بدھ، 30 جون، 2021

کیا اعراب کی غلطی کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک امام نے سورہ شعراء کی آیت فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ کو مُنذِرین پڑھ دیا تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لوگوں میں قلت علم کی وجہ سے زَلَّةُ الْقَارِی کے باب میں فقہاء نے بہت وسعت رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرأت میں غلطی ہونے کی وجہ سے معنی کو درست کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے اور دور دور کی تاویل کرکے نماز کو فساد سے بچایا گیا ہے۔ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے زلۃ القاری کے باب میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے یہی باتیں لکھی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دیکھا جائے تو اس غلطی کی بھی تاویل ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ منذِرین سے قوم لوط کو بھی مراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے لوط علیہ السلام کو جلا وطن کرنے کی دھمکی دی تھی اور انہیں ڈرایا تھا۔ تاہم اگر یہ تاویل قابل قبول نہ ہو تب بھی نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ متاخرین فقہاء کے نزدیک اعراب کی غلطی مفسد صلوۃ نہیں ہے خواہ معنی میں کیسا ہی فساد ہوجائے، فتوی اسی پر ہے۔ اور فقہ کی مشہور کتابوں مثلاً درمختار، شامی، ہندیہ، طحطاوی سب میں یہ مسئلہ موجود ہے، یہی وجہ ہے اکابر مفتیان کرام نے اسی کے مطابق جواب لکھا ہے جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرأت میں خطاً اعراب غلط پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ تو متقدمین اگرچہ ایسی غلطی میں جس سے معنی میں تغیر فاحش ہوجائے فساد صلوٰۃ کے قائل ہیں لیکن متاخرین میں سے بہت سے جلیل القدر فقہا فرماتے ہیں کہ نماز صحیح ہوجائے گی فاسد نہ ہوگی اور یہی قول مفتی بہ ہے۔ (کفایت المفتی : ٦/٢٧٩)

سابق مفتی دارالافتاء مفتی نظام الدین اعظمی نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں :
متقدمین کے نزدیک معنی میں تغیر فاحش نہ ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی متأخرین کے نزدیک اعراب کی غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوتی (الشامی) اور یوم یکون الآیۃ میں بجائے فتح کے سہواً کسرہ پڑھ جانے سے معنی میں تغیر فاحش نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اس غلطی سے متقدمین فقہاء ومتاخرین فقہاء کسی کے نزدیک فاسد نہیں ہوگی سب کے نزدیک درست ہوگی۔ (نظام الفتاویٰ : ٥/١٥٣)

ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
منزِلین کا منزَلین محض اعراب کی اس غلطی سے نماز فاسد نہ ہوگی اور نہ سجدئہ سہو لازم آئے گا مفتیٰ بہ قول میں اعاجم سے اس قسم کی غلطی مفعولہ ہے۔ (٥/١٥٤)

مفتی حمید اللہ جان رحمۃ اللہ علیہ (پاکستان) لکھتے ہیں :
صورتِ مسئولہ میں اعراب کی غلطی سے مفتی بہ قول کے مطابق نمازفاسدنہیں ہوتی۔ (ارشاد المفتین : ٣/٢٣٤)

مفتی دارالافتاء مدرسہ شاہی مراد آباد مفتی شبیر احمد قاسمی لکھتے ہیں :
ونمارق مصفوفۃ کے بجائے اگر ونمارق مصوفۃً بالفتح پڑھا تو نماز درست ہوگئی، اس لئے کہ اعرابی غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (فتاویٰ قاسمیہ : ٧/٢٦٢)

فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی تحریر فرماتے ہیں :
عربی زبان میں اعراب یعنی زبر، زیر، پیش کی بڑی اہمیت ہے، اور اکثر اوقات اس سے معنی میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے، اس لئے نماز میں خصوصا اور نماز کے باہر بھی قرآن مجید پڑھنے میں خوب احتیاط کرنی چاہئے، تھوڑی سی محنت اور کوشش کے ذریعہ ایسی غلطیوں سے بچاجاسکتا ہے، تاہم چونکہ اللہ تعالی نے خطأ اور بھول چوک کو معاف فرمایا ہے، اور خاص کر اہل عجم سے ایسی غلطیاں پیش آتی رہتی ہیں، اس لئے فقہاء کی رائے ہے کہ اگر زیر و زبر کی غلطی ہوجائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (کتاب الفتاویٰ : ٢/١٣٩)

صفہ دارالافتاء کراچی کا فتوی ہے :
اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، متقدمین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہو گی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے۔ (فتوی نمبر : ١٧٦)

مفتی سید نجم الحسن امروہی (پاکستان) لکھتے ہیں :
نماز کے دوران قراء ت کرتے وقت حرکات اور اعراب میں غلطی کرنے سے نماز میں کسی قسم کی خرابی اور نقصان واقع نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ حرکات اور اعراب میں غلطی کرنے سے معنی ومطلب میں تبدیلی اور فساد واقع ہوجائے۔ صورت مسئولہ میں اس غلطی سے نماز فاسد نہیں ہوئی لہٰذا اس نماز کا دوبارہ اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ (نجم الفتاویٰ : ٢/٢١٥)

درج بالا تفصیلات سے بالکل واضح ہوگیا کہ صورتِ مسئولہ میں نماز فاسد نہیں ہوئی ہے، کیونکہ متاخرین فقہاء نے سینکڑوں سال پہلے لوگوں کی علمی حالت دیکھتے ہوئے یہ فتوی دیا تھا اور اب حالات تو اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں، مستند علماء کو بھی ہر وقت ہر ہر آیت کے معنی کا استحضار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے غلطی کا اندیشہ پہلے کی بہ نسبت کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا عموم بلوی کی وجہ سے اور مفتی بہ قول کی بنیاد پر یہی کہا جائے گا کہ نماز درست ہوگئی، اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں۔

