منگل، 1 جون، 2021

عدت گزارنے کی حکمت ومصلحت

سوال :

مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ مرد کے مرنے کے بعد عورت عدت گذارتی ہے، صرف عورت کے لیے عدت کا حکم کیوں ہے؟ عورت کے انتقال کے بعد مرد کے لیے کیوں عدت نہیں ہے؟ براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : اشفاق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآنی آیات کے مطابق عدت گزارنے کا حکم صرف عورت کے لیے ہے، مردوں کے لیے نہیں۔ خواہ عورت مطلقہ ہو یا بیوہ اس کی متعینہ عدت گذارنا اس پر شرعاً ضروری ہے۔ (١) جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. (سورہ بقرہ، آیت 234)
ترجمہ : تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں، اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچ جائیں تو وہ اپنے بارے میں جو کاروائی (مثلا دوسرا نکاح) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ۔ (سورہ بقرہ، آیت 228)
ترجمہ : جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں۔

لہٰذا مطلقہ یا بیوہ کا عدت کی مدت گذرنے سے پہلے دوسری جگہ نکاح کرلینا جائز نہیں ہے۔ اور ایک مسلمان کے لیے کسی شرعی حکم پر عمل کے لیے بس اس بات کا علم ہوجانا کافی ہے کہ فلاں فلاں حکم اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے ہے، اس حکم کی حکمتوں اور مصلحتوں کا جاننا اس کے لیے ضروری نہیں، نہ ہی وہ اس کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

عورت کے عدت گزارنے کی مصلحت اور حکمت پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "حجۃ اللہ البالغہ" میں چند باتیں لکھی ہیں جو درج ذیل ہیں۔

پہلی مصلحت : براءت رحم .... عدت یہ بات جاننے کے لیے ہے کہ عورت کو حمل ہے یا نہیں؟ اور یہ بات معلوم ہونی اس لئے ضروری ہے کہ نسب میں اختلاط نہ ہو، یعنی کسی کا بچہ کسی اور کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔

دوسری مصلحت : نکاح کی اہمیت دوبالا کرنا ..... نکاح جب منعقد ہوتا ہے تو لوگوں کے اجتماع میں منعقد ہوتا ہے، کم از کم دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، یہ بات نکاح کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اسی طرح جب نکاح ختم کیا جاتا ہے تو لمبے انتظار (عدت) کے بعد عورت نکاح کرسکتی ہے۔ یہ بات بھی نکاح کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ہے، ورنہ نکاح بچوں کا گھروندا ہوجائے گا، جس سے دل بہلایا پھر توڑ کر برابر کردیا۔

تیسری مصلحت : ہمیشگی کا پیکر بنانا ..... نکاح کی مصلحتیں اس وقت تکمیل پذیر ہوتی ہیں، جب میاں بیوی بظاہر اس کو ہمیشہ باقی رکھنے کا پکا ارادہ رکھتے ہوں، پھر اگر کوئی ناگہانی بات پیش آئے، اور نکاح ختم کرنا ضروری ہو، تو بھی کسی درجہ میں ہمیشگی کا پیکر بنانا ضروری ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت اتنی مدت انتظار کرے جس کی کچھ اہمیت ہو۔ اور جس میں عورت کچھ مشقت جھیلے۔ تاکہ یہ ظاہر ہوکہ عورت مجبوراً دوسری جگہ جارہی ہے، وہ ٹلنا نہیں چاہتی تھی۔

فائدہ : عدت کی بنیادی مصلحت پہلی ہے، مگر اس کے ساتھ اور مصلحتیں بھی ملحوظ ہیں، اس لئے اگرچہ ایک حیض سے براءت رحم (رحم کا خالی ہونا) معلوم ہوجاتی ہے مگر دوسری مصلحتوں کو بروئے کار لانے کے لیے عدت تین حیض مقرر کی گئی۔

عدت وفات میں سوگ کرنے کی وجہ : شوہر کی وفات کی عدت میں سوگ(ترک زینت) کرنا دو وجہ سے واجب ہے۔

پہلی وجہ : شوہر کی وفات کے بعد اس کی بیوی پر عدت شوہر کے نسب کی حفاظت کے لیے واجب ہے، اس کو حکم ہے کہ انتظار کرے فوراً دوسرا نکاح نہ کرے اور دوسروں کو بھی یہ حکم ہے کہ زمانہٴ عدت میں منگنی نہ بھیجیں، اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ عورت زمانہٴ عدت میں زینت چھوڑ دے کیونکہ زیب وزینت مرد وزن دونوں کی خواہش ابھارتی ہے اور عدت میں شہوت کا ہیجان بڑی خرابی کا باعث ہوسکتا ہے۔

دوسری وجہ : دیرینہ رفاقت اور حسن وفا کا تقاضا یہ ہے کہ شوہر کی وفات پر عورت بدحال ہوجائے، غم کی تصویر بن جائے اور سوگ کرنے میں حسن وفا کے علاوہ بظاہر اپنی نگاہ شوہر پر روکنے کے معنی کو بروئے کار لانا بھی ہے، یعنی وہ شوہر کے لیے بنتی سنورتی تھی پس جب پیا ہی نہ رہا تو وہ کس کے لیے سنگار کرے؟ (رحمۃ اللہ الواسعۃ : 5/ 169)

والعدة واجبة من یوم الطلاق ویوم الموت، وذلک لقول اللہ تعالی: ”والمطلقات یتربصن بأنفہسن ثلاثة قروء إلخ“ (شرح مختصر الطحاوي، باب العدد والاستبراء، ۵/۲۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شوال المکرم 1442

4 تبصرے: