْسَعُ؛ لِأَنَّ النَّاسَ لَا يُمَيِّزُونَ بَيْنَ إعْرَابٍ وَإِعْرَابٍ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَهُوَ الْأَشْبَهُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَبِهِ يُفْتَى. كَذَا فِي الْعَتَّابِيَّةِ وَهَكَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٨١)

الخطأ في الإعراب ويدخل فيه تخفيف المشدد وعكسه وقصر الممدود وعكسه وفك المدغم وعكسه فإن لم يتغير به المعنى لا تفسد به صلاته بالإجماع كما في المضمرات وإذا تغير المعنى نحو أن يقرأ وإذ ابتلى ابراهيم ربه برفع ابراهيم ونصب ربه فالصحيح عنهما الفساد وعلى قياس قول أبي يوسف لا تفسد لأنه لا يعتبر الإعراب وبه يفتي وأجمع المتأخرون كمحمد بن مقاتل ومحمد بن سلام واسمعيل الزاهد وأبي بكر سعيد البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا۔ (طحطاوی علی المراقی : ٣٦٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی القعدہ 1442

اتوار، 27 جون، 2021

عضو تناسل چھونے سے وضو کا حکم


سوال :

مفتی صاحب! بنا کپڑوں کے عضو خاص کو ہاتھ لگنے سے کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مفصل مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حامد سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسِّ ذکر یعنی بنا کپڑوں کے عضو تناسل کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے سلسلے میں دونوں طرح کی روایت ملتی ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے جبکہ حضرت طلق ؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے۔

لہٰذا اس تعارض کی صورت میں جب دیگر صحابہ کرام کے اقوال کی طرف رجوع کیا جائے تو ہمیں متعدد صحابہ کرام مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت ابودرداء، حضرت حذیفہ ابن یمان، حضرت عمار ابن یاسر، حضرت عمران ابن حصین، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار واقوال ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عضو تناسل چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، چنانچہ احناف کا یہی مسلک ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے۔ یہ تمام آثار امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں ذکر کیے ہیں جو ذیل میں موجود ہے۔ نیز مصنف ابن ابی شیبہ اور آثار طحاوی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

وَعَنْ طَلْقِ بِنْ عَلِیِّ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہ، بَعْدَ مَایَتَوَضَّأُ قَالَ وَھَلْ ھَوَ اِلَّا بُضْعَۃٌ مِنْہُ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُ وَ رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ

قَالَ مُحَمَّدٌ: لا وُضُوءَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَفِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ التَّيْمِيُّ قَاضِي الْيَمَامَةِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ: " أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مَسَّ ذَكَرَهُ، أَيَتَوَضَّأُ؟ قَالَ: هَلْ هُوَ إِلا بِضْعَةٌ مِنْ جَسَدِكَ "

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو الْمَكِّيُّ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وَأَنْتَ فِي الصَّلاةِ، قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسَسْتُهُ أَوْ مَسَسْتُ أَنْفِي»

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، أَخْبَرَنَا صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَيْسَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وُضُوءٌ»

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، حَدَّثَنَا قَابُوسُ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «مَا أُبَالِي إِيَّاهُ مَسَسْتُ، أَوْ أَنْفِي، أَوْ أُذُنِي»

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ حَبِيبٍ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، " أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي ذُبَابٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: «لَيْسَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وُضُوءٌ» .

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَوَّامِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: " يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، رَجُلٌ مَسَّ فَرْجَهُ بَعْدَ مَا تَوَضَّأَ؟ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ: إِنْ كُنْتَ تَسْتَنْجِسُهُ فَاقْطَعْهُ، قَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: هَذَا وَاللَّهِ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي مَسِّ الذَّكَرِ , قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسَسْتُهُ، أَوْ طَرْفَ أَنْفِي»

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، " أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ سُئِلَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ؟ فَقَالَ: إِنْ كَانَ نَجِسًا فَاقْطَعْهُ«

قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا مُحِلٌّ الضَّبِّيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، فِي مَسِّ الذَّكَرِ فِي الصَّلاةِ قَالَ» إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ "

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: " قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: إِنِّي أَحُكُّ جَسَدِي وَأَنَا فِي الصَّلاةِ فَأَمَسُّ ذَكَرِي، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ بِضْعَةٌ مِنْكَ
قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنِ السَّدُوسِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: " سَأَلْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، عَنِ الرَّجُلِ مَسَّ ذكَرَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ كَمَسِّهِ رَأْسَهُ "