وَمِنْهَا زَلَّةُ الْقَارِئِ فَلَوْ فِي إعْرَابٍ أَوْ تَخْفِيفِ مُشَدَّدٍ وَعَكْسِهِ، أَوْ بِزِيَادَةِ حَرْفٍ فَأَكْثَرَ نَحْوُ الصِّرَاطِ الَّذِينَ، أَوْ بِوَصْلِ حَرْفٍ بِكَلِمَةٍ نَحْوُ إيَّاكَ نَعْبُدُ، أَوْ بِوَقْفٍ وَابْتِدَاءٍ لَمْ تَفْسُدْ وَإِنَّ غُيِّرَ الْمَعْنَى بِهِ يُفْتَى بَزَّازِيَّةٌ۔ (الدر المختار : ٨٦)

(قَوْلُهُ فَلَوْ فِي إعْرَابٍ) كَكَسْرٍ قِوَامًا مَكَانَ فَتْحِهَا وَفَتْحِ بَاءِ نَعْبُدُ مَكَانَ ضَمِّهَا، وَمِثَالُ مَا يُغَيِّرُ - {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ} [فاطر: 28]- بِضَمِّ هَاءِ الْجَلَالَةِ وَفَتْحِ هَمْزَةِ الْعُلَمَاءِ، وَهُوَ مُفْسِدٌ عِنْدَ الْمُتَقَدِّمِينَ. وَاخْتَلَفَ الْمُتَأَخِّرُونَ؛ فَذَهَبَ ابْنُ مُقَاتِلٍ وَمَنْ مَعَهُ إلَى أَنَّهُ لَا يُفْسِدُ وَالْأَوَّلُ أَحْوَطُ وَهَذَا أَوْسَعُ، كَذَا فِي زَادَ الْفَقِيرِ لِابْنِ الْهُمَامِ، وَكَذَا - {وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ} [طه: 121]- بِنَصْبِ الْأَوَّلِ وَرَفْعِ الثَّانِي يُفْسِدُ عِنْدَ الْعَامَّةِ، وَكَذَا - {فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ} [الشعراء: 173]- بِكَسْرِ الذَّالِ -، وَ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ} [الفاتحة: 5]- بِكَسْرِ الْكَافِ وَ - الْمُصَوِّرُ - بِفَتْحِ الْوَاوِ إلَّا إذَا نَصَبَ الرَّاءَ أَوْ وَقَفَ عَلَيْهَا وَفِي النَّوَازِلِ : لَا تَفْسُدُ فِي الْكُلِّ وَبِهِ يُفْتَي بَزَّازِيَّةٌ وَخُلَاصَةٌ۔ (شامی : ١/٦٣١)

(وَمِنْهَا اللَّحْنُ فِي الْإِعْرَابِ) إذَا لَحَنَ فِي الْإِعْرَابِ لَحْنًا لَا يُغَيِّرُ الْمَعْنَى بِأَنْ قَرَأَ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتُكُمْ بِرَفْعِ التَّاءِ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ بِالْإِجْمَاعِ وَإِنْ غَيَّرَ الْمَعْنَى تَغْيِيرًا فَاحِشًا بِأَنْ قَرَأَ وَعَصَى آدَمَ رَبُّهُ بِنَصْبِ الْمِيمِ وَرَفْعِ الرَّبِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا لَوْ تَعَمَّدَ بِهِ يَكْفُرُ. إذَا قَرَأَ خَطَأً فَسَدَتْ صَلَاتُهُ فِي قَوْلِ الْمُتَقَدِّمِينَ وَاخْتَلَفَ الْمُتَأَخِّرُونَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ وَأَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ سَعِيدٍ الْبَلْخِيّ وَالْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ الْهِنْدُوَانِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ الزَّاهِدُ وَشَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ. وَمَا قَالَهُ الْمُتَقَدِّمُونَ أَحْوَطُ؛ لِأَنَّهُ لَوْ تَعَمَّدَ يَكُونُ كُفْرًا وَمَا يَكُونُ كُفْرًا لَا يَكُونُ مِنْ الْقُرْآنِ وَمَا قَالَهُ الْمُتَأَخِّرُونَ أَوْسَعُ؛ لِأَنَّ النَّاسَ لَا يُمَيِّزُونَ بَيْنَ إعْرَابٍ وَإِعْرَابٍ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَهُوَ الْأَشْبَهُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَبِهِ يُفْتَى. كَذَا فِي الْعَتَّابِيَّةِ وَهَكَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٨١)

الخطأ في الإعراب ويدخل فيه تخفيف المشدد وعكسه وقصر الممدود وعكسه وفك المدغم وعكسه فإن لم يتغير به المعنى لا تفسد به صلاته بالإجماع كما في المضمرات وإذا تغير المعنى نحو أن يقرأ وإذ ابتلى ابراهيم ربه برفع ابراهيم ونصب ربه فالصحيح عنهما الفساد وعلى قياس قول أبي يوسف لا تفسد لأنه لا يعتبر الإعراب وبه يفتي وأجمع المتأخرون كمحمد بن مقاتل ومحمد بن سلام واسمعيل الزاهد وأبي بكر سعيد البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا۔ (طحطاوی علی المراقی : ٣٦٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی القعدہ 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں