ہفتہ، 19 جون، 2021

زمانہ کو بُرا بھلا کہنے کا حکم

سوال :

بعض دفعہ بیان میں سنا کہ یہ برا زمانہ ہے یا بہت برا زمانہ آنے والا ہے، جبکہ حدیث میں زمانہ کو برا کہنا نہیں چاہیے ایسا معلوم ہوتا ہے، براہ مہربانی تشریح فرمائیں تو نوازش ہوگی۔
(المستفتی : تمیم بھائی، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں زمانہ کو برا بھلا کہنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ چند روایات ملاحظہ فرمائیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے، (یعنی اس طرح کہ) وہ زمانہ کو برا کہتا ہے جبکہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) میں ہی ہوں، سب تصریفات میں میرے قبضہ میں ہے، اور شب وروز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (متفق علیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ  فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ کہتا ہے ہائے زمانے کی ناکامی پس تم میں سے کوئی یہ نہ کہے ہائے زمانے کی ناکامی کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں میں اس رات اور دن کو بدلتا ہوں اور جب میں چاہوں گا ان دونوں کو بند کر دوں گا۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں کوئی شخص زمانہ کو برا نہ کہے کیونکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی زمانہ کو الٹ پھیر کرنے والا ہے۔ (مسلم)

زمانہ جاہلیت میں عام طور پر لوگوں کی عادت تھی کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی یا وہ کسی آفت میں مبتلا ہوتے تو یوں کہتے يا خَيْبَةَ الدَّهْرِ اور اس لفظ کے ذریعہ گویا وہ زمانہ کو برا کہتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگوں کی عادت ہے کہ وہ بات بات پر زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا کیونکہ زمانہ بذات خود کوئی چیز نہیں ہے حالات میں الٹ پھیر اور زمانہ کے انقلابات مکمل طور پر اللہ کے قدرت قبضہ میں ہیں کہ جس بھلائی و برائی اور مصیبت و راحت کی نسبت زمانہ کی طرف کی جاتی ہے حقیقت میں وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی فاعل حقیقی ہے پس زمانہ کو برا کہنا دراصل اللہ کو برا کہنا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیان میں یہ کہنا کہ یہ برا زمانہ ہے یا بہت برا زمانہ آنے والا ہے درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اِس زمانہ میں لوگوں کی دینی واخلاقی حالت خراب ہے یا آنے والے زمانے میں لوگوں کی دینی واخلاقی حالت بدتر ہوگی۔ البتہ اگر کہنے والے کی زمانہ سے مراد زمانہ کے لوگ ہوں تو پھر امید ہے کہ ایسا شخص اس وعید میں داخل نہیں ہوگا۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ یہ الفاظ استعمال نہ کیے جائیں، بلکہ مذکورہ بالا وضاحت کے ساتھ کہا جائے۔

وعَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ - ﷺ -: («قالَ اللَّهُ تَعالى: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وأنا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ والنَّهارَ») مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