مَسُّ الرَّجُلِ الْمَرْأَةَ وَالْمَرْأَةِ الرَّجُلَ لَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ.
مَسُّ ذَكَرِهِ أَوْ ذَكَرِ غَيْرِهِ لَيْسَ بِحَدَثٍ عِنْدَنَا. كَذَا فِي الزَّادِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی القعدہ 1442

ہفتہ، 26 جون، 2021

صحابی کی دعا پر چکی چلنے والے واقعہ کی تخریج

سوال :

کل خطبہ جمعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ایک واقعہ سنایا گیا کہ ایک صحابی کے گھر کھانے وغیرہ کے لئے کچھ تھا نہیں ان کی بیوی نے انہیں بتایا ۔ وہ صحابی مسجد گئے دو رکعت نماز پڑھی۔ اللہ سے دعا کی اور گھر آئے۔۔ بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا نہیں۔ وہ پھر مسجد آئے دو رکعت نماز پڑھی اللہ سے دعا کی۔ واپس گھر آئے بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا نہیں وہ پھر مسجد آئے پھر دو رکعت نماز پڑھی اللہ سے دعا کی پھر واپس آئے بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا آپ گھر کے اندر آؤ اور دیکھو آٹے کی چکی اپنے آپ چل رہی ہے اور کوئی گیہوں ڈالنے والا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے اور میں نے گھر کا ہر برتن آٹے سے بھر لیا ہے وہ صحابی اندر آئے انہوں نے منظر دیکھا اور چکی کے دونوں پاٹوں کو الگ کر دیا۔ پھر سارا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ان چکی کے پاٹوں کو الگ نہیں کرتے تو تا قیامت وہ چکی چلتے رہتی۔
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ درست ہے اور امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اسے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، اس واقعہ کو کرامات میں شمار کیا گیا ہے، اور یہ کرامت درحقیقت، فقر وفاقہ پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد وتوکل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اس روایت کو ذیل میں آسان فہم انداز میں ذکر کیا جارہا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ ایک دن اپنے گھر والوں کے پاس آیا یعنی کہیں باہر سے آ کر گھر میں داخل ہوا تو اس نے گھر والوں پر محتاجگی اور فاقہ وفقر کے آثار دیکھے، وہ یہ دیکھ کر اپنے اللہ کے حضور اپنی حاجات پیش کرنے اور یکسوئی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض ومناجات کرنے کے لئے جنگل کی طرف چلا گیا، ادھر جب اس کی بیوی نے یہ دیکھا کہ شوہر کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ شرم کی وجہ سے گھر سے باہر چلا گیا ہے تو وہ اٹھی اور چکی کے پاس گئی، چکی کو اس نے اپنے آگے رکھا یا اس نے چکی کے اوپر کا پاٹ نیچے کے پاٹ پر رکھا اور یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اس امید میں چکی کو صاف کیا اور تیار کر کے رکھ دیا کہ شوہر باہر سے آئے گا تو کچھ لے کر آئے گا اس کو پیس کر روٹی پکا لوں گی پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا، اس کے بعد اللہ سے یہ دعا کی۔ الٰہی! ہم تیرے محتاج ہیں ، تیرے غیر سے ہم نے اپنی امید منقطع کر لی ہے، تو خیرالرازقین ہے اپنے پاس سے ہمیں رزق عطا فرما۔ پھر جو اس نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتی ہے کہ چکی کا گرانڈ آٹے سے بھرا ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ آٹا گوندھ کر تنور کے پاس گئی تاکہ اس میں روٹیا لگائے تو تنور کو روٹیوں سے بھرا ہوا پایا یعنی اللہ کی قدرت نے یہ کرشمہ دکھایا کہ خود بخود اس آٹے کی روٹیاں بن کر تنور میں جا لگیں یا یہ کہ آٹا تو اپنی جگہ چکی کے گرانڈ میں پڑا رہا اور تنور میں غیب سے روٹیاں نمودار ہو گئیں راوی کہتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جب خاوند بارگارہ رب العزت میں عرض ومناجات اور دعا سے فارغ ہو کر گھر آیا تو بیوی سے پوچھا کہ کیا میرے جانے کے بعد تمہیں کہیں سے کچھ غلہ وغیرہ مل گیا تھا کہ تم نے یہ روٹیاں تیار کر رکھی ہیں؟ بیوی نے کہا ہاں یہ ہمیں اللہ کی طرف سے ملا ہے (یعنی یہ عام طریقہ کے مطابق کسی انسان نے ہمیں نہیں دیا ہے بلکہ یہ رزق محض غیب سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے) خاوند نے یہ سنا تو اس کو بہت تعجب ہوا اور وہ اٹھ کر چکی کے پاس گیا اور چکی کو اٹھایا تاکہ اس کا کرشمہ دیکھے) پھر جب اس واقعہ کا ذکر نبی کریم ﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپ ﷺ نے پورا قصہ سن کر فرمایا " جان لو" اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ شخص اس چکی کو اٹھا نہ لیتا تو وہ چکی مسلسل قیامت کے دن تک گردش میں رہتی اور اس سے آٹا نکلتا رہتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میری موجودگی میں فرمایا بخدا! یہ بات بہت بہترہے کہ تم میں سے کوئی آدمی پہاڑ پر جائے لکڑیاں باندھے اور اپنی پیٹھ پر لاد کر اسے بیچے اور اس سے عفت حاصل کرے بہ نسبت اس کے کہ کسی آدمی کے پاس جا کر سوال کرے۔ (١)

بہتر ہے کہ اس روایت کو اسی طرح بیان کیا جائے نفس واقعہ میں کمی بیشی نہ کی جائے، مثلاً صحابی رسول کا تین مرتبہ واپس آکر دریافت کرنا روایت میں نہیں ہے، لہٰذا اسے بیان نہ کیا جائے۔

١) حَدَّثَنَا ابْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ الْحَاجَةِ خَرَجَ إِلَى الْبَرِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى، فَوَضَعَتْهَا، وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ، ثُمَّ قَالَتِ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا. فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدِ امْتَلَأَتْ، قَالَ : وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ، فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا، قَالَ : فَرَجَعَ الزَّوْجُ، قَالَ : أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا ؟ قَالَتِ امْرَأَتُهُ : نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا. قَامَ إِلَى الرَّحَى. فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : " وَاللَّهِ، لَأَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ صِيَرًا، ثُمَّ يَحْمِلَهُ يَبِيعَهُ، فَيَسْتَعِفَّ مِنْهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا يَسْأَلُهُ۔ (مسند احمد، رقم : 10658)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی القعدہ 1442

بدھ، 23 جون، 2021

انتقال کے بعد لڑکی کے جہیز وغیرہ میں والدین کا حصہ؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! عرض ہیکہ زید کے لڑکے کی شادی دو سال قبل ہوئی تھی بہو ہندہ کا انتقال ہوگیا ہے اس کو کوئی اولاد نہیں ہے اس کے ترکہ میں لاکھوں کا جہیز ہے اور دو لاکھ روپیہ مہر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہندہ کے والد ہندہ کے ترکے میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں تو کیا ہندہ کے ترکے میں انکے والدین کا حصہ ہوگا؟ ہوگا تو شرعی حساب سے کتنا ہوگا؟ اور کیا ان کو اپنی مرحوم بیٹی کو دیئے گئے جہیز میں حصہ مانگنے کا حق ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی جواب دے کر شکریہ کا موقعہ دیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : امین وارثی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں ہندہ کی ملکیت کا جہیز مہر وغیرہ ترکہ بنے گا۔ ترکہ کا حکم یہ ہے کہ اس میں سے پہلے میت پر اگر قرض ہوتو وہ ادا کیا جائے گا اور اگر وصیت ہوتو تہائی مال سے پوری کرنے کے بعد جو بچے گا وہ شرعی اصول وضوابط کے مطابق وارثین میں تقسیم ہوگا۔

مرحومہ ہندہ کے شرعی وارثین میں بلاشبہ والدین بھی ہیں، لہٰذا ان کا اپنا شریعت میں مقرر کردہ حصہ مانگنے کا پورا پورا حق ہے۔ اور اس کی ترتیب یہ ہے کہ مرحومہ ہندہ کے کل مال کے چھ حصے کیے جائیں گے اور ذیل کے مطابق وارثین میں تقسیم کیے جائیں گے۔

ہندہ کی چونکہ کوئی اَولاد نہیں ہے لہٰذا شوہر کو کل مال کا نصف یعنی تین حصے ملیں گے۔

ہندہ کی والدہ کو بقیہ تین حصوں میں سے تہائی یعنی ایک حصہ ملے گا، والد عصبہ ہوں گے، لہٰذا بقیہ دو حصے انہیں مل جائیں گے۔

قَالَ اللہُ تعالیٰ : وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِیْنَ بِہَا۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۲)

وقَالَ تعالیٰ : فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ وَلَدٌ وَوَرِثَہٗ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہٖ الثُّلُثُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

إذ یفہم منہ أن الباقي للأب فیکون عصبۃً۔ (الشریفیۃ علی السراجي : ۵۷)

ھذا إذا لم یکن مع الأبوین أحد الزوجین، وأما إذا کان معہما أحدہما فلہا ثلثُ ما یبقیٰ بعد فرض أحد الزوجین۔ (الشریفیۃ : ۶۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی القعدہ 1442