(وعَنْ أبِي هُرَيْرَةَ): وإنَّما لَمْ يَقُلْ: وعَنْهُ؛ لِئَلّا يُتَوَهَّمَ مَرْجِعُهُ إلى ابْنِ عَبّاسٍ، فَإنَّهُ أقْرَبُ مَذْكُورٍ، وإنْ كانَ أبُو هُرَيْرَةَ هُوَ المُعَنْوَنُ فِي العُنْوانِ (قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ - ﷺ -: قالَ اللَّهُ تَعالى: يُؤْذِينِي) بِالهَمْزِ ويُبْدَلُ، أيْ يَقُولُ فِي حَقِّي (ابْنُ آدَمَ) ما أكْرَهُ، ويَنْسِبُ إلَيَّ ما لا يَلِيقُ بِي، أوْ ما يَتَأذّى بِهِ مَن يَصِحُّ فِي حَقِّهِ التَّأذِّي؛ ولِذا قِيلَ: هَذا الحَدِيثُ مِنَ المُتَشابِهِ؛ لِأنَّ تَأذِّيَ اللَّهِ تَعالى مُحالٌ فَإمّا أنْ يُفَوَّضَ وإمّا أنْ يُئَوَّلَ كَما تَقَدَّمَ، وقَدْ يُطْلَقُ الإيذاءُ عَلى إيصالِ المَكْرُوهِ لِلْغَيْرِ بِقَوْلٍ أوْ فِعْلٍ، وإنْ لَمْ يَتَأثَّرْ بِهِ فَإيذاءُ اللَّهِ تَعالى فِعْلُ ما يَكْرَهُهُ، وكَذا إيذاءُ رَسُولِ اللَّهِ - ﷺ - ومِنهُ قَوْلُهُ تَعالى: ﴿إنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ ورَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا والآخِرَةِ﴾ [الأحزاب ٥٧] (يَسُبُّ الدَّهْرَ) بِصِيغَةِ المُضارِعِ اسْتِئْنافُ بَيانٍ، ورُوِيَ بِحَرْفِ الجَرِّ وفَتْحِ السِّينِ وجَرِّ الدَّهْرِ، يَعْنِي ظَنًّا مِنهُ أنَّ الدَّهْرَ يُعْطِي ويَمْنَعُ ويَضُرُّ ويَنْفَعُ. (وأنا الدَّهْرُ) يُرْوى بِرَفْعِ الرّاءِ، قِيلَ: هُوَ الصَّوابُ، وهُوَ مُضافٌ إلَيْهِ أُقِيمَ مَقامَ المُضافِ أيْ أنا خالِقُ الدَّهْرِ، أوْ مُصَرِّفُ الدَّهْرِ، أوْ مُقَلِّبُهُ، أوْ مُدَبِّرُ الأُمُورِ الَّتِي نَسَبُوها إلَيْهِ، فَمَن سَبَّهُ بِكَوْنِهِ فاعِلَها عادَ سَبُّهُ إلَيَّ؛ لِأنِّي أنا الفاعِلُ لَها، وإنَّما الدَّهْرُ زَمانٌ جُعِلَ ظَرْفًا لِمَواقِعِ الأُمُورِ، وأتى بِأداةِ الدَّهْرِ مُبالَغَةً فِي الرَّدِّ عَلى مَن يَسُبُّهُ، وهُمْ صِنْفانِ: دَهْرِيَّةٌ لا يَعْرِفُونَ لِلدَّهْرِ خالِقًا ويَقُولُونَ: ﴿وما يُهْلِكُنا إلّا الدَّهْرُ﴾ [الجاثية ٢٤] أوْ مُعْتَرِفُونَ بِاللَّهِ تَعالى لَكِنَّهُمْ يُنَزِّهُونَهُ عَنْ نِسْبَةِ المَكارِهِ إلَيْهِ، فَيَقُولُونَ: تَبًّا لَهُ، وبُؤْسًا، وخَيْبَةً، ونَحْوَ ذَلِكَ. وقَدْ يَقَعُ مِن بَعْضِ عَوامِّ المُؤْمِنِينَ جَهالَةً وغَفْلَةً، ويُرْوى بِنَصْبِ الدَّهْرِ عَلى الظَّرْفِيَّةِ أيْ أنا الفاعِلُ أوِ المُتَصَرِّفُ فِي الدَّهْرِ، وقِيلَ: الدَّهْرُ الثّانِي غَيْرُ الأوَّلِ، فَإنَّهُ بِمَعْنى زَمانِ مُدَّةِ العالَمِ مِن مَبْدَأِ التَّكْوِينِ إلى أنْ يَنْقَرِضَ، أوِ الزَّمَنُ الطَّوِيلُ المُشْتَمِلُ عَلى تَعاقُبِ اللَّيالِي والأيّامِ، بَلْ هُوَ مَصْدَرٌ بِمَعْنى الفاعِلِ، ومَعْناهُ أنا الدّاهِرُ المُتَصَرِّفُ المُدَبِّرُ المُفِيضُ لِما يَحْدُثُ. وقالَ الرّاغِبُ: الأظْهَرُ أنَّ مَعْناهُ أنا فاعِلُ ما يُضافُ إلى الدَّهْرِ مِنَ الخَيْرِ والشَّرِّ والمَسَرَّةِ والمَساءَةِ، فَإذا سَبَبْتُمُ الَّذِي تَعْتَقِدُونَ أنَّهُ فاعِلُ ذَلِكَ فَقَدْ سَبَبْتُمُونِي۔ (مرقاة المفاتيح : ١/٩٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی القعدہ 1442

2 تبصرے: